آج ہمارے ملک کو جن بڑے مسائل کا سامنا ہے ان میں انتہا
پسندی سب سے نمایاں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے بہت سے مسائل انتہا پسندی ہی
کی دین ہیں۔ سیاسی عدم استحکام ہو، اداروں کے مابین تصادم کی کیفیت، دہشت
گردی یا صوبائی اور علاقائی اختلافات ۔۔۔ یہ سب انتہا پسندی کے شجر سے ہی
پھوٹتے ہیں۔ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ۱۴ اگست کو آزادی پریڈ سے
خطاب کرتے ہوئے بہت خوبصورت اور سادہ الفاط میں انتہا پسندی اور دہشت گردی
کا فلسفہ بیان کیا۔ انہوں نے کہا ’’ انسان ناقص اور محدود عقل کے ساتھ پیدا
ہوا ہے۔ لہذا کسی بھی انسان کا یہ دعوی کہ وہ صحیح یا غلط کے بارے میں آخری
فیصلہ دے سکتا ہے شرک کے مترادف ہے" ایک مثال دیتے ہوئے انہوں نے مزید واضح
کیا کہ " اگر آج کی پریڈ کو میں دنیا کی بہترین پریڈ قرار دوں تو یہ غلط ہو
گا کیونکہ میں نے پوری دنیا کے ممالک کی پریڈز دیکھی ہی نہیں ہیں۔سو اگر
اتنے معمولی معاملے پر میں حتمی فیصلہ نہیں کر سکتا تو زندگی اور مذہب کے
دیگر پیچیدہ معاملات پر میری رائے حتمی کیسے ہو سکتی ہے؟ اور ساتھ ہی یہ حق
بھی کہ مجھے اپنی رائے دوسروں پر مسلط کرنے اور تھوپنے کا حق ہے۔ یہ کھلی
انتہا پسندی ہے۔ اپنی ناقص اور محدود رائے کو ہر کسی پر مسلط کرنے کے لیے
طاقت یا بندوق کا سہارا لینادہشت گردی ہے‘‘۔
درحقیقت انفرادی اور اجتماعی سطح پر کوئی بھی سماجی، سیاسی یا مذہبی معاملہ
ہو ،ہم لوگ اپنی عدم برداشت کی وجہ سے انتہا پسندانہ رویہ اپنائے ہوتے ہیں۔
ٹریفک قوانین کی پابندی جیسے معمولی معاملے سے لیکر بین المسالک اور بین
الصوبائی معاملات تک۔۔۔ ہم ہمیشہ اپنی ذاتی سوچ اور نظریات تمام دوسرے
لوگوں پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔خود کو عقل کل تصور کیے
ہم دوسروں کی رائے کو یکسر نظر انداز کیے رہتے ہیں۔ہماری سوچ اور رویوں کی
یہی انتہا پسندی اور دوسروں کے لئے عدم برداشت ہمارے بہت سے مسائل اور
لڑائی جھگڑوں کی جڑ ہے۔
ہمارے ہاں سیاست میں بھی یہی عوامل کار فرما ہیں ۔۔ اپنی سوچ اور رائے کو
حتمی اور حرف آخر سمجھنا اور باقی تمام نقطہ ہائے نگاہ کو غلط قرار دینا
ہماری سیاست کی روایت بن چکی ہے۔ ہمارے سیاستدانوں اور نام نہاد لیڈروں کا
یہ حال ہے کہ یہ انتہا پسندی کسی فکری یا نظریاتی وابستگی کا شاخسانہ نہیں
بلکہ شخصی تعلق اور ذاتی مفادات سے جنم لیتی اور حالات کے مطابق ڈھلتی رہتی
ہے۔ وہی عمران خان جو شیخ رشید کو ’’ شیدا ٹلی‘‘ کا لقب دیتے اور انہیں
اپنے چپڑاسی کی پوسٹ کے بھی قابل نہ گردانتے تھے۔ آج انہیں اپنے پہلو میں
سجائے بیٹھے ہیں۔ اور کل تک صدر آصف علی زرداری کی سر پرستی حاصل کرنے کے
لیے کوشاں اور ان سے ملاقاتوں کے لئے بے تاب شیخ رشید اب ان کے عہدے اور
رمضان المبارک تک کا احترام بھلائے سر عام جلسے میں انہیں ’’باسٹرڈ‘‘ کے
نام سے پکارتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ان نام نہاد لیڈروں کی انتہا پسندی نہیں
تو اور کیا ہے۔ جسے بد قسمتی سے ہم نظریاتی یا فکری بھی قرار نہیں دے سکتے۔
عام طور پر سماجی اور سیاسی معاملات زندگی میں افراد اپنے ذاتی مفادات کو
ذہن میں رکھتے ہوئے کوئی بھی طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔مگر افسوس ناک بات یہ
ہے کہ مذہبی معاملات میں بھی ہم یہی روش اپنائے ہوئے ہیں اوریہاں بھی ہمارے
رویوں کی انتہا پسندی اور عدم برداشت عروج پر ہے۔ مختلف مسالک اور فرقوں سے
تعلق رکھنے والے علمائے کرام دوسروں پر زبردستی ا پنی ر ائے کا نفاذ کرتے
دکھائی دیتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ نا صرف اپنی رائے کو حتمی اور مستند
قرار دیتے ہیں بلکہ دوسرے تمام نظریات و افکار کو باطل قرار دیتے ہوئے مکمل
طور پر رد کر دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں آئے روز فرقہ وارانہ دہشت گردی اور کسی
خاص فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ ہمارے اسی انتشار اور عدم
برداشت کی دین ہے۔
بین المسالک معاملات کے حوالے سے یہی فکری اور نظریاتی انتہا پسندی بطور
قوم ہمارے اتحاد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اور ہمارے بہت سے مسائل کی جڑ
ہے۔ اس حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں
کا کردار تو ناکافی دکھائی دیتا ہی ہے۔مگر ہمارے علمائے کرام اور مذہبی
رہنما خاص طور پر اس سب کے ذمہ دار قرار دئیے جا سکتے ہیں ۔ جو ہر چھوٹے
بڑے معاملہ میں فروعی و فقہی مسائل میں باہم دست و گریباں پوری قوم کو کسی
ایک نقطہ پر متحد کرنے میں ہمیشہ ناکام رہتے ہیں۔ بعض اوقات تو ثانوی حیثیت
رکھنے والے یہ فروعی و فقہی مسائل مذہب کے بنیادی عقائد پر غالب دکھائی
دیتے ہیں۔اس حوالے سے عید کے چاند کی ہی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جو ہر بار
علاقائی اورمسالکی سیاست بازی کی نذر ہو جاتا ہے۔
اس بار تو خاص طور پر تین عیدیں منا کر ایک نیا ریکارڈ قائم کیا گیا ۔ تمام
مسالک اور علاقوں سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام اپنی شہادتوں کو مستند
اور حتمی قرار دیتے ہوئے دیگر شہادتوں کو رد کرتے رہے۔ یہ علمائے کرام اور
مذہبی رہنماؤں کی ناکامی نہیں تو اور کیا ہے کہ وہ پوری قوم کو روزوں کی
تعداد اور عید کے متفقہ دن کے حوالے سے متحد نہیں کر سکے۔ خیبر پختون خوا ہ
میں جب ایک روز وزیر اعلٰی ہاؤس میں نماز عید ادا کر کے خوشیاں منائی گئیں
اور اس سے اگلے روز گورنر ہاؤس میں۔۔۔۔ تو عوام کی کنفیوژن کا اندازہ
کیجیے۔
عالمی سطح پر بھی یہی بین المسالک اختلافا ت دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب سے زائد
مسلمانوں پر مشتمل اسلامی ممالک کو تقسیم کیے ہوئے ہیں۔ چند دن پہلے او۔
آئی ۔سی کا غیر معمولی اجلاس میں خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداﷲ نے اپنے
خطاب میں ان بین المسالک اختلافات کو مسلم امہ کے تمام مسائل کی جڑ قرار
دیتے ہوئے اتحاد کی اہمیت پر زور دیا ۔ انہوں نے اس مقصد کے لیے بین
المسالک مکالمے کے لیے ایک مرکزقائم کرنے کی تجویز بھی دی اور کہا کہ دنیا
بھر کے مسلمانوں کو فروعی و فقہی اختلافات بھلا کر ایک دوسرے کے مذہبی
مقامات کے تحفظ اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی سلامتی کے لیے متحد ہو جانا
چاہیئے۔اور یہ سچ بھی ہے کہ یہی فروعی اور فقہی مسائل دنیا بھر کے مسلمانوں
کو گروہ در گروہ تقسیم کیے ہوئے ہیں۔ او۔ آئی۔ سی ۵۷ مسلمان ممالک کی تنظیم
ہے جو دنیا بھر میں اقوام متحدہ کے بعد دوسری بڑی اور ایک ہی مذہب سے تعلق
رکھنے والے ممالک پر مشتمل دنیا کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔ اس کے باوجودیہ اثر
و رسوخ نہیں رکھتی اور غیر فعال ہے اور اس کی وجہ بھی باہمی انتشار اور بین
المسالک جھگڑے ہیں ۔ ایک طرف فلسطین، برما، کشمیرسمیت دنیا بھر میں
مسلمانوں کا استحصال کیا جاتا ہے اور ڈیڑھ ارب آبادی کی اکثریت اور او۔
آئی۔ سی جیسی تنظیم کے باوجود ہم اس ظلم کی روک تھام میں ناکام دکھائی دیتے
ہیں۔ اور دوسری طرف دنیا بھر میں عیسائی قوم پر ذرا سی بھی مشکل آئے تو
دنیا بھر کے ممالک اس کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی سطح پر تحمل و برداشت کو
فروغ دیں اور عدم برداشت اور انتہا پسندی کا رویہ ترک کر دیں ۔ ایک دوسرے
کے نقطہ نظر اور رائے کا احترام اور تحمل و برداشت کا فروغ ہمارے قومی اور
عالمی سطح پر اتحاد کی ضمانت ہے۔جو ہمارے تمام بڑے داخلی اور خارجی مسائل
کا حل اور ہمیں دنیا بھر میں سر خرو کرنے کاذریعہ ہے۔ |