گوجرانوالہ شہر میں قانون نے پھرا نگڑائی لی ہے چھابڑی
والوں پر وہی قانون اورضابطے قہر بن کرٹوٹ پڑے ہیں جونہ جانے کون کون سی
انتظامیہ کو مہینہ ادا کرتے رہنے کے باعث اب تک گہری نیند میں سوئے ہوئے
تھے اب کسی مروڑ یادرد کی طرح جاگے ہیں تو سارا زور انہی غریبوں کی ریڑھیاں
ہٹانے پہ صرف ہورہا ہے جو بظاہرتو ریڑھیاں کھینچتے پھر رہے ہیں لیکن دراصل
منہ زور مہنگائی کے اس دور میں دن بھر کی مشقت سے اپنے گھر کی گاڑی گھسیٹتے
ہیں اور ان لوگوں کا یہ واحدذریعہ معاش ہے،کوئی اوپر کی کمائی نہ کوئی اور
آس امید،بڑی بڑی ورکشاپس نے جی ٹی روڈ کے ساتھ سروس روڈز کو ایک مدت تک
ذاتی جاگیر بنائے رکھا مگر یہی انتظامیہ تھی کہ جس نے آنکھیں میچی ہوئی
تھیں،اب اچانک قانون کی آنکھ کھلی ہے توبلا امتیاز کارروائی کی آڑ میں ان
بے بس اور لاچار وں کو بری طرح رگڑا لگادیا ہے جو کسی دوکان کے آگے یا سڑک
کنارے عارضی چھابڑی قائم کرتے ہیں رزق حلال کماتے ہیں اور اس حلال رزق کے
لقموں کی خاطربہت سوں کو حرام کھلانے پر مجبور ہوتے ہیں،کس کس بھیس میں کون
کون ان سے بھتہ لینے پہنچ جاتا ہے کچھ نہ پوچھیں ،سرکار کے پاس ذاتی ڈاکوؤں
کی کیا کمی ہے ،محکموں کو لوٹنے کے لئے ان کے اوپر کئی کئی محکمے قائم ہیں
،نیچے سے اوپر تک سرکاری جیب کتروں کی ایک لائن لگی ہوئی ہے یہ عوام کی
جیبیں انہی قوانین اور ضابطوں کے نام پر کاٹتے ہیں جو رشوت کی ادائیگی کے
بعد موقع پر ہی غیر فعال ہوجاتے ہیں پاکستان میں یوں بھی اس شخص سے بد نصیب
کو ئی نہیں جو غریب ہے یا پھر جسکا سرکار ی دفتر سے پالا پڑ گیا ہو ان
دفتروں میں بیٹھے ہوئے گدھ عوام کو نوچنے کے لئے صبح گھر سے نکلتے ہیں اور
شام کو حرام کی کمائی سے نوٹوں کا بورابھر کر لے جاتے ہیں مگر کوئی ضابطہ
کوئی قانون انہیں نہیں پکڑتا،تھانوں میں مصالحتی کمیٹیوں کے نام پر ٹاؤٹوں
کا گروہ خود پولیس تشکیل دیتی ہے جس نے ایس ایچ او،سب انسپکٹر اور تفتیشی
کے ساتھ ساتھ اپنا حصہ بھی بٹورنا ہے،سو رشوت کے دام بھی بڑھتے ہیں اور
ملزم کے ساتھ ساتھ مدعی پربھی اس ضابطے کے مطابق رشوت دینی لازم ہو جاتی ہے
مگر کچھ سرکاری افسران رحم دل بھی ہوتے ہیں یہ بعض لوگوں کے کام صرف ایک
کھانا کھلانے کے عوض بھی کر دیتے ہیں،بنیادی طور پر ان کا شمار چٹورے
افسروں میں ہوتا ہے اور کھانے کے نام پر انکی رال ٹپک جاتی ہے،کچھ نہ لینے
سے ویسے بھی کچھ لے لینا ہی اچھا ہوتا ہے،مفت میں اب کون غریب لوگوں کے کام
کرتا پھرے،گوجرانوالہ میں ایک اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز شخصیت جو آج کل
اپنے عہدے سے محروم ہوچکی ہے اس حوالے سے اپنا ثانی نہیں رکھتی تھی،شاید ہی
ایسی کوئی ڈش ہو جو انہوں نے کسی نہ کسی کو گھیر کر نہ کھائی ہو ہر طرف
مسائل کے بھنور میں غوطے کھانے والوں کی بہتات ہے سو کوئی نہ کوئی انکے دام
میں پھنس ہی جایا کرتا تھا سنا ہے موصوف سالم بکرابھی ہڑپ کر جایا کرتے
تھے،سائلوں سے کھابے کھاناجیسے انہوں نے ضابطہ ہی تو بنا رکھا تھا، ایک
ایسی ہی باغ و بہار شخصیت جنہوں نے بظاہر تو مذہب کی بکل ماری ہوئی ہے ہے
لیکن ٹھیکیداری میں بھی بہت نام کما رکھاہے اور اس سے بھی زیادہ تعجب
اورحیرت کی بات یہ ہے انتظامیہ کوئی بھی ہووہ اسکی آنکھوں کا تارا بنے رہتے
ہیں،حکومت ق لیگ کی ہو یا ن لیگ کی ، ان کی صحت پر کوئی فرق نہیں
پڑتاسرکاری افسر آتے جاتے رہتے ہیں لیکن ان صاحب کامستقل ٹھکانہ ڈی سی او
آفس،اے سی صاحبان اور دیگر افسران کے دفاتر ہیں اور جناب جب صاحب کے ساتھ
محو استراحت ہوں تو کسی آلتو فالتو بندے کواندر جانے کی اجازت نہیں ملتی،
ٹاؤٹوں اور غریب غربا ء عوام کے لئے سرکا ر کے الگ الگ قوانین اور ضابطے
ہیں کاش کوئی ضابطہ ایسا بھی بنے کہ عوام کو دھتکارنے والے افسران موصوف
جیسے بہروپیؤں اورہتھیاروں کو بھی باہر سے ہی فارغ کرنے کی جسارت کر
سکیں،اہل سیاست میں بھی اپنے مطلب کے ضابطے رکھنے والوں کی کیا ہی بات
ہے،چند روز پہلے ووٹرز کی خاطر جان تک قربان کر دینے کی باتیں کرنے والے
بلدیاتی امیدوار الیکشن ملتوی ہونے کے بعد اب ایکدم عوام سے پردہ کرنے لگے
ہیں،الیکشن آفس بند ہو چکے اور چائے مٹھائی کھلانے والے اب کسی کو سادہ
پانی پوچھنے کو تیار نہیں ہیں،موسمی امیدواروں کایہ چلن عوام کو ذہن نشین
کر لینا چاہئے اور وقت آنے پر اپنے رویے سے اسکا مناسب جواب ضرور دینا
چاہیے، عوام سے زیادہ بہتر جوابدہی کوئی کر بھی نہیں سکتالیکن ہم میں ایسوں
کی بھی کمی نہیں جنہوں نے بعض شعبہ ہائے زندگی کو مقدس گائے قرار دے کر
اپنا الگ ہی ضابطہ بنا رکھا ہے ، فلاں پہ تنقید ہو سکتی ہے اور فلاں پر
نہیں،بھئی یہ کون سا اور کہاں کاضابطہ ہے ،تنقید کریں مگر سہنے کا حوصلہ
بھی پیدا کریں مشرف پر غداری کے مقدمہ کو فوج کے ساتھ محاذ آرائی قرار دینے
اور ریاست بچائیں یا دستور کی انوکھی منطق کے موجد بھی کیا کچھ کم ہیں یا
پھر اپنے اظہار کی آزادیوں کی خاطر کٹ مرنے کو تیارصحافی بھائی جنہیں اپنے
حقوق کا تو بہت خیال ہے لیکن اسکے ساتھ ساتھ انہیں دوسروں کو بھی اپنا نکتہ
ء نظر بیان کرنے کا مکمل حق دینا چاہئے صحافیوں کے بارے میں عام رائے ہے کہ
کوئی ان کا محاسبہ نہیں کر سکتا حکومتیں بھی ان کے دباؤ میں ہیں ،یہی وجہ
ہے کہ انہیں تنقید سننے کی عادت نہیں رہی کیا ہی اچھا ہو کہ اہل صحافت اس
منفی رائے کو بدلنے کے لئے پرانے ضابطوں سے نجات حاصل کر کے خود اپنے لئے
ضابطے وضع کر لیں اوراپنا محاسبہ خود کریں،مکمل آزادی کے ساتھ اپنا کام
کریں اور دوسروں کوبھی انکے اظہار رائے کے حق سے محروم نہ کریں بھلاہو توسب
کا خیر ہو تو سب کی۔ |