ہم پاکستانی ایک مدت سے غیر
اعلانیہ حالتِ جنگ میں ہیں۔۔۔ایک مدت کی جگہ آپ ۱۴ آگست ۱۹۴۷ سے بھی پڑھ
اور سمجھ سکتے ہیں۔۔۔ہمارے دشمن نے ہمیں ایک لمحے کے لئے سکھ کا سانس نہیں
لینے دیا ۔۔۔حیلے بہانوں سے ہمیں الجھائے رکھا ہے۔۔۔یہ مصائب شکلیں بدل بدل
کر ہمارے سامنے آتے رہے ۔۔۔کبھی زبانی جمع خرچ سے حالات اتنے گھمبیر ہوئے
کہ فوجوں کو ہائی الرٹ کرنا پڑا۔۔۔کئی بار تو نوبت بدبھیڑ تک آپہنچی
۔۔۔تفصیل سے ہم سب بہت خوب آگاہ ہیں۔۔۔ہم تب سے آج تک لاشیں اٹھا رہے ہیں
اورماتم منا رہے ہیں۔۔۔ہم پاکستانی سال میں کتنے ہی (ہر دن بھی کہوں تو غلط
نہیں)دن سوگ مناتے ہیں۔۔۔کبھی کسی عالمِ دین کی موت کا سوگ ۔۔۔کبھی کسی
سیاست دان کی موت کا سوگ۔۔۔کبھی کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے کہ اوپر
حملے کا سوگ ۔۔۔کبھی کسی سیاسی کارکن کی موت کا سوگ ۔۔۔ایک عام شہری یا
دیہاتی کی موت تو کوئی بات نہیں رہی۔۔۔ہماری حفاظت پر معمور و ذمہ دار
قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی حفاظت کے لئے پریشان ہیں۔۔۔ہم پاکستانی
چلتے پھرتے سوگ کی شکل ہوتے جارہے ہیں۔۔۔مگر ہم نے کبھی اپنے دشمن کو دشمن
کہنا تو دور کنار اسکی طرف دیکھنا گوارا نہیں کیا۔۔۔ہم وانا وزیرستان ،
بلوچستان اور کراچی میں طاقت کہ بل بوتے پر آپریشن کرنے کو تیارہیں۔۔۔مگر
پوشیدہ ہتھکنڈوں کو ظاہر کرنے سے گریزاں ہیں۔۔۔
طالبان سے مذاکرات کا دور چل رہا ہے۔۔۔ہم تمام پاکستانی ان مذاکرات کی
کامیابی کیلئے دعا گو ہیں۔۔۔پاکستان تاریخ کہ ایک اور اہم ترین دور سے گزر
رہا ہے۔۔۔یقینا پاکستان اور پاکستانیوں کہ دشمن سازشی عناصر سر جوڑے بیٹھے
ہونگے کہ کس طرح ان تاریخ ساز مذاکرات کا راستہ روکیں یا اس سلسلے کو
توڑیں۔۔۔ہمیں اپنی صفوں میں مثالی اتحاد اور یگانگت قائم کرنا ہے۔۔۔جسکی
بدولت کالی بھیڑوں کو مار بھگایا جاسکتا ہے ۔۔۔ یہ کہنا تو ٹھیک نہیں کہ یہ
آخری موقع ہے۔۔۔مگر ہم اسے آخری موقع سمجھ کر آگے چلیں تو یقینا منزل ہمارے
قدم چومے گی۔۔۔قسمت ہمیشہ بہادروں کا ساتھ دیتی ہے ۔۔۔ہماری حکومت نے ایک
بہت ہی دلیرآنہ اور قابلِ تحسین قدم اٹھایا ہے ۔۔۔(یہ جانتے ہوئے کہ آپ
قارئین مسکراتے ہوئے سوچ رہے ہونگے کہ یہ سب ایک ڈرامہ ہے)۔۔۔ آپ سب سے اس
مختصر سے مضمون کہ توسط سے یہ درخواست کرنی ہے کہ خدائے بزرگ و برتر کہ
حضور ہاتھ اٹھا کر دعا کریں کہ اب یہ بساط سمٹ جانی چاہئے۔۔۔اس چھوٹی سی
نظم پر اختتام کرتا ہوں۔۔۔
ـ یہ بازی سمیٹ لو!
اب کوئی نہ کوئی نتیجہ نکل آنا چاہئے۔۔۔
یہ خون کی ہولی بند ہونی چاہئے۔۔۔
ہمارے کاندھے بے گناہ ومعصوم لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک چکے ہیں۔۔۔
ماتم زدہ سینے سیاہ ہو چلے ہیں ۔۔۔
ہماری آنکھوں سے آنسو خشک ہونے سے پہلے ۔۔۔
ہمارے ہاتھوں سے صبر کا دامن چھوٹنے سے پہلے ۔۔۔
ہماری زبانوں پر بددعا آنے سے پہلے ۔۔۔
مجبوری سے یا محبت سے ۔۔۔
ایک دوسرے کو برداشت کرلو۔۔۔
ہم سب کی بقا اسی میں ہے۔۔۔
یہ خون کی ہولی روک لو۔۔۔
خدارا ! یہ بازی سمیٹ لو۔۔۔
|