علم

21 ویں صدی کی آمد سے قبل دنیا کے ترقی قافتہ ممالک نے ٹیکنالوجی کے فروغ کیلئے اقدامات تیز کردیئے، ٹیلیفون نے ترقی کرتے ہوئے وائرلیس فون کی شکل اختیار کی۔ وائرلیس سے موبائل فون۔۔ٹیبلٹ۔۔نوٹ بک وغیرہ تشکیل پائی۔سولر انرجی نے دنیا کو متبادل ذرائع حرارت فراہم کیا۔ پرنٹ میڈیا ترقی کرتا ہوا الیکٹرانک میڈیاکی دنیا میں شامل ہوگیا۔یعنی ہر طرف ٹیکنالوجی کی باتیں ہونے لگی۔ صبع شام نت نئی اشیاء مارکیٹ میں متعارف ہونے لگی۔

ٹیکنالوجی کی دریافت ترقی یافتہ ممالک میں ہوئی اس لیے اس کا بھرپور استعمال بھی ترقی یافتہ ممالک میں ہوا۔ سکولوں۔۔کالجوں۔۔یونیورسٹیوں میں کتابوں کی جگہ کمپیوٹر۔۔لیپ ٹاپ اور Note Book کا زمانہ آگیا ہے۔طالب علم اپنی کتابوں کو لیپ ٹاپ میں SAVEکرلیتے ہیں ، اس عمل سے طالب علموں کو کتابوں کے بستہ کا وزن برداشت کرنے سے نجات مل گئی ہے۔اب طالب علم اپنے مضمون اور موضوع پرگھر بیٹھے باآسانی ریسرچ کرسکتے ہیں۔یعنی 2014 میں جو کام پاکستان میں سرکاری یونیورسٹیوں کے طالب علم نہیں کرسکتے وہ امریکہ ۔۔برطانیہ اور جاپان میں مڈل کلاس کا طالب علم کرسکتا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک کی تاریخ کا عمیق مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 20 ویں صدی میں انہوں نے اپنی آنے والی نسل کو اعلیٰ تعلیم سے آرائستہ کیا، ذہین طالب علموں کو وظیفہ دیکر اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ پھر ان طالب علموں نے ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک نیا انقلاب برپا کردیا ہے۔انہوں نے چاند و مریخ کی معلومات تیسری دنیا کو مہیا کی، اور ترقی یافتہ ممالک کے سیاح چاند کی سیر کو جاتے ہیں۔

اس وقت دنیا میں 7 نیوکلیئرپاور موجود ہیں، جن میں سے ایک پاکستان بھی ہے۔ اب ساری دنیا جانتی ہے کہ گولی۔۔بارود۔۔ٹینک۔۔جنگی جہازوں اور ایٹم بم کی جنگ نہیں ہوسکتی ، کیونکہ اگر کسی ایک ملک نے ایٹم بم چلادیا تو پھر ساری دنیا تباہ وبرباد ہوجائے گئی۔ترقی یافتہ ممالک نے اپنے دشمنوں ۔۔حریفوں کو مستقل میں شکست دینے کیلئے نئی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ اب یہ ترقی یافتہ ممالک اپنے دشمن ممالک کے شعبہ تعلیم کو تباہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے حریف ممالک میں ایسی ایسی سکیم شروع کرتے ہیں جس سے تعلیم مہنگی ہوجائے اور سرکاری سطع پر موجود ادارے تباہ ہوجائے۔غریب اور مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے بچے نجی اداروں میں تعلیم نہیں حاصل کرسکتے ، مجبوراََ والدین اپنے بچوں کو کارخانوں۔۔دوکانوں میں مزدوری کروائے گئے یا پھر بچے گلی محلوں میں آوارہ گردی کرتے نظر آئے گئے۔اور اگر ان بچوں میں سے کوئی میڑک۔۔ایف اے کرنے میں کامیاب ہوجائے اسے ترقی یافتہ ممالک اپنے ممالک میں اعلیٰ تعلیم کے مواقع دیتے ہیں، اور کامیاب ہونے پر اپنے ملک میں ہی اچھی نوکری بھی فراہم کردیتے ہیں۔یعنی اول تو کوئی بچہ تعلیم حاصل نہ کرئے اور جو کرنے میں کامیاب ہوجائے اسے اپنے ملک میں پناہ دے دو۔

جب ملک میں کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں ہوگا، پھر کسطرح ملک ترقی کرسکتا ہے؟کہنے کو تو پاکستان ایک نیوکلیئر پاور ملک ہے ، اور دنیا میں ہمارا ساتواں نمبر ہے۔ مگر ہمارا سرکاری سکولوں کے میٹر ک کلاس کے 50% سے زیادہ طالب علموں کو نیوکلیئر کی تعریف بھی نہیں آتی ہوگئی۔ یہی حال ہمارا ملک کے متحرم اساتذہ کرام کا بھی ہے۔ملک میں ابھی بھی انگریزوں کے دور کے تعمیر کردہ سکول۔۔کالج اور یونیورسٹیاں قائم ہے، جن کے بیشتر کمرے خستہ حال ہوچکے ہیں۔ اکثر و بیشتر دیہات ابھی بھی پرائمری سکولوں سے محروم ہیں۔ اگر بدقسمتی سے سکول موجود ہو وہاں اساتذہ موجود نہیں ہوتے ہیں، اور اگر اساتذہ موجود ہوتو طالب علم نہیں ہوتے۔اگر اساتذہ اور طالب علم موجود ہوتو سکول میں کوئی کمرہ موجود نہیں ہوتا جہاں بیٹھ کرطالب علم تعلیم حاصل کرسکئے۔بچوں کو زمین پر بیٹھ کرتیز دھوپ میں تعلیم کی شمع روشن کرنی پڑتی ہے۔

بیشتر اوقات دھوپ وسردی میں طالب علم بیمار ہوجاتے ہیں تو ان کو علاج کیلئے ڈاکٹر میسر نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر مہیا ہوجائے توادوایات نہیں ملتی۔ بیشتر طالب علم تو علم کی شمع روشن کرتے کرتے دنیا سے رخصت کرجاتے ہیں۔
ہزاروں سال قبل دنیا کے ایک عظیم استاد سقراط نے لکھاـ علم نیکی ہے اور جہالت برائیوں کی جڑ ہے۔علم انسان کو اچھے برے میں فرق کرنا سیکھتاہے۔ علم ہی انسان میں ادب، رہن سہن اور بہتر زندگی بسر کرنے کے طور طریقے سیکھتا ہے۔ بیشک بغیر علم کہ انسان و حیوان ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ علم کی بدولت ہی انسان صاف ستھرا لباس پہننا،اچھا کھانا کھانا ، زبان میں نرمی لانا، لوگوں سے تعلقات قائم کرنا، اچھے رشتے بنانا سیکھتا ہے اور حیوان کو اپنے تابع کرنے کے تعریقے بھی سیکھتا ہے،اور دوسرے انسانوں کے حقوق کا تحفظ کرنابھی ۔جبکہ علم سے محروم طبقہ جرائم ونشہ کی دنیا میں اپنی کامیابی تلاش کرتے نظر آتے ہیں، رشتہ داروں و والدین سے لڑائی جھگڑا کرتے اور معاشرہ میں بدامنی پیدا کرتے نظر آتے ہیں۔

سقراط کو علم سے اتنا پیار تھا کہ وہ چوکوں ، چوراہوں ، گلی و محلوں، میدانوں ،سڑکوں وغیرہ جہاں جگہ ملتی اپنے لیکچر دینا شروع کردیتا اور یونان کے باشندوں میں علم کی شمع پیدا کرتا۔ سقراط کی کوششوں کو یونا ن کی حکومت نے انعام کے طور پرسزائے موت سے نوازہ۔ مگر سقراط کے مشن کو اس کے شاگرد خاص افلاطون نے آگئے بڑھایا۔ اور387 قبل مسیح میں باقاعدہ اکادمی کا آغاز کیا، جیسے آجکل اکیڈمی کے نام سے جانا جاتا ہے۔افلاطون اپنی اکادمی میں شاگردوں کو باقاعدگی سے تعلیم دیتا۔ اس نے ریاضی و سائنس پر بیشتر لیکچر دیے، جن میں سے بیشتر ضائع بھی ہوگئے اور کچھ اس کی کتاب Republicanمیں موجود ہیں۔ افلاطون کی محنت سے دنیا کا عظیم سائنس دان ،مفکر، سیاست دان ، فلاسفر، تاریخ دان، معیشت دان ارسطو نے جنم لیا۔شاید ہی دنیا میں ایسا کوئی مضمون ہو جس میں ارسطو کا ذکر نہ آتا ہو۔

17 نومبر 1965 کویونیسکو نے اعلان کیا کہ تعلیم کے میدان میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے اور خواندگی کا خاتمہ کرنے کیلئے ہر سال 08 ستمبر کو عالمی خواندگی کا دن منایا جائے گا۔اور 1966 سے یہ دن باقاعدگی سے منایا جاتا ہے۔عوامی رائے کے سروے کے مطابق ہر5 میں سے ایک بچہ سکول نہیں جاتا اور ان میں سے اکثریت خواتین کی ہے۔تقریبا آج بھی دنیا کے 60.7 ملین بچے سکول میں داخل نہیں۔

قارئین آجکل پرائیویٹ سکولوں، کالجوں، سرکاری اداروں کے ٹیچروں نے اپنی پرائیویٹ اکیڈمی میں Education For Sale کا بورڈ لگایا ہوا ہے۔ اور ہر ٹیچر کے اپنے ریٹ ہے کوئی500 لیتا ہے تو کوئی 1000 تو کوئی 10000 بھی لیتا ہے،مگر ایسے استاد معاشرہ میں اپنا مقام ایک مزدور۔۔مستری۔۔کباڑیہ سے زیادہ نہیں رکھتے۔ کیونکہ یہ لوگ غریب و محنتی طالب علموں کے مستقبل کو تباہ کرکے امیر لوگوں کو آگئے لاتے ہیں۔ مگر قارئین اس نفسانفسی کے دور میں بھی کچھ ایماندار ۔۔فرض شناش۔۔محنتی اور سقراط کے فلسفے پر چلنے والے استاد موجود ہیں۔جنہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ،ابھی بھی تعلیم کی شمع پاکستان میں روشن کی ہوئی ہے۔جو طالب علموں کے اندر موجود ہنر کو تلاش کرکے اسے ہیرے کا روپ دیکر لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
اٹھو رکھوالی خود کرو اٹھ کر
حاکم شہر سوگیا ہوگا۔

گذشتہ سال کا ایک واقع ہے کہ24 اگست 2013 کا اختتام ہورہا تھا، حمزہ لوہے کی پھٹی پر کام کرکے واپس گھر آیا تو گھر کے ٹیلی فون پر ایک کال آئی جس میں کہا گیا کہ کل 10 بجے اپنے چھوٹے بھائی علی رحمت اﷲ کوگوجرانوالہ بورڈ بھیج دینا اس نے آرٹس گروپ میں سیکنڈ پوزیشن حاصل کی ہے۔ مگر حمزہ نے یہ سب کچھ مزاق سمجھا ۔ کیونکہ اس کے نزدیک تو پوزیشن صرف اور صرف امیر گھرانوں کی ملکیت ہوتی ہے۔علی رحمت نے بھی مذاق سمجھتے ہوئے کال کو رد کردیا اور زندگی کے غموں میں مگن ہوگیا۔مگر گورنمنٹ ہائی سکول کے پرنسپل اور کلاس ٹیچر وحید اشرف کو جب اخبارات اور میڈیا سے معلوم ہو ا، تووہ علی رحمت کو بغیر استری کپڑوں میں گوجرانوالہ بورڈ کے ہال میں لیکر چلے گئے۔ وہاں ہمارے نمائندگان پینٹ کوٹ اور پرفیوم کے ساتھ مہمان گرامی کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔علی رحمت نے میٹرک میں 929/1050 نمبر حاصل کیے تھے۔
قارئین اگر علی رحمت اﷲکا ٹیچر وحید اشرف بھی دیگر ساتھیوں کی طرح صرف امیرگھرانوں کے بچوں کی طرف توجہ دیتا اور علی رحمت اﷲکو ایک غریب طالب علم سمجھتے ہوئے ، اس کے اندر موجود ٹیلنٹ کو ضائع کردیتا تو ممکن ہے وہ چند ہزار کی آمدنی توکرلیتا مگر وہ اس کامیابی سے محروم ہوجاتا جو علی رحمت اﷲ کی وجہ سے اسے پورے پنجاب میں ملی۔ بیشک ایماندار انسان کو اﷲ دنیا اور آخرت میں بھی کامیابی دیتا ہے اور لالچی۔۔مفادپرست۔۔کرپٹ افراد دنیا و آخرت میں بدنا م ہوتے ہیں۔

میری حکومت وقت و اپوزیشن کی جماعتوں سے گزارش ہے کہ برائے مہربانی پاکستان کے دشمنوں کی سازشوں کو سمجھے اور مل جل کر پاکستا ن میں تعلیم میدان میں کوئی انقلاب لائے۔ بچوں کو سرکاری سکولوں میں داخلے کیلئے مہم چلائے تاکہ غریب کا بچہ بھی پڑھ لکھ کر پاکستان کی خدمت کرسکئے۔ ہمارا نظام تعلیم ابھی بھی ترقی یافتہ ممالک سے 100سال پیچھے ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ ایسی پالیسی تشکیل دے جس کے ذرائع باا ٓسانی تعلیم یافتہ نوجوان نوکری حاصل کرسکئے ۔ بدقسمتی سے پاکستان میں میٹرک پاس آفسر ہوتا ہے اور ماسٹر ڈگری ہولڈر اس کا قاصد ہوتا ہے۔ اس ملک میں فرق تعلیم کا نہیں مالی حثییت کا ہوتا ہے، مالدار آفسر بن جاتا ہے اور غریب کا بچہ قاصد بن جاتا ہے۔ یعنی امیر کا بچہ تعلیم کے بغیر بھی آفسر ہوتا ہے اور غریب کا بچہ جاہل آفسر کے ماتحت قاصد کی ڈیوٹی سرانجام دیتا ہے۔
میرا دیس بچا مولا
اس قوم کو راہ پر لا مولا
Zeeshan Ansari
About the Author: Zeeshan Ansari Read More Articles by Zeeshan Ansari: 79 Articles with 89329 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.