اب تک ہم نے دوسروں کے لیے ہی لکھا ہے۔ اورجب بھی لکھاہے
قوم کے اجتماعی مسائل پر ہی لکھا ہے۔ کبھی یہ سوچابھی نہیں ہے کہ اس تحریر
سے مجھے کیا فائدہ ملے گا۔ اورکوشش کی ہے کہ قومی اوربین الاقوامی سطح کے
تازہ ترین اوراہم ترین موضوعات پر لکھا جاسکے۔ ہر تحریر اس لیے بھی نہیں
لکھی جاتی اس پر عمل کیاجائے۔ کچھ تحریریں معلومات کے لیے بھی لکھی جاتی
ہیں۔ اصل موضوع پر لکھنے سے پہلے یہ واضح کردینا ضروری سمجھتاہوں کہ اس
تحریر کا مقصدکسی کو بدنام کرنا نہیں ہے۔ بلکہ اس سے یہ بتانا مقصودہے کہ
ہم اپنے ماتحتوں اوربے آسرالوگوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں حالانکہ
ہماراتعلق بھی ان شعبوں سے ہوتاہے جو مظلوم کی آوازایوان اقتدارتک پہنچانے
کا دعویٰ کرتے رہتے ہیں۔ ہم ظلم کاساتھ دیتے ہیں مظلوم کا نہیں۔ ہم ظالم
کونہیں کہتے کہ تم اس بیچارے پرظلم نہ کروبلکہ ہم مظلوم کو تسلیاں دے
کرٹرخانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم ظالم کو اس لیے کچھ نہیں کہتے کہ ہمارے اس
سے مفادات وابستہ ہوتے ہیں اورہمیں یہ اندیشہ ہوتاہے کہ کہیں یہ ناراض نہ
ہوجائے۔ یہ تحریر ہمارے ساتھ بیتے گئے واقعات کا مختصر مجموعہ ہے۔ اوریہ
تحریران باتوں کاجواب بھی ہے جو ہمارے خیرخواہوں نے ہمارے متعلق
مشہورکررکھی ہیں۔ اس تحریر کامقصدیہ بھی ہے کہ قارئین کو حقائق بتائے
جاسکیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس تحیریر کوپڑھ کر آپ کویہ اپنی ہی کہانی معلوم
ہو۔ کہ ایسی وارداتیں بہت سوں کے ساتھ اکثرہواکرتی ہیں۔ اورہم ایسی
وارداتوں کو معمول کی کارروائی سمجھ کر نظراندازکردیا کرتے ہیں۔
اسے آپ ہماراالمیہ سمجھیں یاکسی اورکا کہ جب ہم کسی راہگیر سے کہتے ہیں کہ
اس راستے سے نہ جاؤکہ آگے گڑھا ہے اس میں گرجاؤگے یا کہتے ہیں کہ احتیاط سے
دیکھ بھال کر چلو کہ آگے گڑھا ہے کہیں اس میں نہ گرجاؤ۔ تووہ ہماری بات کو
سنی ان سنی کردیتاہے اورکہتا ہے کہ اس کی بات پر کیوں توجہ دی جائے۔ ہم اس
سے بڑے عقل مندہیں ۔ ساتھ بیٹھا ہواشخص اس راہگیرسے کہتا ہے کہ یہ تو بس
ایسے ہی ہے ۔ آگے کچھ بھی نہیں ہے آپ بے فکر ہوکر چلے جائیں۔ پھر جب وہ
گڑھے میں جاکر گرتاہے ۔ تووہ ہمیں ہی کوسنے لگتاہے۔ حالانکہ ہم نے تو اسے
پہلے ہی انتباہ کردیاتھا۔ آئیے اب ہماری داستانیں پڑھئیے اورغورکیجئے۔
ہماراتعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے۔ ہمارے والد صاحب بھی بچوں اپنی ساری
زندگی بچوں کوقرآن پاک کی تعلیم دیتے رہے اورنمازوں کی امامت کرتے رہے ہیں۔
اب ہم بھی گذشتہ پندرہ سالوں سے اسی سے وابستہ ہیں۔ پرانی سبزی منڈی جوکہ
ریلوے لائن کے ساتھ ہواکرتی تھی۔ اس کے ساتھ گورنمنٹ ٹرانسپورٹ کے مرحوم
دفترکے ساتھ ایک چھوٹی سی مسجدہے۔ اس میں ہم امامت کے فرائض ادا کیا کرتے
تھے۔ اورسبزی منڈی کے آڑھتی اورمزدوراسی مسجد میں نمازیں اداکرتے تھے۔ ایک
دن ایک نمازمیں ایک آڑھتی دیر سے آیا ۔ ہم نے اس سے کہا کہ نمازاداکرنے کے
بعد مسجدکوتالا لگادینا ۔ ہمارااتنا کہناتھا کہ وہ سیخ پاہوگیا۔ اورجوکچھ
اس نے ہمیں کہا یہ یہاں لکھنے کے قابل نہیں ہے۔ ہم نے تو اس کو اتنا ہی
کہاتھا کہ وہ نمازاداکرنے کے بعدمسجدکوتالا لگادے۔ اس نے اس قدربرہمی
کااظہارکیوں کیا۔ جوسلوک اس نے امام مسجدکے ساتھ کیاوہی سلوک امام مسجد اس
کے ساتھ کرتاتونمازیوں نے آسمان سرپر اٹھالیناتھا ۔کیونکہ یہ سلوک امام
مسجدکے ساتھ ہوا۔ اس لیے سب خاموش رہے۔ ہم ایک قومی اخبارکے مقامی دفترمیں
کام کیاکرتے تھے۔ وہاں ایک شخص اکثروبیشترایک مخصوص اخبارپڑھنے کے لیے
آیاکرتاتھا۔ ہم نے وہاں آنے والے اخبارات پرضروری کام کرنا ہوتاتھا۔ ایک دن
وہ شخص دفترمیں اپنا مخصوص اخبارپڑھنے آیا تواس وقت اخبارابھی نہیں پہنچے
تھے۔ ہم نے انہیں دفترمیں بٹھالیا۔ اس سے گفتگوہوتی رہی۔ اس دوران اس
کوچائے بھی پیش کی۔ کچھ ہی دیرکے بعداخبار آگئے۔ تووہ پڑھنے کے لیے اپنا
مخصوص اخباراٹھانے لگا توہم نے روک دیا۔ کہ ابھی ٹھہرو۔ ہم نے جو اپنا
ضروری کام کرناتھا وہ کرنے لگے۔ اس دوران ہم کسی کو بھی اخبارنہیں پڑھنے
دیا کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اخبارپڑھنے دیتے تو ہمارے کام میں خلل
آجاتاتھا اورکام بھی نامکمل رہ جاتاتھا۔ وہ شخص ناراض ہوکر چلا گیا اوراس
اخبارفروش کو ہماری شکایت لگادی کہ ہم نے اس کو اخبارنہیں پڑھنے دیا۔ اس
اخبارفروش نے ہمیں سمجھانے کی کوشش کی۔ ہم نے کہا کہ آپ درست کہہ رہے ہیں
ایسا ہی ہے۔ کیا اس نے یہ بھی بتایاتھا کہ ہم نے اس کو چائے بھی پیش کی
تھی۔ وہ کہنے لگا اس نے یہ تو نہیں بتایا۔ ہم نے کہا کیوں؟ اس پروہ لاجواب
ہوگیا اورہم سے اس سلسلہ میں پھر کوئی بات نہیں کی۔ اس کے بعد وہ شخص
اخبارپڑھنے نہیں آیا۔
ہم ایک دکان میں کام کیاکرتے تھے۔ موبائل میں ایک کوڈدرج کرکے یہ معلوم کیا
جاسکتاتھا کہ مطلوبہ نمبرکا بیلنس کارڈ استعمال ہوچکا ہے یا نہیں۔ اسی دکان
میں دکاندارایک موبائل کارڈ کانمبر کسی کوموبائل فون پر لکھوارہاتھا۔ہم نے
یہ چیک کرنے کے لیے کہ نئے کارڈکے بارے میں کیاجواب آتاہے۔ وہی کوڈلگاکر اس
کارڈکانمبربھی ساتھ sendکردیا۔ ہم نے کچھ دیرکے بعد چیک کیا تو ہمارے
موبائل میں بیلنس کا اضافہ ہوچکاتھا۔ ہم پہلے تو ششدررہ گئے کہ یہ اضافی
ریچارج کہاں سے آگیا۔ دکان پر گئے توایک ہنگامہ برپاتھا کہ کارڈ استعمال
شدہ ہے۔ ہم سے پوچھا تو ہم نے تھوڑی سی ٹال مٹول کے بعدبتادیا کہ کارڈ
ہمارے ہی موبائل میں چارج ہوچکا ہے۔ اس کے بعد ہم نے مطلوبہ قیمت بھی
اداکردی تھی۔ اس کے باوجود دکاندارہر ایک کوبتاتے رہے کہ ہم نے چالاکی سے
کارڈاپنے موبائل میں ری چارج کرلیا۔ساتھ ہی مسجدمیں امامت کے فرائض بھی
اداکیاکرتے تھے۔ وہاں سے ہمیں سات سوروپے ماہوارملاکرتے تھے۔ ہم نے وہاں
چندہ بکس رکھ دیا۔ اس میں سے ہم ماہانہ میلادمصطفی کی محفل بھی کرایاکرتے
اوراپنے ضروری اخراجات بھی کیاکرتے تھے۔ اوریہ بات نمازیوں کے علم میں بھی
تھی۔ نمازی ہم سے کہتے تھے کہ رات کو چندہ بکس خالی کرلیاکروکہ مباداکوئی
اورنہ خالی کرجائے۔ ہم نے اس دکاندارکوکہاکہ چندہ میں سے جوسکے ہوتے ہیں وہ
آپ بطورامانت رکھ لیاکریں ۔ اس میں سے میلادشریف کاتبرک بھی ہم آپ سے
خریداکریں گے۔ ہم ویساہی کرتے رہے۔ اس چندہ بکس میں ہم اس کو سکے دیاکرتے
تھے۔ کرنسی نوٹ نہیں۔ وہ کبھی کبھی دیاکرتے تھے۔ ایک دن اس دکاندارنے پچاس
روپے چندہ بکس میں ڈال دیے کہ رات کو امام مسجد جمع کراتے ہیں یانہیں۔ ہم
نے وہ پچاس یکمشت تونہ دیے۔ اس میں بھی ایک رازتھا ۔ تین قسطوں میں اسی کے
پاس جمع کرادیے۔ اس نے بہت سوں کوبتایاکہ میں نے مسجدکے چندہ بکس میں پچاس
روپے ڈالے تھے۔ جو امام مسجدنے جمع نہیں کرائے اپنی ہی جیب میں رکھ لیے۔
حالانکہ ہم تو اس لیے اس کو چندہ جمع کرایاکرتے تھے کہ تاکہ محفل میلاد
آسانی سے کرائی جاسکے۔ اس مسجد سے ہمیں ملتے تو سات سو روپے ماہوارتھے۔ یہ
تو اس نے کسی کونہیں بتایاتھاکہ ہمارے ساتھ جو مسجدہے اس کے امام مسجدکوسات
سوروپے ماہوارملتے ہیں۔ ہم نے اسی دکان میں ایک سال کام کیا۔ طے یہ ہواتھا
کہ ہم ناشتہ کرکے آئیں گے اورعشاء کی نمازادااکرتے ہی چھٹی کرجائیں گے۔
چنددن تو یہ سلسلہ چلتارہا۔ پھرکہاگیا جلدی آجایاکرو۔ ہم نے ناشتہ کامطالبہ
کردیا۔ وہ مان لیاگیا۔ اب صبح چھ بجے آجاتے اوردکاندارکا انتظارکرتے رہتے
کہ اب آئے اب آئے۔ وہ آٹھ بجے ہی آتے۔ رات کو ہم اپنی ڈیوٹی پوری کرکے چپکے
سے چلے جاتے توچلے جاتے۔ ان کوبتانے کا جرم کرتے کہ ہم جارہے ہیں تو
آرڈرجاری ہوجاتاکہ یہ کام کرلو پھر چلے جانا۔ وہ کام کرچکتے توکہتے کہ یہ
کام کرلوپھرچلے جانا اسی طرح رات کے گیارہ بجے سے وہاں سے جانے کی اجازت
نہیں ملتی تھی۔ ہم ان سے کہتے کہ ہماراوقت بہت زیادہ ہے ہمیں جلدی چھٹی
دیاکرویاہماری حاضری دیرسے شروع کرو۔ توجس کی ڈیوٹی شام کوہوتی وہ کہتا جس
کی ڈیوٹی صبح کوہے ۔ اس سے بات کرو۔ اس سے کہتے تووہ جواب دیتاجس کی ڈیوٹی
شام کوہے اس سے بات کرو۔ صبح کی دکانداری ہم کیاکرتے تھے۔ ہم نے دویاتین دن
دکان سے ایک خاص مشروب پی لیا اوراس کی قیمت دکان کے پیسوں میں شامل کردیتے
۔ جوں ہی دکاندارآتاہم اس کے حوالے کردیتے۔ ساتھ ہی ایک اوردکان تھی جوعلی
الصبح کھل جاتی تھی۔ ایک دن اس دکاندارنے ہمیں وہ مشروپ پیتے ہوئے دیکھ
لیا۔ پھر اس دکاندارکو بتادیا کہ آپ کاملازم تومشروب پی رہاتھا۔ دکاندارنے
ہم سے کہا کہ آپ نے مشروب ہم سے چوری کیوں پیا۔ میں نے اس کوجواب دیا کہ
ہاں میں نے پیاضرورتھامگر اس کی قیمت بھی آپ کواداکردی تھی۔ صبح کی بکری کے
جوپیسے میں آپ کودیا کرتاہوں۔ اس میں جومشروب میں نے پیاہے اس کی قیمت بھی
شامل تھی۔ میں نے کہا کہ آپ کواس کی قیمت مل گئی ہے ۔ وہ میں پی جاؤں
یاکوئی اورپی جائے ۔ آپ کو اس سے کیاغرض۔ اس کے بعدوہ خاموش ہوگیا۔ اسی
دکان میں کام کرتے ہوئے ضروری کاموں کے لیے چھٹیوں کی بارہاضرورت پڑی مگر
ہمیں چھٹی نہ دی گئی۔ ہم نے سال میں ان کی منشاء کے بغیرتین چھٹیاں کیں۔ اس
کے بعدہماری چھٹی کرادی گئی کہ ہم چھٹیاں زیادہ کرتے ہیں۔ اس دکان سے ہمیں
ایک ہزارروپے ماہانہ ملاکرتے تھے۔اورہفتہ وارچھٹی بھی نہیں تھی۔
ہماری ایک کالم نگارساتھی سے دوستی ہے۔ وہ ایک مذہبی تنظیم سے وابستہ ہیں۔
وہ ہمیں ایک دن اس تنظیم کے اجلاس میں لے گئے۔ وہاں تنظیم سازی ہوئی توہمیں
پریس سیکرٹری بنادیاگیا۔ ہمارے گمان میں بھی نہ تھاایساہوگا۔ ہم نے اس ذمہ
داری کو نبھانا شروع کردیا۔ خبریں اس طرح تواترسے شائع کرائیں کہ اس سے
پہلے ہم نے اس تنظیم کی اس قدر خبریں نہیں پڑھی تھیں۔ ہماری کیوں کہ مالی
پوزیشن کمزورہے۔ اس لیے وہ کہتے کہ آج اجلاس میں آجانا آپ کے لیے بھی کچھ
کریں گے۔ اجلاس میں اورتو بہت کچھ ہوتامگر ہمارے لیے کچھ نہ ہوتا۔ ہم نے ان
سے گزارش کی کہ ہم آپ کی تنظیم کاکام کرتے رہیں گے۔ اپنے مرکزی دفترسے
ہمارا ماہانہ مقررکرادو۔ انہوں نے یہ نہ کرایا۔ ہم اپنی ڈیوٹی اداکرتے رہے۔
ہماری خبریں پڑھ پڑھ کراورشہروں سے بھی خبریں شائع ہونا شروع ہوگئیں۔ جب
کوئی کا م ہوتا۔ اجلاس ہوتاتو ہمیں بلالیاجاتا۔ کہ اخبارات میں خبر شائع
ہوجائے گی۔ یہی کام ایک اورممبربھی کرسکتاتھا ۔ مگر وہ مصروفیت کی وجہ سے
نہیں کررہاتھا۔ جب کوئی فائدہ یا ریلیف کا موقع ہوتاتو ہمیں
نظراندازکردیاجاتا اورہمیں بتایا ہی نہیں جاتا تھا۔ ہم انہیں ماہانہ ممبرشپ
فیس نہیں دیاکرتے تھے کیوں کہ ہم دے ہی نہیں سکتے تھے۔ تاہم ہمارے کام
کودیکھ کرہمیں باضابطہ اعزازی ممبرشپ نہیں دی گئی۔ جوکہ ہمارااستحقاق تھا۔
ایک دن دوذمہ داروں نے فون پرایک خبر شائع کرانے کوکہا۔ ہم نے حکم کی تعمیل
کرتے ہوئے وہ خبر شائع کرادی۔ وہ خبر باالواسطہ ایک روحانی اورسیاسی گھرانے
کے خلاف تھی۔ انہوں نے مرکزمیں شکایت کردی۔ جنوبی پنجاب کے ایک تنظیمی ذمہ
دارنے ہمیں فون کیا کہ فلاں خبرتونے شائع کرائی۔ ہم نے اثبات میں جواب دیا
اورساتھ ہی بتادیا کہ ہمیں فلاں فلاں ذمہ دارنے حکم دیاتھا۔ انہوں نے
تحقیقات کرنے کی ضرورت تومحسوس نہ کی۔ اسی وقت کہا کہ آپ نے غیر ذمہ داری
کا مظاہرہ کیااس لیے آپ کومعطل کررہاہوں آج سے آپ کام نہیں کریں گے۔ ہم نے
اپنی معطلی کی خبر خودہی اخبارات میں شائع کرادی۔ بعد میں معلوم ہواکہ وہ
خبر کروڑسے توبنتی تھی لیہ سے نہیں۔ اورجن ذمہ داروں نے ہمیں حکم دیاتھاان
کو بھی کروڑسے ایک ذمہ دارنے کہاتھا۔ جس ذمہ دارنے ہمیں معطل کیا۔ اس نے ان
سے کوئی بات نہ کی کہ تم نے ایسی خبر شائع کرانے کا کیوں کہاتھا۔ ساری ذمہ
داری ہم پر ہی ڈال دی گئی۔ وہ بااثرتھے اس لیے ان سے اس سلسلہ میں بازپرس
نہیں ہوئی۔ اورہم کمزورتھے اس لیے ہمیں نشانہ بنایاگیا۔ ہم نے ایک سرگرم
کارکن سے کہا کہ ہمارے ساتھ اچھا نہیں ہوا۔ وہ کہنے لگا کہ انہوں نے
مرکزمیں شکایت کردی تھی۔ اس لیے ہمیں یہ اقدام کرنا پڑا۔ ہم نے کہا کہ
ہمارے خلاف ہی ایسا کیوں کیا گیا۔ تو جواب تھا کہ کسی کوتوقربانی کا
بکرابناناتھا۔ اس کے بعد ہم نے تنظیم کے معاملات میں دلچسپی لینا کم کردی۔
اجلاسوں میں بھی جانا کم کرتے گئے۔ ہم سے مقامی ذمہ داروں نے بارہا پوچھا
کہ کیابات ہے ۔آپ اجلاسوں میں کیوں نہیں آتے۔ چندایک کواپنا موقف بتایا ۔
اکثرکو کہتے رہے کہ مصروفیت کی وجہ سے نہیں آرہے۔ وہ تنظیم سال میں ایک
بارتقریبات بھی کراتی ہے۔ ہم انہیں کہتے رہے کہ ہمیں نعت شریف سنانے کاموقع
دیا جائے۔ انہوں نے اورنعت خوانوں کو تو موقع دیا مگر ہمیں نہ دیا۔ ہم
دوسال التجائیں کرتے رہے ذمہ داروں نے ذاراسی بھی توجہ نہ دی۔ اسی طرح کی
سالانہ تقریبات کے وقت ان کے پریس سیکرٹری نے کہا میں مصروف ہوتاہوں آپ خبر
لکھ لیا کرومیں بھیج دیاکروں گا۔ ہم نے خبریں لکھنا شروع کردیں۔ایک دن
ہمارے ساتھ پولیس کاایک اہلکاربیٹھ گیا۔ اس تنظیم نے ایک ذمہ دارنے ہم
پرالزام لگایا کہ ہم نے تقریبات کی کارروائی لکھ کرخفیہ اداروں کو دی ہے۔
جس ذمہ دارنے ہمیں معطل کیاتھا۔ اس نے ہمیں ایک دن بلالیااورپوچھاکہ آپ
کیوں ناراض ہیں ہم نے وجوہات بتادیں۔ وہ تنہائی میں معذرت بھی کرچکے ہیں۔
وہاں اوربھی کارکن اورذمہ دارموجودتھے۔ انہوں نے ہمارے موقف کوکوئی اہمیت
نہ دی۔ اتنا کہا کہ ایساتوہوجاتاہے۔ یہ تومعمولی باتیں ہیں۔ تنظیم کے مقامی
ذمہ داروں نے باربارہمیں چکردینے کی کوشش کی آپ کوہم سے اختلاف ہے مشن سے
تونہیں۔ ان کوہی مشن سے اتنا لگاؤہوتاتو ہمارے ساتھ یہ سلوک نہ کرتے۔ اب ان
کے ساتھ بول چال توہے تاہم تنظیم سے ہم نے کنارہ کشی کرلی ہے۔تاہم تنظیم نے
ہماراتعاقب نہ چھوڑا۔ ایسی محافل میلادبھی ہیں جن میں ہمیں مدعوبھی
کیاجاتارہااوران میں ہمیں کسی نہ کسی حوالے سے حصہ بھی لینے دیاجاتارہا۔
جوہمیں کئی کئی دن پہلے بتادیتے تھے کہ فلاں دن محفل میلادکرارہے ہیں۔ ایسی
ہی محافل میں جب اس تنظیم سے وابستہ افرادانتظامات میں شامل ہوئے توہمیں ان
محافل کی اطلاعات ملنابھی بندہوگئیں۔ ہم نے کچھ سے شکایت کی توانہوں نے اب
اطلاع دینا شروع کردی ہے۔ تاہم جوبرتاؤپہلے تھا وہ اب نہیں ہے۔
ہم اخبارات سے بھی وابستہ ہیں۔آئیے اب پڑھیئے کہ اخباروالوں نے ہمارے ساتھ
کیا سلوک کیا۔ لیہ میں ایک مقامی روزنامہ شائع ہورہاہے۔ یہاں انجمن تاجران
کے الیکشن ہوئے۔ ہم نے ان سے اشتہارات شائع کرانے کوکہا۔ انہوں نے نرخ
پوچھے توہم اس اخبارکے دفترگئے اوران سے نرخ معلوم کیے جوہمیں بتادیے گئے۔
ہم نے اشتہاربک کرلیا۔ جوشائع ہونا شروع ہوگیا۔ انجمن تاجران نے اشتہارکے
دس ہزارروپے دیے۔ بقایا بعد میں دینے کا وعدہ کیا۔ ہم نے وہ دس ہزاردفترمیں
جاکر دے دیے جس میں سے ہمیں پانچ سوروپے دیے گئے۔ بقایا کمیشن بقیہ وصولی
پردینے کاوعدہ کیاگیا۔ اس کے چنددنوں کے بعد اس اخبارکے چیف ایڈیٹرکے بھائی
نے کہنا شروع کردیا کہ اشتہارتو میں نے بک کررکھا تھا۔ پھر اس نے ہمیں بقیہ
پیسے وصول کرنے سے روک دیا۔ ایک دن انجمن تاجران کے دفترمیں بتایا گیا کہ
اخباروالے بقیہ پیسے لے گئے ہیں۔ بارباراس اخبارکے چیف ایڈیٹرسے کہا کہ
ہمارابقیہ کمیشن دو۔ توجواب ملتاکہ ابھی وصولی نہیں ہوئی۔ ایک دن ہم نے اس
سے کہاکہ اگر وصولی نہیں ہوئی توہمارے ساتھ چلواس کے پاس۔ توکہنے لگے ہم
کسی کے پاس نہیں چلتے۔ لیہ سے ہی ایک اورروزنامہ نے اشاعت کا آغازکیا۔ اس
میں ایک اس اخبارکامالک چیف ایڈیٹراورتین اورصحافی تھے۔ ان کے ساتھ اس سے
پہلے خاص شکایت نہ تھی۔ ان میں سے ایک صحافی نے بلایا اوردفترمیں ڈیوٹی
دینے کوکہا ۔ ہم نے ٹائم ٹیبل بتایاکہ ہم اس وقت میں ڈیوٹی دے سکتے ہیں۔
کہا گیا کہ کل سے ڈیوٹی شروع کردو۔ آپ کوکیا دیں گے۔ یہ آپ کوایک دودن میں
بتادیاجائے گا۔ ایک دودن توکیا۔ کئی ہفتے گزرگئے۔ کوئی جواب نہ آیا۔ جب بھی
پوچھتے توکہاجاتاایک دودن میں بتاتے ہیں۔ اس دوران ہمیں پانچ سوروپے دیے
گئے۔ اس دوران چیف ایڈیٹررہ گئے بقیہ تینوں صحافی چھوڑگئے۔ عدم ادائیگی بل
کی وجہ سے واپڈاوالے میٹرلے گئے توچیف ایڈیٹرنے اس کا غصہ ہم پرنکالا۔
دوماہ کے بعدہم نے چیف ایڈیٹرکوایس ایم ایس کیا کہ دوماہ ہوچکے ہیں خدمت
کرتے ہوئے ابھی تک صرف یہی کچھ ملا ہے۔ میرے بھی اخراجات ہیں۔ برائے
مہربانی مجھے تنخواہ دی جائے۔ ہم شام کو ڈیوٹی پرگئے تو ہم سے دفترکی چابی
لے لی گئی۔ ہمیں وہی پانچ سوروپے ملے تھے۔ ابھی تک اورکچھ نہیں ملا۔
ہم ایک قومی روزنامہ میں آرٹیکل لکھاکرتے تھے۔ ہم نے اس اخبارکے اس وقت کے
ریذیڈینٹ ایڈیٹرسے اعزازی اخباردینے کی درخواست کی جو منظورکرلی گئی۔ پہلے
توہمیں اخبارملتارہا۔ پھر ہر پندرہ سے بیس دن کے بعد کہاجاتاکہ آپ کا
اخباربندہوگیاہے۔ ہم اخبارکے دفتررابطہ کرتے توبتایاجاتااخباربندنہیں ہوا۔
مقامی نیوزایجنٹ سے کہتے پہلے تووہ نہ مانتاپھر اخباردینا شروع کردیتا۔ اسی
طرح ایک سال کا عرصہ گزرگیا۔ پھرہم نے ریذیڈینٹ ایڈیٹرکوشکایت لگادی کہ آپ
کانیوزایجنٹ ہمارے ساتھ یہ رویہ اختیارکیے ہوئے ہے۔ اس شکایت کے بعد ہمارے
خلاف محاذ کھڑا کردیا گیا کہ یہ ہوجائے گاوہ ہوجائے گا۔ اس کے بعد اس
اخبارکی ایجنسی تبدیل ہوگئی۔ پھر واپس ہوئی۔ اس کے بعد ہمیں مسلسل
اخبارملتارہا۔ ہم روزانہ ایک مقامی اخبارکی تقسیم کی نگرانی کیاکرتے تھے۔
سب اخباروالوں کو اعزازی پرچے دیاکرتے تھے۔ ایک دن اخبارکم آیا۔ تمام
اخبارفروشوں کومقررہ تعدادسے کم اخباردیے اوراپنے لیے بھی ان سے اخبارلیا۔
جس اخباروالے کے پاس ہمارااخبارآتاہے۔ اس نے مقامی اخبارہم سے مانگاتوہم نے
کہا کہ آج اخبارکم آیاہے۔ اعزازی اخبارکسی کوبھی نہیں دیا۔ ہماری مجبوری کا
تو انہیں کیا احساس ہوناتھا۔ الٹاوہ ناراض ہوگئے اورکہا کہ اب آپ کو
اپنااعزازی اخبارنہیں ملے گا۔ اس دوران ریذیڈینٹ ایڈیٹرتبدیل ہوگیا۔
سرکولیشن منیجرسے شکایت کی۔ جس کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ اب وہ اعزازی
اخبارتوآرہاہے۔ مگرہمیں نہیں مل رہا۔
جس وقت ہمارااعزازی اخبارہمیں ملنابندہوا۔ اس وقت اس اخبارکا نمائندہ مقامی
اخبارمیں اہم ذمہ داری پر کام کررہاتھا۔
اس میں ہم کسی پرفردجرم عائدنہیں کررہے ہیں۔ صرف یہ بتارہے ہیں کہ قارئین
پڑھ لیں اورجان لیں کہ ہمارے ساتھ اپنے ہی طبقہ کے لوگوں نے کیا
برتاؤکیاہے۔ یہ دونوں طبقات سوسائٹی میں معززسمجھے جاتے ہیں۔ دونوں کاکام
برائی کے خلاف کام کرنا ہے۔ کمزورکے پاس کوئی اختیارنہیں کہ وہ طاقتورکے
خلاف شکایت لگائے۔ طاقتورطاقتورہوتاہے چاہے وہ کسی بھی طبقہ یاشعبہ سے
وابستہ ہو۔ اوروہ کمزوراوربے آسراء مظلوم کے ساتھ جو سلوک کرے یہ اس کا
اختیارہواکرتاہے۔ ہمیں مشورے دینے والے اورنصیحتیں کرنے والے توبہت سے ہیں۔
تاہم کسی کویہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ ان طاقتوروں سے ہماراحق لے کردے سکے۔
حق لے کردینا تودورکی بات ہے ۔ کبھی کسی نے ان سے نہیں کہا کہ آپ نے ایک
غریب بے آسراء کا حق دبارکھاہے۔ یہ آپ نے اچھانہیں کیا۔
اب تک ہم نے شکایتیں لکھی ہیں۔ جن شخصیات نے ہمارے ساتھ ممکن حدتک تعاون
کیااورہماری صلاحیتوں کونکھارنے کی کوشش کی۔ اورہمیں سہولیات فراہم کیں۔ ان
کاتذکرہ بھی ضروری ہے۔ ان میں سب سے پہلے سابق ریذیڈینٹ ایڈیٹر جبارمفتی،
لیہ کے سنیئر صحافی عبدالحکیم شوق، سینئر صحافی مقبول الٰہی، سنیئرصحافی
انجم صحرائی، کالم نگارجمشید ساحل، مظہراقبال کھوکھر، صابرعطاء ،
احمداعجازبھلر، اعجازاقبال جنیدی، رازش لیاقت پوری، زیدی برادران ،اخبارات
میں ایڈیٹرزاورادارتی صفحات کے انچارج صاحبان شامل ہیں۔ |