موا شیطانی ڈبہ سرچڑھ کر بول رہا ہے

پاکستانی صحافت مشکلات کے گراداب میں ہے اور موا شیطانی ڈبہ سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ملک میں صحافی حالیہ مذاکرات میں ایک ایسا کردار ادا کر رہے ہیں ، جس کے نتیجے میں اگر تبدیلی واقع ہوئی اور مذاکرات کامیاب ہوگئے تو ہمشہ صحافت کا نام نامی بلند رہے گا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ صحافت ایک پر خطر پیشہ بھی بنتا جارہا ہے۔ صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان صحافیوں کے لیے بدستور ایک خطرناک ملک ہے۔صحافیوں کے لئے کام کرنے والی بین القوامی تنظیم نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا کہ پاکستان میں گزشتہ سال صحافت سے وابستہ کم از کم سات افراد کو قتل کیا گیا جن میں سے چار کا تعلق ملک کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان سے ہے۔ رپورٹ میں بلوچستان کو صحافیوں کے لیے مہلک ترین صوبہ بھی قرار دیا گیا۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان میں شدت پسند یا مسلح گروہ صحافیوں کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔ پاکستان میں صحافیوں کے لئے شدت پسند بلا شبہ ایک بڑا خطرہ ہیں۔لیکن یہ شدت پسند ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں۔ اس مین دائیں بائیں کی قید بھی نہیں ہے۔جس کا جس جگہ زور اور بس چلتا ہے۔ وہاں صحافی ، اخبارات اور چینل سب یر غمال ہیں۔ وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید اپنے حالیہ بیانات میں یہ کہہ چکے ہیں کہ صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے حکومت اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی اور اس بارے میں ضروری قانون سازی بھی کی جائے گی۔حکام کے مطابق دہشت گردی نے جہاں معاشرے کے دیگر طبقوں کو متاثر کیا، اس کے اثرات سے صحافی بھی نا بچ سکے۔پاکستان میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں یہ کہتی آئی ہیں کہ ملک کے شورش زدہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو ضروری تربیت فراہم کرنے کے منصوبوں پر زور دیتی آئی ہیں اور اْن کا ماننا ہے کہ ایسی تربیت کا مقصد یہ ہے خطرات سے بچتے ہوئے صحافی اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں نبھا سکیں۔گذشتہ بہت عرصے سے پاکستان میں اس بحث نے طول پکڑنا شروع کیا ہے کہ بظاہر سب کا احتساب کرنے والے میڈیا کا اپنا احتساب بھی ضروری ہے کہ نہیں؟ چند ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی میڈیا کی حالت شتر ِ بے مہار جیسی ہوتی جا رہی ہے جو بغیر کسی حدود و قیود کے کام کر رہا ہے۔مگر کیا یہ دلائل درست ہیں؟ کیا واقعی پاکستان میں میڈیا بے لگام ہوتا جا رہا ہے؟ کیا پاکستانی میڈیا کو اپنی سمت درست کرنے کی ضرورت ہے؟ گذشتہ دنوں واشنگٹن ڈی سی کے تھنک ٹینک یو ایس آئی پی میں اسی موضوع پر ایک نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں پاکستان میں میڈیا کے حالات اور پاکستانی میڈیا کو درپیش چیلنجز جیسے موضوعات زیر ِبحث آئے۔اس نشست میں یو ایس آئی پی میں ساؤتھ ایشیا پروگرام کے ڈائریکٹر معید یوسف نے بتایا کہ جنوبی ایشیائی ممالک سے متعلق تحقیق میں پاکستان پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ یہ ادارہ پاکستان سے متعلق مختلف موضوعات پر تحقیق کرتا ہے جن پر مقالے لکھے جاتے ہیں۔معروف صحافی پامیلا کانسٹیبل نے پاکستان میں گزرے اپنے وقت کا ذکر کیا اور کہا کہ 1998 میں جب وہ پہلی مرتبہ پاکستان گئی تھیں، تب اور اب کے پاکستان میں بہت فرق ہے۔پامیلا کہتی ہیں کہ، ’پاکستانی میڈیا ابھی بھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے اور میڈیا کے مسائل اور نقص بہت واضح ہیں۔ دوسری طرف پاکستانی میڈیا سماج کے لیے بہت سے مثبت اقدامات بھی کر رہا ہے اور عوام کی آواز بلند کرنے میں ان کا ساتھ دے رہا ہے‘۔ہْما یوسف کہتی ہیں کہ وہ دور چلا گیا جب محض سرکاری ٹیلی ویڑن ہوا کرتا تھا اور لوگوں کے پاس خبریں سننے کا کوئی اور ذریعہ نہیں ہوتا تھا۔ میڈیا کو آزادی 2002 میں ملی تھی اور تب سے اب تک پاکستان میں 90 میڈیا چینلز کام کر رہے ہیں۔ ریڈیو سٹیشنز کی تعداد میں بھی روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ اس وقت پاکستان میں 115 ایف ایم چینلز کام کر رہے ہیں۔ 70÷ عوام کو موبائل فون کی سہولت موجود ہے جبکہ 20 سے 30ملین افراد انٹرنیٹ تک دسترس رکھتے ہیں‘۔ وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں میڈیا میں بہت سی تبدیلیاں آئیں اور اب نہ صرف پرنٹ اور الیکٹرانک جرنلزم بلکہ سوشل میڈیا بھی اپنی جڑیں خوب پکڑ رہا ہے۔’سوشل میڈیا سے وہ لوگ بھی اپنی آواز دنیا تک پہنچا رہے ہیں جنہیں میڈیا تک رسائی نہیں ہے۔ مگر سماجی رابطے کی ویب سائیٹس کے ذریعے وہ اپنی آواز بلند کر رہے ہیں اور اپنے مسائل کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کر رہے ہیں‘۔ بہت سے لوگ پاکستان میں صحافت پر تنقید کرتے ہیں ،پامیلا کانسٹیبل بھی ان مین سے ایک ہیں وہ کہتی ہیں کہ پاکستانی میڈیا کا ایک بڑا مسئلہ پروفیشنلزم کا فقدان ہے۔ پامیلا کے بقول، ’پاکستانی میڈیا میں پرنٹ اور ٹیلی ویڑن پروگراموں میں حقائق سے زیادہ چیخنے چلانے پر زور دیا جاتا ہے جو جتنا چیختا ہے اسے اتنی ہی ریٹنگ مل جاتی ہے۔ لوگ کچھ بھی بول دیتے ہیں اور کسی بھی انداز میں کسی پر بھی تنقید کر لیتے ہیں۔ اب ٹی وی پروگرام shouting matches بنتے جا رہے ہیں‘۔کچھ کا خیال ہے کہ پاکستانی میڈیا کی سمت درست کرنے کے لیے چند مثبت اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں میڈیا کو اپنی راہ متعین کرنی ہوگی اور اپنے آپ کو چند حدود و قیود کا پابند کرنے کے ساتھ ساتھ ورک ایتھکس کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ تبھی میڈیا معاشرے میں ایک مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔ برصغیر میں صحافت ایک مقدس فریضہ سمجھا جاتا ہے۔ جومغربی journalism سے مشابہت نہیں رکھتی۔ ہمارے یہاں لفظ صحافت رائج ہے جو صحیفہ سے نکلا ہے اور دین میں صحیفوں کیحیثیت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے یعنی ‘‘آفاقی پیغام’’۔
 

image

قیام پاکستان کے بعد سے اکیسویں صدی تک پاکستان میں ذرائع ابلاغ کا کردار مخصوص دائرے تک ہی محدود رہا لیکن قومی کردار کی تعمیر، تہذیبی و اخلاقی اقدار کی پاسداری اور اصلاح احوال سے کبھی غفلت نہیں برتی گئی لیکن اکیسویں صدی کے آغاز پر پاکستان میں جیسے ہی نجی ٹی وی چینلوں کے آغاز کے ساتھ ہی جو ‘‘ انقلاب’’ برپا ہوا اس نے ملک کو سماجی، معاشرتی، سیاسی، معاشی اور نظریاتی جڑوں کو کھوکھلا کر ڈالا ہے۔ جدید دور میں عوام کی سوچ و فکر پر گہرا اثر مرتب کرنے والا میڈیا اب پاکستان میں ایک ایسی دو دھاری تلوار ثابت ہو رہا ہے جو اپنے ہی ملک کی نظریاتی، اخلاقی و حقیقی سرحدوں کے درپے ہو گیا ہے۔

حقیقتا تو عوامی رحجانات ہی میڈیا کو اپنا رخ متعین کرنے میں مدد دیتے ہیں، لیکن وطن عزیز میں میڈیا عوامی رحجانات کو ‘‘نئے نئے رخ’’ عطا کر رہا ہے۔ صرف یہ امر زیر غور لائیے کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں کی صرف 30 فیصد آبادی خواندہ ہو وہاں میڈیا کیا کیا قیامتیں ڈھا سکتا ہے۔ میڈیا ٹرن سیٹر ہے جو عام آدمی کے ملبوسات سے لے کر اس کی سوچ تک پر گہرے اثرات ڈالتا ہے اور اسی بنیاد پر اس کے مثبت کردار کا مطالبہ بھی کیا جاتا ہے۔ میڈیاایک جانب جہاں عوام میں مایوسی بڑھانے کا کام کیا جا رہا ہے تو دوسری جانب غیروں کی تہذیب کو اپنی تہذیب سے برتر ثابت کر کے احساس کمتری میں مبتلا کیا جا رہا ہے۔پاکستانی تہذیب سے ناطہ توڑ کے ہندو تہذیب کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ بچوں ہی نہیں بڑوں کی زبان پر بھی ذرائع ابلاغ نے بہت برا اثر ڈالا ہے حتی کہ ‘‘خ’’ کو ‘‘کھ’’ اور ‘‘پھ’’ کو ‘‘ف’’ بولنا کئی بچوں کی عادت بن چکی ہے۔ اسکولوں میں پرائمری سطح پر بھی بچے ‘‘پریم پتر’’ کے ہمراہ پکڑے جا چکے ہیں۔ میرے ایک صحافی دوست نے سا لگرہ کے لئے جنم دن کا استعمال کیا۔خبروں پر گانے کے ٹکڑے لگا کر ان کی اہمیت اور شدت کو ختم کیا جارہا ہے۔ جرائم میں ملسل اضافہ ہورہا ہے۔ گھروں سے بھاگ کر شادی کرنے کے رحجان میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں خواتین کی عصمت دری کے واقعات بھی بہت تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ حتی کہ کئی واقعات میں5، 6 سالوں کی معصوم جانیں بھی اپنی عصمت اورجان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ معاشرے میں پھیلتا ہوا یہ جنسی انتشار کس نے پیدا کیا ہے۔ بعض حلقے اس کے لئے ذرائع ابلاغ کو مورد الزام ٹھراتے ہیں۔ کیونکہ اکثرڈرامہ، فلم، کارٹون، پروگرام ایک لڑکے اور لڑکی کی محبت اور ان کے تعلق کے گرد گھومتا ہے۔ علاوہ ازیں ساس اور بہو کے تعلق اتنا بھیانک کر کے پیش کیا جا رہا ہے کہ اب دونوں رشتوں کے درمیان ایک دوسرے سے حسن ظن رکھنے کا رحجان ہی کم ہوتا جا رہا ہے اور بہو گھر آنے سے قبل ہی یہ بات اپنے ذہن میں بٹھا کر آتی ہے کہ اس کی ساس ظالم ہوگی۔ اس سے ہمارے معاشرے میں رائج خاندانی نظام پر براہ راست زک پڑی ہے۔دوسری جانب ذرائع ابلاغ نے مغربی و ہندو تہذیب کو بھی فروغ دیا ہے۔ اسلام کی بنیادی تعلیمات کے بر عکس چند موضوعات پردہ، موسیقی، جہاد ، برقع جیسے موضوعات نام نہاد ‘‘مذاکروں’’ اور ‘‘ٹاک شوز’’ میں پیش کیے جاتے ہیں جن کا واحد مقصد عوام کے ذہنوں کو مزید منتشر کرنا ہوتا ہے۔ ان پروگرامات کا بنیادی ہدف یہ ہوتا ہے کہ کسی طرح اسلام کو ‘‘جدید روشن خیالی’’ کے فلسفے سے مکمل ہم آہنگ (Compatible) ثابت کر دیا جائے۔اخلاقی میدان میں بگاڑ پیدا کرنے اور ملک کی نظریاتی سرحدوں کے خلاف بھرپور ‘‘دراندازی’’ کے علاوہ عوام میں مایوسی پھیلانے میں بھی نجی چینلوں سے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ صحافت کے بنیادی اصولوں کے تحت خبر کو جوں کا توں پیش کرنا ہمارے ذرائع ابلاغ کی بنیادی ذمہ داری ہونی چاہیے۔ لیکن جب 2 منٹ کی خبر کو طول دے کر 4 گھنٹے پر محیط کیا جائے گا اور اس پر مذاکرے و مباحثے پیش ہوں گے تو خبر تو خود بخود مبالغہ آمیز ہوگی ہی۔ خبروں میں رنگ آمیزی کا یہ رحجان ہی خطرناک صورت اختیار کر گیا ہے۔ جس سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔وئیلنٹائین ڈے، بسنت ہولی جیسے تہواروں کی ثقافت کو مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جس سے آج ہمارے معاشرے کا ہر فرد خصوصاً نوجوان طبقہ اپنے مذہب، قوم و ملک سے دور ہوتا جارہا ہے۔ اس کی آنکھوں پر مادہ پرستی و عیش پسندی کی ایسی پٹی بندھی ہے کہ وہ تعیشات کے حصول کے لیے بگ ٹٹ چلا جا رہا ہے۔ایک زمانہ تھا جب ٹیلی ویژن کو ’مْوا شیطانی ڈبہ‘ کہا جاتا تھا۔ اس زمانے میں پاکستان میں ٹیلی ویڑن چینلز کے نام پر صرف پی ٹی وی ہوا کرتا تھا اور ٹی وی ڈرامے انتہائی شریفانہ ہوتے تھے جنہیں خاندان بھر کے لوگ اکٹھے بیٹھ کر دیکھتے تھے۔

کبھی ٹیلی ویژن کا شمار ’تعیشات‘ میں کیا جاتا تھا لیکن اب یہ دنیا بھر کی ضرورت ہے۔آج جب دنیا ایک وسیع تر گاوں کی شکل اختیار کر چکی ہے ،،اور ترقی و تمدن کی انتہاووں کو چھو رہی ہے ،،،ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کا ہر شخص اور ادارہ بغیر کسی معین ہدف کے اندھوں کی مانند ٹامک ٹوئیاں مار نے میں مصروف ہے ،،،ہم بحثیت مجموعی ہر شعبہ میں زوال اور تنزلی کا شکار ہی نہیں ،،،عمومی طور پر اپنے مستقبل سے ناامید بھی ہوتے جا رہے ہیں اس صورتحال میں جہاں ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس صورتحال سے عہدہ برا ہونے کے لیے اپنے حصے کی کوشش کرے بلکہ بطور مجموعی بھی ہر شعبے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس صورتحال کے تدارک کے لیے بحثیت مجموعی اقدامات کرے ۔ سب سے اہم کردار صحافت کا ہے۔ یہی وہ واحد شعبہ ہے جو پوری سرعت سے تبدیلی کی نہ صرف راہ ہموار کر سکتا ہے بلکہ اسے مہمیز بھی دے سکتا ہے ۔ لازم ہے کہ اس شعبہ کو نہ صرف کالی بھیڑوں اور بد کردار لوگوں سے پاک کیا جائے ،،،بلکہ جو سہی اور دیانتدار لوگ اس میں ہیں ،،،ان کو بھی ایک مضبوط اور مربوط لڑی میں پرویا جائے اور انہٰیں اس ضمن میں انکی اہمیت ،افادیت اور اہلیت سے آگاہ کیا جائے اور اس مقصد کے لیے ایک جامع پلیٹ فارم بھی مہیا کیا جائے۔ صحافی اور پریس کلب سمیت ملک بھر میں کسی بھی تنظیم کے آئین اور دستور میں صحافی کی کوئی جامع تعریف ہی نہیں متعین کی گئی ہے۔ نہ ہی صحافت کی کوئی مخصوص تعریف ہے۔ بہت سے لوگ صحافت مفادات کی آبیاری ،کرپشن ،بدعنوانی کو چھپانے کا ہتھیار اور مال اکھٹا کرنے کا وسیلہ سمجھتے ہیں۔ صحافت جو قوموں کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہے ہمارے ملک اور معاشرے کے لیے ایک مصیبت کا رخ اختیار کر چکی ہے اسکا کردار تعمیری نہیں رہا۔بڑھتا ہواکمرشل ازم' صحافت کے لیے ایک خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ آزادی اظہارِ رائے کی طرح نجی زندگی میں عدم مداخلت بھی عوام کا بنیادی حق ہے جس کا صحافیوں کو احترام کرنا چاہیئے۔پریس کی آزادی، فرد کی آزادی سے منسلک ہے۔ اس لئے صحافیوں کوخود بھی ضابطہ اخلاق کی پابندی کرنی چاہئے۔ پاکستانی صحافت پر پولیس، حساس اداروں، لسانی اور سیاسی تنظیموں اور مافیاز کے ساتھ ساتھ ابلاغی اداروں کا مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ بھی اثر انداز ہورہا ہے۔اسلام آباد کے صحافی سلیم شہزاد کے قتل کی تحقیقات کرنے والے عدالتی کمیشن اپنی رپورٹ میں حکومت سے ملک میں خفیہ اداروں کے احتساب کا نظام وضع کرنے، ان کے دائرہ کار کے بارے میں قانون سازی اور ان کی نگرانی کا پارلیمانی نظام وضع کرنے کی سفارش کی تھی۔لیکن اب تک ان پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔پاکستان میں آزادی صحافت کی موجودہ صورتِ حال اطمینان بخش نہیں ہے اور خطرات بدستور موجود ہیں جنہوں نے اپنی شکل تبدیل کرلی ہے۔بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ آزادی صحافت کے لیے سب سے بڑا خطرہ خود صحافی بن چکا ہے جو خبر اور تبصرے کا فرق ملحوظ نہیں رکھتا۔ ان کے بقول موجودہ صحافت میں شفافیت کا فقدان ہے اور پیشہ ورانہ اہلیت اور معروضیت سے روگردانی کی جارہی ہے۔ 'پاکستان پریس کونسل' کی تشکیلِ نوکے بارے میں یہ تجویز ہے کہ کونسل میں حکومت کے نامزد اراکین کے بجائے آزاد اور غیر جانب دار افراد کی شمولیت یقینی بنائی جائے۔ صحافیوں کو اپنامحتسب خود ہی بننا ہوگا اور عالمی طور پر تسلیم شدہ صحافتی معیارات از خود نافذ کرنے ہوں گے۔ آئین کی دفعہ 19 اے کے تحت ہر فرد کو معلومات تک رسائی کا حق حاصل ہے جس پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ایک رائے یہ بھی ہے کہ معاشرے میں اپنے حقوق کے لیے عوامی سطح پر بھرپور آواز اْٹھائی جانے لگی ہے اور عوام کا میڈیا پر بھرپور اعتماد ہے۔ عوام میڈیا کو اپنے مسائل کے حل کے لیے اہم ذریعہ تصور کرتے ہیں۔ اینکر پرسن، کالم نگار، تجزیہ نگار، رپورٹر اور اسی طرح ایڈیٹر حضرات معاشرے میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں، نا انصافیوں اور بدعنوانیوں کی درست انداز میں نہ صرف نشاندہی کرتے ہیں بلکہ مسائل کا حل اور تجاویز بھی پیش کرتے ہیں اس ضمن میں عوامی رائے کو بھی برابر اہمیت دی جانے لگی ہے اس بنا پر آج ٹی وی ڈراموں سے عوام کی توجہ ہٹ چکی ہے اور لوگ زیادہ تر ٹی وی ٹاک شوز اور کالم نگاروں کے علاوہ تجزیہ نگاروں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور مسلسل ان میں دلچسپی بڑھ رہی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ ٹی وی ٹاک شوز نے معاشرے میں ایک نئی تبدیلی کو جنم دیا ہے جس سے ہر شہری میں سیاسی طور پر بیداری پیدا ہوئی ہے۔ اب ہر شہری بلا خوف اپنی رائے اور معاشرے کی نا انصافیوں اور بے ضابطگیوں کو منظر عام پر لانے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ حکومتی عہدوں پر فائز اعلیٰ شخصیات اور سیاستدانوں سمیت عوامی نمائندوں کی خوبیاں اور برائیاں بڑے تواتر سے عوام کے سامنے لائی جاتی ہیں جو کہ معاشرے میں بڑا مثبت اقدام ہے۔ ہمارے ہاں ہر دور حکومت میں فوجی ہوں یا سیاسی دونوں ہی میں بلکہ نگران ’’سیٹ اپ‘‘ میں بھی ایسے صحافیوں کی کھیپ موجود ہوتی ہے جو کہ اپنے صحافتی پیشے کو نظر انداز کر کے حکومتی عہدے قبول کر لیتی ہے یعنی وزیر، مشیر، سفیر حتیٰ کہ اب تو وزیراعلیٰ تک کے عہدے بھی صحافیوں کو پیش کیے جاتے ہیں۔آج بھی صحافی ملک کو بحران سے نکالنے کے لئے مذاکرات کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارا میڈیا بجائے انڈسٹری کی شکل اختیار کرنے کے اگر مملکت پاکستان کے اس ستون کا کردار ادا کرے جو کہ قوم کی اصلاح اور ملک و ملت کی ترقی میں اپنا قومی فریضہ ادا کرتا ہوا دکھائی دے۔۔۔ میڈیا گروپس قومی اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے اور ان کو مضبوط بنانے میں فعال کردار ادا کریں۔ پاکستان اس وقت جن نازک حالات سے دو چار ہے، ان حالات میں میڈیا کو ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا میڈیا اپنا قبلہ درست کر لے اور سچ کو سچ اور غلط کو غلط اور ظالم کو ظالم، آمر کو آمر اور کرپٹ کو کرپٹ ہی کہے اور کسی کی پردہ پوشی نہ کرے تو یقین کریں کہ پاکستان میں ہر میدان میں انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔پاکستان کی صحافت اور صحافیوں کا ایک تابناک ماضی ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ ہمیں اس راہ پر چلنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنا ہوگا۔

 

Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 418742 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More