عورت کی معنیٰ ہے پوشیدہ (پردہ)
آج کے موجودہ جاہل معاشرے نے عورت کوروشن خیالی کے نام پر بے پردہ کرکے اس
کو روشن خیالی کا نام دیا ہو ا ہے ۔ اور اس بگاڑ کی والدین ،بھائ ،شوہر ،اور
دوسرے محرم مرد ذمہ دار ہیں ۔دنیا کے کسی مذہب یا معاشر ے میں کو ئ مردانگی
والا مرد کبھی یہ گوارا نہیں کرے گا کہ اس کی ماں ،بہن ،بیٹی ،یا بیوی کی
عزت و عصمت کو کو ئ غیر مرد برے نظر سے دیکھے ۔عورت اگر اپنے عزت کا خود
حفاظت کرنا چا ہے تو دنیا کا کوئ طاقت اس کی عزت کو برے نگاہ سے نہیں دیکھ
سکتا ۔ مرد اور عورت دو مختلف جنس ہیں ۔جس طرح ہر نوع کے مخلوق کے جنس ہیں
۔لیکن انسان اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے دوسرے نوع کے مخلوق سے مختلف ہے ۔
جس میں اس کا دنیائ معاملات رہن سہن ،میل جول دوسرے مخلوقات سے مختلف ہے ۔اسی
طرح عزت کے معاملے میں باقی باتوں پر عورت کی عزت کو فوقیت حاصل ہے ۔عورت
ہمارے معاشرے میں مختلف صورتوں میں ہمارے زندگی میں شامل ہے ۔کہیں ماں ہے
تو کہیں بیوی کہیں بہن ہے تو کہیں بیٹی ۔اور ان سب کی عزت و عصمت کی
نگہبانی ہماری ذمہ داریوں میں شامل ہے ۔ ہم اگر اپنی بیٹی ،بہن یا بیوی کو
معاشرے میں غیر مرد سے پردہ کرنے کا حکم دیں تو کبھی ہماری عزت کو کوئ میل
آنکھ سے نہیں دیکھ سکے گا ۔ اندازہ لگا لیں ۔ جن علاقوں میں پردہ کرنے کا
رواج عام نہیں ہے یا جس علاقوں میں لڑکوں لڑکیوں کی مخلوط نظام تعلیم کا
رواج ہے ۔ وہاں ہماری بہن بیٹیوں کی عزت غیر محفو ظ ہے ۔ جو تھوڑی سی غلطی
کی صورت میں دنیا کے سامنے شرمندگی اٹھانی پڑ تی ہے ۔لیکن ہمارے کچھ آزاد
خیال اور روشن خیال بھائ اس پر فخر محسوس کرتے ہیں ۔ کہ اس کی بیٹیاں اچھے
سکول یا کالج میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ اور یہ خیا ل ہر گز نہیں کرتے کہ
وہاں ہمارے عزت کا کس طرح جنازہ نکل رہا ہے ۔ چادر او ر چارد یواری کو تو
ہمارے آزاد خیال ساتھی اپنے تحریروں اور تقریروں کی زینت بنا تے ہیں لیکن
اس کی تقدیس سے آگاہ ہونے کی کوشش نہیں کر تے ۔ اور یہی ہے ہماری سب سے بڑی
بے وقوفی ۔کہ ہم تباہی کو کامیابی کا نام دیتے ہیں ۔ جو لوگ عورت کی
استحصال اور حق تلفی پر قصیدے لکھ کر نہیں تکتے ۔وہ ذرا یہ بھی تو سوچ لیں
۔ کہ عورت کو اسلام نے کس طرح سے رہنے کا حکم دیا ہوا ہے ۔ بے شک عورت گھر
کے طاق پرسجانے کی چیز نہیں ۔ لیکن سر بازار غیر مردوں کے شانہ بشانہ چلنے
کا بھی تو نام نہیں ۔ عورت اگر قرآن کے مطابق زندگی گزار کر معاشرے کے ساتھ
چلنے کا عزم کر لیں تو اسلام اس پر کبھی پابندی نہیں لگاتا ۔میں نے بارہا
دیکھا کہ دفتر کا ساتھی اپنے بائک مو ٹر سائیکل پر ایک عورت کو اس کے بنگلے
پر ڈراپ کرنے آتا اور اس عورت کا شوہر اپنی بیوی کو اس غیر مرد کے ساتھ
دیکھ کر بھی مسکرا کر اس بندے کو ملتا ۔ اب آپ اندازہ لگالیں ،کہ جب مرد
میں اتنی مردانگی نہ ہو۔ جو اپنی منکوحہ بیوی کو کسی غیر مرد کے ساتھ دیکھ
کر بھی اس کی غیرت نہیں جاگتی ۔ تو میں لعنت بھیجتا ہوں اس روشن خیالی پر
جو حواء کی بیٹی کو اس بے راہ روی پر لگانے کی ذمہ دار ہے ۔ سوال یہ ہے کہ
کیا وہ عورت عورت کی صفات پر پوری اترتی ہے ،جو بے پردہ ہو کر معاشرتی
سرگرمیوں میں مصروف رہتی ہیں ۔ وہ عورت نہیں بلکہ عورت کی نام کی توہین ہے
۔وہ عورت اور وہ روشن خیال مرد اس غیر مسلموں کی آنکھ کا تار ا تو ہو سکتا
ہے ۔لیکن میرے اسلام کا اسلامی بھا ئ نہیں ہو سکتا ۔ آخر میں میرا ان تمام
ماؤں اور بہنوں سے گزارش ہے ۔ کہ مغربی تہذیب کے علمبردار ہونے کی بجایے
جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہِ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمہ الزہرا
،اور امہات المومنین کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں ۔ جس میں تمام جہانوں
کی کامیابی ہے ۔ خاص کر اپنی جوان بیٹیوں کو مو بائیل فون ہر گز نہ دیں ۔
کیونکہ موجودہ ایڈوانس گمراہ معاشرے میں سیکنڈ کے حساب سے عزت کا جنازہ
نکلنے کا خدشہ رہتا ہے ۔ اپنے بچوں پر جوانی کے بعد پوری نظر رکھیں ۔ اور
کسی غلطی کر نے کی صورت میں کسی کو قصور وار ٹہرانے کی بجایے اپنے ذمہ
داریوں پر روئیں ۔ اللہ ہم سب کو سچے اور پکے مسلما ن بنائیں ۔اور ہمیں
اپنی عزتوں کی حفاظت کرنے والے بنائیں ۔ آمین |