دوستو آؤ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوح جبیں تازہ کریں

نیکیوں کا موسم بہار.....رمضان

نیکیوں کے موسم بہار رمضان کا مہینہ شروع ہوچکا ہے، عشرہ رحمت کے آغاز کے ساتھ رحمتوں کے دروازے کھل گئے ہیں اور انعام و اکرام اور تجلیات کی بارشیں شروع ہوگئیں، اس ماہ مبارکہ کی شان یہ ہے کہ جب یہ مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر کے سر کش شیاطین کو قید کردیا جاتا ہے، یکم رمضان کی پہلی رات کو ایک فرشتہ اعلان کرتا ہے کہ ”اے خیر کے طالب....آگے بڑھ اور نیکیوں سے اپنا دامن بھرلے، اور اے شر کے چاہنے والے....گناہوں سے باز آجا، رمضان کا ادب کر، اللہ تعالیٰ ہر رمضان کی رات میں لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے۔“

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مشکوٰة شریف میں مروی ہے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شعبان المعظم کے آخری ایام میں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ”اے لوگوں، تم پر ایک بہت بڑی عظمت و برکت والا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے اور یہ وہ مہینہ ہے جس کی ایک رات ہزار مہینوں سے افضل و بہتر ہے، اللہ تعالیٰ نے اس مہینے میں تم پر روزے فرض کیے ہیں، اگر کوئی شخص اس مہینے میں کوئی ایک نیک کام اپنے دل کی خوشی سے خود کرے، وہ ایسا ہوگا جیسے رمضان کے سوا دوسرے مہینوں میں فرض ادا کیا ہو اور جو اس مہینے میں فرض ادا کرے وہ ایسا ہوگا، جیسے رمضان کے سوا دوسرے مہینوں میں ستر فرض ادا کیے ہوں، یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے اور یہ مہینہ معاشرے کے غریب اور حاجت مندوں کے ساتھ مالی تعاون، ہمدردی کا مہینہ ہے۔“

سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
”پانچ وقت کی نمازیں اور ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک کی عبادات کے درمیانی مدت کے(صغیرہ) گناہوں کو مٹا دینے والی ہیں۔“

ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشش اور مغفرت کی بارش ہوتی ہے، جس میں ایمان والوں کو گناہوں کی غلاظت سے پاک و صاف ہونے کا ایک سنہری موقع عطا کیا جاتا ہے،ح ضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ”وہ شخص رحمت الٰہی سے دور ہو، جس کی زندگی میں رمضان کا مہینہ آئے اور وہ اپنی بخشش نہ کراسکے۔“

ماہ رمضان کے فیوض و برکات اور رحمتوں کو حاصل کرنے کیلئے اہل ایمان کو اس مہینے میں جن خصوصی اعمال کا حکم دیا گیا ہے، ان میں روزہ سر فہرست ہے اور اسے بڑی اہمیت حاصل ہے، اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے کہ ”روزے دار کی منہ کی بو مجھے مشک و عنبر سے بھی زیادہ اچھی لگتی ہے اور یہ کہ مومن میرے لیے روزہ رکھتا ہے، میں اس کی جزا دوں گا۔“

حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں ”اللہ تعالیٰ ہر افطار کے وقت لوگوں کو (جہنم سے)آزاد فرماتا ہے اور یہ رمضان کی ہر رات میں ہوتا ہے اور روزے دار کی افطار کے وقت کی دعا ردّ نہیں ہوتی۔“

عزیز دوستو، رمضان کا مہینہ ہر لحاظ سے خیرو برکت والا ہے، اس مہینے کے نیک اعمال کے ثواب میں دوسرے مہینوں کی نسبت ستر گنا زیادہ برکت ہے، یہ ہماری کس قدر خوش قسمتی ہے کہ ربّ کائنات نے اپنے فضل و کرم سے ہمیں ایک بار پھر رمضان المبارک کا مہینہ دیکھنے اور اس کی بے شمار رحمتیں، برکتیں اور نیکیاں سمیٹنے کا موقع دیا ہے، تاکہ ہم ربّ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی اور قرب حاصل کرسکیں، ربّ کائنات نے ہم گناہ گاروں کیلئے اس ماہ میں فضائل و برکات، نیکیوں اور رحمتوں کا بے حد و بے حساب اہتمام کیا ہے، اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی اور دولت ایمان کے حصول کیلئے کس قدر نیکیاں سمیٹتے ہیں،

یہاں یہ بات واضح رہے کہ رمضان المبارک کا مقصد یہ نہیں ہے کہ سحری کے وقت پیٹ بھر لیا جائے اور افطار کے وقت خوب ڈٹ کر افطاری کی جائے، ماہ رمضان کا اصل مقصد تقویٰ و پرہیز گاری کے ساتھ یہ ہے کہ اس ماہ مبارکہ میں امت مسلمہ اپنے روز مرہ کے معمولات میں ایسی تبدیلیاں لائے جو اس کی زندگی اور معاشرے کا نقشہ ہی بدل ڈالے۔

قرب خداوندی کے حصول کیلئے ذکر و ازکار میں مشغول رہنا، درود پاک کی کثرت کرنا، نمازوں کی پابندی کرنا، خدا کی راہ میں صدقہ و خیرات کرنا، غریبوں، یتیموں اور مسکینوں کی مدد کرنا اور انہیں عید کی مسرتوں میں شامل کرنا، دلوں سے بغض، نفرت اور عناد کو باہر نکالنا، اور مکمل طور پر اسلامی تعلیمات کے دائرے میں آنا، یہ ساری تربیت رمضان المبارک میں ہوتی ہے، اب یہ ہمارا فرض ہے کہ ان کاموں کو اپنی زندگی کا معمول بنائیں کیونکہ یہی ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد ہے، محض ماہ صیام کے روزے رکھ کر پورے مہینے بھوکا پیاسا رہنا اللہ کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے، کیونکہ وہ ہمیں نیک اور پرہیز گار مسلمان دیکھنا چاہتا ہے۔

بلاشبہ اس مہینے کی برکت و عظمت عظیم ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اس ماہ کی رحمتیں ہر اس شخص کے حصے میں آجائیں جو اس ماہ کو پالے، اس کی مثال ایسے ہی کہ جب بارش ہوتی ہے تو بارش کا پانی مختلف ندی، نالوں اور تالابوں سے گزرتا ہے اور یہ ندی، نالے، تالاب، چٹانیں اور زمین کے ٹکڑے اپنی اپنی وسعت و گہرائی کے مطابق اس پانی سے فیضیاب ہوتے ہیں، جبکہ بارش سب پر یکساں برستی ہے، یہی حال انسانی فطرت اور نصیب کا ہوتا ہے، رمضان کے بے پناہ خزانوں میں ہمیں کیا ملتا ہے؟ یہ ہمارے وسعت قلب اور ایمان پر منحصر ہے، دل کی کھیتی نرم اور اگر ایمان کی کھاد سے زرخیر ہوگی، تو فصل بھی اچھی اور توانا ہوگی، لیکن اگر دل پتھر کی طرح سخت، بنجر اور چٹیل میدان ہوگا تو روزے، نماز، تراویح اور رحمت و برکت کا سیراب کرنے والا تمام پانی بہہ جائے گا اور کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔

اسلیئے ایسا نہ ہو کہ رمضان کا پورا مہینہ گزر جائے، رحمتوں اور برکتوں کے ڈول کے ڈول انڈیلے جاتے رہیں اور ہم اتنے بدنصیب ہوں کہ ہمارے کاسے خشک اور دامن خالی رہ جائیں، لہٰذا دوستوں....اس رحمت بھری ساعتوں کے گنوانے، محرومی سے بچنے اور اپنے حصے کی رحمتیں لوٹنے کیلئے حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس تنبہہ کو سامنے رکھ کر کمر کس لیجئے کہ ”کتنے روزہ دار ہیں جن کو اپنے روزوں سے بھوک و پیاس کے سوا کچھ نہیں ملتا اور کتنے راتوں کو نماز پڑھنے والے ہیں جن کو اپنی نمازوں سے رات کی جگائی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔“

یاد رکھیئے یہ مہینہ دلوں کی مردہ اور بنجر زمین کو زندہ و آباد رکھنے کا ہے، رمضان المبارک منزل نہیں بلکہ حصول منزل کا ذریعہ ہے اور ایک مسلمان کی منزل تو یہ ہے کہ وہ اپنا ظاہر اور باطن ایسا بنالے کہ اللہ اور اس کے رسول کی نظر میں جچ جائے اور اس کا مالک اس سے راضی ہوجائے، کیونکہ جو اللہ اور اس کے رسول کی نظر میں مذموم ہو اہل دنیا کا محبوب ہونا اسے کوئی فائدہ نہیں دے سکتا، یاد رکھیئے کہ حقیقی راحت یہ نہیں کہ آپ کو دنیاوی آسائش اور چین و آرام میسر ہو بلکہ حقیقی راحت یہ ہے کہ رضائے الٰہی کے حصول کی کوشش کی جائے جو اپنا احتساب و محاسبہ اور جہدوجہد و سعی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

کون کہہ سکتا ہے رمضان کا یہ مہینہ ہمیں دوبارہ دیکھنے کو نصیب ہو، لہٰذا ان لمحات کو غنیمت جانتے ہوئے اس موقع کو ضائع مت ہونے دیجئے، اگر قسمت نے ہمیں ایک مہینہ اللہ اور اس کے رسول کی رضا کے مطابق گزارنے کی توفیق مرحمت فرما دی ہے تو اس کا شکر ادا کیجئے اور کوشش کیجئے کہ بقیہ گیارہ مہینے ہی نہیں باقی ماندہ تمام زندگی بھی اسی مقصد اور رضا کے حصول میں گزر جائے اور رمضان کا آیا ہوا رنگ ہماری ساری زندگی اور پورے معاشرے پر محیط ہوجائے ۔
سرکشی نے کردیئے ہیں دھندلے نقوش زندگی
آؤ سجدے میں گریں اور لوح جبیں تازہ کریں
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 316 Articles with 313604 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More