س وقت ہر پاکستانی متفکر ہے کہ ملک کا مستقبل کیا ہو گا…؟
روزمرہ کے بم دھماکوں ، سماج دشمن اور قانون شکن عناصر کو کھلی چھٹی ہر محب
وطن کو بیقرار کر رہی ہے،حکومت بھی اس معاملے میں پیچھے نہی کیونکہ روز مرہ
کی جو اشیائے صرف اس وقت حکومت کی دسترس میں ہیںآئے روز نئے نئے نرخ
صارفین پر قیامت ڈھارہے ہیں۔ بجلی ،گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی گرانی اس پر
مستزاد، ٹرانسپورٹرز اور اشیائے صرف کے تیار کنندگان (Producers) اس پر
مزید شرح منافع بڑھا کر اسے عام صارف تک منتقل کر رہے ہیں گویا حکومت اور
دیگر لٹیرے لوگوں کی پاکٹس گرانی مقناطیس کے ذریعے خالی کرنے پر تل گئے ہیں،
صورتحال یہ ہے کہ ایک سوئی خریدنا ہو تو بازار کے ایک سرے سے دوسرے کونے تک
چھان بین کرنا پڑتی ہے کہ نرخ سب سے کم کہاں ہیں؟ ہر دکاندار کی اپنی قیمت،
دو نمبر اور جعلی اشیاء کی سر عام فروخت، اشیائے خوردونوش میں ملاوٹ کا
گھنائونا کاروبار، گھی کے نام پر فروخت ہونیوالا خام پام آئیل اور اسی طرح
کی ہزاروں اشیاء ایسی ہیں کہ جن کے استعمال کے بعد مریضوں کی تعداد میں
اضافہ جبکہ تعمیری اور فکری قوتیں محدود ہوتی جا رہی ہیں دوسری طرف اسلام
آباد کا مراعات یافتہ نیرو(Nero) ملک کو جلتا ہوا دیکھ کر چین کی بانسری
بجانے میں مصروف ہے۔
ملک میں آنیوالا ہر نیا دن عام پاکستانی کیلئے لاکھوں قہر سامانیاں لا رہا
ہے، مہنگائی کا جن تو ایک طرف، ہر ریاستی ادارہ افراتفری کا شکار اور
شہریوں کو ریلیف دینے میں بری طرح ناکام بھی ہے، کرکٹ سٹیدیم راولپنڈی میں
دو تین شبانہ میچ کیا ہوئے پورے علاقے کو کرفیو زدہ کر دیا گیا اور اس میں
قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے خواتین، بچوں اور معمر افراد کو بھی نہیں
بخشا اور اپنے "اعلیٰ اخلاق"کا بھر پور مظاہرہ کیا، اسی طرح راولپنڈی کی
مرکزی شاہراہ مری روڈ پر حکومت میٹرو بس کا ٹریک بنانے کیلئے کام کا آغاز
کرنے جا رہی ہے مگر پنجاب حکومت میں شامل مری سے تعلق رکھنے والے ایک وزیر
اپنے اور اپنے بہی خواہوں کی جائیدادیں بچانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگانے
میں مصروف ہیں حالانکہ ان لوگوں کو تو قربانی دیکر قوم کے سامنے اپنے ایثار
کی مثال پیش کرنی چاہئے لیکن ایسی باتیں تو خلفائے راژدین کے دور میں ہی
ممکن تھیں، 2014ء ایسا ہونا محالات میں سے ہے۔
ملک میں پولیس اور محکمہ مال کے اہلکاروں کے بارے میں کبھی کلمہ خیر نہیں
کہا گیا، برٹش کالونیائی دور میں ان دو اداروں نے جس طرح کے سیاہ کارنامے
انجام دئے کہ خود ان دونوں محکموں کے ملازمین حتی الوسع اپنی شناخت پوشیدہ
رکھنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں مگر حالیہ انتشار اور طوائف الملوکی کے
عہد میں وائٹ کالر جرائم کا دائرہ تعلیم جیسے مقدس شعبے کو بھی اپنی لپیٹ
میں لے چکا ہے، میٹرک سے ایم فل تک جس کلاس کی ڈگری ضرورت ہو "مناسب فیس"
کے عوض گھر تک پہنچائی جاتی ہے، اس سے یہ حقیقت طشت از بام ہو گئی ہے کہ
پاکستان میں کوئی بات انہونی نہیں، ایجوکیشن بورڈز میں پوزیشن ہولڈرز کے
بارے میں تعلیمی مافیا خود اس بات کا انکشاف کرتی ہے کہ مارکنگ کے بعد جب
پیپرز واپس بورڈ میں آتے ہیں تو چند لاکھ کے عوض ان بورڈز کے بعض کرپٹ
ایمان فروش اہلکاروں کی ملی بھگت سے اصل پوزیشن ہولڈرز کی جگہ ان لڑکوں کو
وکٹری سٹینڈ پر لا کھڑا کر دیا جاتا ہے جنہوں نے کبھی سکول یا کالج کی شکل
بھی نہیں دیکھی ہوتی، اس طرح پاکستانی ٹیلنٹ کا سرعام قتل کیا جاتا ہے، بعض
لوگ یہ تردد بھی نہیں کرتے بلکہ کسی بھی طالبعلم کی رجسٹریشن پر ایک اور
ڈگری جاری کروا لیتے ہیں، یہ بھی شنید ہے کہ پرائیویٹ سکولوں کے مالکان
فیسیں بڑھانے کے لالچ میں اپنے ہی ذہین اور قابل ترین طلباء و طالبات کا
فرسٹ ائر کا رزلٹ خراب کروا دیتے ہیں، ملک میں ان شکایات کے ازالے کیلئے
پرویزی دور میں ڈاکٹر عطاء الرحمان کی سربراہی میں ہائر ایجوکیشن کمیشن
بنایا گیا مگر عوامی جمہور کے اس دور میں اس کمیشن کو عضو معطل بنا کر رکھ
دیا گیا ہے، اس کے اثرات اب یہ نکلے ہیں کہ یہ جعلی ڈگری ہولڈرز جب قومی
اداروں کے مسند نشین بنتے ہیں تو یہ ادارے ترقی معکوس کی جانب مراجعت کر کے
آخر کار زمیں بوس ہو جاتے ہیں، ملک میں اقتصادی، سماجی، فکری اور دیگر
انتشار اور افرا تفری کی وجہ سے قوم مسلسل رجعت قہقہری (Reverse)کی جانب
گامزن ہے، وہاں ہی قابل ٹیلنٹ اپنی تشنہ تکمیل آرزوئوں کا خون ہوتا دیکھ
کر خوفناک آتشیں اسلحہ اٹھانے پر مجبور کیا جا رہا ہے، طالبان کا موجودہ
خوفناک رویہ انہی اعمال کا شاخسانہ ہے جو ہم ہر شعبہ زندگی میں کانٹوں کی
طرح بو رہے ہیں، ٹیلنٹ بہرحال ٹیلنٹ ہے وہ اپنا راستہ خود نکال رہا ہے،
جاگیرداروں ، وڈیروں اور بیورو کریٹوں وغیرہ کی اولادوں کا کیا کام کہ وہ
مشکل کی گھڑی میں قوم کا ساتھ دیں اور ساتھ دیں بھی کیسے؟ ان کے پاس
صلاحیت، اہلیت اور قابلیت کا بھی تو فقدان ہوتا ہے، وہ ہر مشکل گھڑی میں
کرائے کے چوکیداروں پر بھروسہ کر کے سات تہہ خانوں کے نیچے زندگی بسر کرنے
پر مجبور ہوتے ہیں، ان کے مشاغل میں خوبرو لڑکیوں کے ساتھ دل بہلانا، کتوں
کے ساتھ کھیلنا، موبائل اور انٹر نیٹ پر چیٹینگ (Chating)اور چیٹینگ
(Cheating)کرنا ، اپنی شامیں فاسٹ فوڈ ریستورانوں کی کینڈل لائٹ میں گزارنا
یا پھر موسم کے مطابق لانگ ڈرائیو پر نکل جانا ہے، یہ شہزادے مہنگائی کی
چکی میں دو وقت کی روٹی کو ترسنے والے عام آدمی کے دکھ کیا جانیں؟ انہیں
کیا پتہ کہ جس طالب علم کی محنت پر انہوں نے جعلی ڈگری حاصل کی ہے اس نے
کتنی راتیں آنکھوں میں کاٹی ہیں؟ کس کس مشقت کے بعد اس نے ٹیوشن فیس اپنے
تعلیمی اداروں میں جمع کرائی ہے؟ یہ اشرافیہ اس بات کا بھی ادراک نہیں کر
سکتی کہ بم دھماکہ میں جس گھر کا واحد کفیل روئی بن کر ہوا میں تحلیل ہو
گیا اس کا خاندان کن کن مصائب و آلام، ننگ اور بھوک، محتاجی و عسرت حالی
کے علاوہ کس طرح بے یارومدد گار ہو گیا ہے ؟ وہ کیا جانیں کہ گرمیوں میں 55
اور سردیوں میں منفی 25 ڈگری سینٹی گریڈ میں کھلے آسمان تلے کام کرنیوالا
پاکستانی مزدور اپنی بچیوں کی مانگ سجانے، سر کی چھت بنانے اور حلال کی
روزی کمانے کے کن کن سپنوں کو اپنی آنکھوں میں سجائے جبر مسلسل کی طرح
زندگی کی لاش اٹھائے کوچہ و بازار میں گھوم رہا ہے؟ مگر ان امیر زادوں کو
تو اپنی شامیں رنگین بنانے سے غرض ہوتی ہے، پاکستانی قوم پر حکمرانی کرنا
وہ اپنا فرض سمجھتے ہیں ایسے میں کیا توقع کی جا سکتی ہے کہ اس قماش کی
حکومتی مشینری 20کروڑ پاکستانی عوام کی گرداب میں پھنسی نائو کو کنارے پر
پہنچا سکیں گے؟ فی الحال ایسا ہونا دور دور تک نظر نہیں آ رہا، مگر یہ
جمود (Status co)کی شکار یہ صورتحال کب تلک… اس تاریک ترین رات کے بعد آخر
ایک روشن سویرا نے مشرق سے طلوع ہونا ہی ہے… اور پاکستانی قوم… اب ایسی ہی
تابناک سحر کا انتظار کر رہی ہے۔
|