میری گذارشات اخبارات کے علاوہ چند ایک معتبر ویب سائٹ پر
بھی شائع ہوتی ہیں،جہا ں سے فیس بک اور ٹوئٹر پر چڑھ جاتی ہیں،اور ویب سائٹ
اور سوشل میڈیا وہ میڈیم ہے جس نے فاصلوں کو محدود کیا بالکل ہی ختم کر کے
رکھ دیا ہے،اب کوئی بھی کہیں سے بھی ویب سائٹ کھول کے نہ صرف ہر قسم کے
کالم نگار اور اس کی تحریر کو کھنگال سکتا ہے بلکہ اس پر اپنی رائے بھی دے
سکتا ہے،اسی طرح کچھ لوگ ساتھ دیئے گئے میل ایڈریس یا فون پر بلکہ ایس ایم
ایس پر بھی اپنی رائے دیتے ہیں،جب کبھی میرے قلم سے کوئی اچھی تحریر ٹپکتی
ہے تو بہت سے دوستوں کی کالز اور ایس ایم ایس بھی آتے ہیں اور کچھ دوست ای
میل کے ذریعے بھی راہنمائی کرتے ہیں ،راہنمائی اس لیے کہ میں ہر قسم کی
تنقید کو بڑا ہی پازیٹو لیتا ہوں اور ساتھ ہی متعلقہ فرد کا تہہ دل سے
شکریہ بھی ادا کرتا ہوں کہ اس نے نہ صرف میری تحریر کو غور سے پڑھا بلکہ اس
پر اپنی صائب رائے بھی دی،ایسی ہی ایک ای میل گوجرانوالہ سے محمد اسلم صاحب
نے کی ہے اس میل کوکالم میں شامل کرنا ضروری سمجھا کہ یہ میل نہ صرف بہت
کچھ واضح کررہی بلکہ میری وضاحت سے امید ہے کئی ایک غلط فہمیوں کا بھی
ازالہ ممکن ہو گا،محمد اسلم صاحب لکھتے ہیں،،،جناب شفیق ملک صاحب۱ سلام کے
بعد امید آپ اﷲ کے فضل وکرم سے اچھی صحت مند زندگی انجوائے کر رہے ہوں
گے،میں پیشے کے اعتبار سے ٹیچر ہوں اورہماری ویب میں آپ کے کالم باقاعدگی
سے پڑھتا ہوں،آپ کا قلم جس بے رحم طریقے سے ظالموں اور بے حس حکمرانوں کے
ضمیر کو جنجھوڑتا ہے اگر تمام لکھنے والے یہی وطیرہ اپنا لیں تو یقین کریں
کافی حد تک بہت سے لوگ اپنی عادات واطوار تبدیل کرنے پر مجبور ہو جائیں
گے،ملک سب آپکی جان دار تحریریں بلا شبہ معاشرے کی اصلاح کا کام کر رہی ہیں
مگر آپ سے تھوڑا سے گلہ بھی ہے کہ آپ مذہبی حلقوں پر تنقید میں تھوڑا سا
آگے نکل جاتے ہیں اور طالبان کے ساتھ ساتھ آپ ایک خاص متبہ فکر(دیوبندی)کو
بھی اپنے تیروں کے نشانے پر رکھ لیتے ہیں جو قرین انصاف نہیں ہے،میں ہر گز
طالبان اور ان کی اسلام و ملک دشمن کاروائیوں کی حمایت نہیں کر رہا ،مگر یہ
بھی ہر گز صائب نہیں کہ غلطی کوئی ایک کرے تو سزا تمام لوگوں کو ،بلکہ پورے
مکتبہ فکر کو ان کے ساتھ شامل کر دینا کہاں کا انصاف ہے ،جناب کیا آپ نہیں
جانتے کہ دیوبند کے مدرسوں میں اس وقت ملک بھر میں لگ بھگ تین لاکھ سے
زیادہ طلباء زیر تعلیم ہیں،جنہیں تین وقت کا بہترین کھانا اور رہنے کے لیے
فرنشڈ رہائش مہیا کی گئی ہے،اور اس سب کچھ کے عوض ایک دھیلا بھی کسی بچے سے
وصول نہیں کیا جاتا،ہے کوئی اور اتنی بڑی این جی جو روزانہ اتنے لوگوں کے
کھانے کا نہ صرف مناسب بندوبست کر رہی ہو بلکہ انہیں قرآن و سنت کی تعلیم
بھی دے رہی ہو،اس کے علاوہ ان کے ٹرسٹ سے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کو
مفت روٹی بھی فراہم کی جاتی ہے،یہ انہی لوگوں کے مدارس ہیں جنھوں نے آ کر
اسلام سیکھنے اور اسلام پڑھنے والوں کی عزت نفس بحال کی ورنہ وہ دور بھی آپ
کے ساتھ ساتھ بہت سے لوگوں کو یاد ہو گا کہ سر پر سفید ٹوپیاں پہنا کے مدرس
ان طالب علموں کو سر شام کھانا مانگنے کے لیے گھرگھر بھیجا کرتے تھے،ان
مدارس نے اس کلچر کو سرے سے یکسر ختم کر دیا،یہ دنیاکی سب سے بڑی این جی او
ہیں جو ہزاروں لوگوں کو تعلیم کھانا اور رہائش بالکل مفت فراہم کر رہے
ہیں،ذرا معاشرے میں نکل کے دیکھیں کہ کتنے غریب اور ناچار لوگ اپنے معصوم
بچوں اور بچیوں کو مستورات کے مدرسوں میں چھوڑ کے جا رہے ہیں اور مزے کی
بات یہ ہے کہ یہ والدین اپنے بچوں کو یہاں چھوڑ کے ان کی حفاظت او ر
نگہداشت سے مکمل طور پر مطمئن ہو کر گھروں کو لوٹتے ہیں، آپ ریاست سے کہیں
کہ وہ ان تین لاکھ سے زیادہ کی تعداد میں بچوں کی ذمہ داری لے ان کی تعلیم
اور رہائش کے ساتھ کھانے پینے کا بندوبست کرے،طالبان بننا بند ہو جائیں
گے،آپ معاشرے میں طبقاتی تقسیم پر نظر ڈالیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ لوگوں
کو کس حال میں پہنچا دیا ان حکمرانوں نے،پہلے لوگ غربت سے تنگ آکر اپنے
گردے بیچتے تھے آج جگر کے ٹکڑے اپنے لخت جگر بیچ رہے ہیں،مانا کہ شدت
پسندیاور طالبانائزیشن کسی مسئلے کا حل نہیں اوراس سے معاملات میں بگاڑ
پیدا ہو ا مگر وہ جن کی ذمہ داری ہے کہ ریاست کی رٹ قائم کریں وہ کیا کر
رہے ہیں،وہ بھی تو کبھی اپنی اداؤں پر غور کریں،اگر طالبان آئین و قانون کو
نہیں مانتے تو دیانتداری سے بتایئے کیا پاکستانی حکمران آئین کو مانتے
ہیں،ڈکٹیٹر فوجی جرنیلوں کو چھوڑیں جمہوری حکمرانوں کو دیکھ لیں کس آئین
میں لکھا ہے کہ دو ہزار کے لگ بھگ سیکورٹی اہل کار رائے ونڈ کے محلات پر
ڈیوٹی دیں،کس آئین میں لکھا ہے کہ سولہ سو اہلکار نہ صرف بلاول ہاؤس بلکہ
آس پاس اور ادھر آنیوالی سڑکوں پر سیکورٹی پہ تعینات کیے جائیں،کس آئین میں
لکھا ہے کہ شاہی سواریاں گذارنے کے لیے گھنٹو ں روٹ لگا دیے جائیں اور
ہماری بہنیں بیٹیا ں رکشوں بسوں اور ایمبولینسوں میں بچے جنیں،کیا یہ ہے
ہمارا نظام کیا یہ ہے ہمارا قانون،کیا یہ ہے ہماری ریاست جو ماں کہ جیسی
ہوتی ہے مگر صرف کتابوں میں،،آپ سے صرف اتنی گذارش ہے کہ ہر غلط کو غلط
کہیں اور جس کا جتنا جرم ہے اس پر اتنی ہی تنقید کریں،اگر کوئی بات بری لگی
ہو تو معذرت خواہ ہوں اور آخر میں آپ کی ہی بات جو آپ ہر کالم کے آخر میں
لکھتے ہیں کہ اﷲ آپ کا حامی وناصر ہو،،والسلام،،محمد اسلم
گجرانوالہ،،،،،،جناب اسلم صاحب مجھے آپ کی کہی گئی باتوں میں سے سوائے ایک
کے کسی سے بھی اختلاف نہیں کہ آپ ایک مکتبہ فکر پہ زیادہ تنقید کرتے ہیں تو
جناب عرض یہ ہے کہ ویب سائٹس پہ میرے بہت سے کالم موجود ہیں آپ ذرا دوبارہ
ان کا مطالعہ کریں تو آپ کو فیصلہ کرنے میں آسانی ہو گی،میں نے کبھی بھی
کسی کی بھی کسی صورت میں طرف داری نہی کی،میں نے ہمیشہ سیاسی و مذہبی
وابستگی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہمیشہ حق اور سچ بات کہی ہے،آپ میرا کالم
غلام حسین اور غلام رسول پڑھیں اور دیکھیں کہ میں نے کس کس کی کس کس انداز
سے قابل گرفت باتوں کو ہدف تنقید بنایا ہے،مجھے طالبان کے مطالبے سے کوئی
اختلاف نہیں بلکہ کسی بھی مسلمان کو نہیں ہو سکتا کہ ملک میں شریعت نافذ کی
جائے،مگر کون سی شریعت،چلیں شیعہ،سنی بریلوی و اہلحدیث کی شریعت کو چھوڑیں
کیا خود طالبان جس شریعت کی بات کرتے ہیں اس پر عمل تو دور کی بات کبھی غور
بھی کرنے کی زحمت گوار ا کی انہوں نے،کونسی شریعت میں بے گناہ لوگوں کے
چیتھڑے اڑا دینا حلال ہے،کون سی شریعت میں لوگوں کو اغواء کر کے کروڑوں
روپے وصول کرنے کی اجازت ہے،مجھے بتائیے ان طالبان نے کتنی جعلی دوائیاں
بنانے والوں کے گلے کا ٹے،کتنے دودھ میں ملاوٹ کرنیوالوں کو پھانسی دی،اس
ملک کی سپریم کورٹ نے ایک نہیں دو نہیں اٹھارہ منرل واٹر کمپنیوں کے پانی
کو مضر صحت اور ملاوٹ شدہ قرار دیا بتائیے کتنی ایسی فیکٹریوں کو دھماکوں
سے اڑایا گیا،لوگوں کو مردہ جانوروں کی انتڑیوں سے تیار کر کے کھانے کا تیل
کھلایا اور پلایا جا رہا ہے شریعت توکہتی ہے جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے
نہیں مجھے بتائیے کتنے ایسے لوگوں کی گردنیں کاٹیں ان طالبان نے،شریعت تو
ہر مذہب کے ماننے والے کو اس کے طریقے کے مطابق زندگی گذارنے اور عبادت
کرنے کا حق دیتی ہے ،معصوم بچیوں سے ریپ کرنے والے،ڈکیت گھروں میں گھس کر
لاچار ماں باپ سے ان کی بیٹیوں کا جہیز چھین کر لے جانیوالوں کی طرف تو کسی
نظر نہیں جاتی ،انہیں صرف قابل گردن زنی ایک مخصوص فرقہ اورمجبور سیکورٹی
اہلکار ہی کیوں نظر آتے ہیں جو اپنے بچوں کے رزق کی خاطر گھر سے دور اپنی
ڈیوٹی سرانجام دینے پر مجبور ہیں،اور دوسری بات حکمرانوں کی بے حسی اور بے
ضمیری کی تو اس سے ہر ذی شعور اسی طرح نالاں ہے جیسے آپ،اور اہم بات یہ بھی
کہ حالیہ مذاکرات میں طالبان نے کیا یہ مطالبہ شامل کیا اپنے مطالبات میں
کہ آئندہ وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کیا جائیگا ملک سے اور کسی بھی سڑک کو
کسی وی وی آئی پی کے لیے بند نہیں کیا جائیگا،ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی پر
سخت ترین سزائیں دی جائیں، ان کے تو نہ گلے کاٹے گئے نہ ہاتھ جو بھائی یا
باپ کی غلطی کی سزا چھ سالہ بچی کو ونی یعنی ساٹھ سالہ بزرگ کے پلے باندھ
دیتے ہیں ایسی پنچائتوں کے خاتمے کا کوئی مطالبہ ،نہیں ایک بھی ایسا مطالبہ
نہیں تو جناب پھر آپ ہی بتائیے کہ ان کی ترجیحات کیا ہیں اور وہ کیا چاہتے
ہیں،جس طرح کا نظام وہ چاہتے ہیں اس کی کوئی بھی عقل و دانش والا شخص حمایت
نہیں کر سکتا نہ میں نہ آپ کیوں کہ اس نظام کا اسلام سے دور پرے کا بھی
واسطہ نہیں،آپ بھی ایمانداری سے بتائیں کہ ان کو دیکھ کے ان کے نظام کو
دیکھ کے لو گ اسلام کے نزدیک آئیں گے یا دور بھاگیں گے ر،ہی بات دیوبندی
مکتبہ فکر پر تنقید کی تو میرے بھائی میں اس مکتبہ فکر کے تمام لوگوں پر ہر
گز ہر گز تنقید نہیں کرتا صرف ان لوگوں کو جھنجھوڑنے کی کوشش کرتا ہوں کہ
جو بے گناہوں کی بہیمانہ قتل و غارت کی مذمت کرنے کی بجائے خواہ مخواہ کے
جواز تلاش کرتے ہیں اس کے علاوہ ایک اور مزے کی بات آپ کو بتاؤں کہ میں خود
بھی اسی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہوں،اور میں نے حق اور سچ کہنا انہی لوگوں
سے سیکھا ہے،،،،،اﷲ ہم سب کا حامی و ناصر ہو،،،
|