کہا جاتا ہے کہ جس نے لاہور کی سڑکوں پر گاڑی چلا لی ، وہ
دنیا میں کہیں بھی گاڑی چلا سکتا ہے۔ اِس شہر میں مؤثر انداز میں ڈرائیونگ
کرنے کے لیے یہاں کے خاص قوانین سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سڑک استعمال کرنے کے
لیے شاہراہوں کا ضابطہ موجود ہے مگر آپ اس کو نظر انداز کر سکتے ہیں کیوں
کہ اس پر عمل کرکے آپ صبح کے چلے رات کو گھر پہنچیں گے اور رستے میں جو
گالیاں پڑیں گی وہ اس کے علاوہ ہیں۔ دراصل یہ کتابچہ اب خاصا ‘‘آؤٹ ڈیٹ’’
ہوچکا ہے اور اس میں زیادہ تر ان وقتوں کی باتیں ہیں جب ٹریفک کانسٹیبل کا
احترام موجود تھا اور لوگ سرخ بتی پر رک جایا کرتے تھے۔لاہور کے ٹریفک
قوانین کی روح دراصل یہ دو نکات ہیں۔میں نے سب سے پہلے گھر پہنچنا ہے۔ زمین
اور روڈیں ساری اﷲ کی ہیں۔ان اصولوں سے ٹریفک کے باقی احکامات نکلتے ہیں،
چند ایک یہ ہیں،
دنیا کے بیشتر ممالک میں رائٹ ہینڈ یا لیفٹ ہینڈ ڈرائیونگ ہے،لاہورمیں الٹی
سیدھی ڈرائیونگ زیادہ مشہور ہے روڈ کے دونوں ٹریک تمہارے اپنے ہیں۔ جدھر
جگہ پاؤ گھس جاؤ۔ آگے سے آنے والی گاڑیوں کو متنبہ کرنے کے لیے (تیز لائٹ)
جلانا کافی سمجھو۔روڈوں پر سگنل یا اشارے بالکل غیر ضروری مخلوق ہیں۔ ان کا
چنداں خیال نہ کرو۔ آؤ دیکھو، تاؤ دیکھو اور گاڑی کو رستے پر ڈال دو۔ یہ
بات بلاوجہ کہی جاتی ہے کہ گاڑی میں درمیانی، داہنا اور باہنا شیشہ ہونا
ضروری ہے اور اس کی مدد سے کچھ کچھ دیر پر پیچھے دیکھتے رہنا چاہیے تاکہ
اور گاڑیوں کا خیال رہے۔ تجربہ نے ثابت کیا ہے کہ زیادہ ادھر ادھر دیکھنے
سے گاڑی چلانے میں روانی نہیں آتی اور تم کو دوسروں کے لیے زیادہ رکنا پڑتا
ہے، پس زیادہ ادھر ادھر دیکھنا بے کار ہے، گاڑی کو گیئر میں ڈالو اور اپنی
راہ لو۔ دوسروں کو تمہیں دیکھ کر خود ہی رکنا پڑے گا۔ اکثر ایسی جگہ بھی
اشارے لگا دیے جاتے ہیں جہاں کوئی مخالف ٹریفک تم سے نہیں ٹکراتا۔ یہ قانون
دانوں کی غلطی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایسے اشارے پیدل لوگوں کے لیے لگائے جاتے
ہیں۔ یہ لغو بات ہے۔ پیدل چلنے والے سڑک پار کرتے ہوئے ہاتھ دے سکتے ہیں۔
اگر تم سائیکل یا موٹر سائیکل سوار ہو تو تمہیں روڈ پر بالکل دائیں طرف
فاسٹ لَین میں چلنا چاہیے۔ اس طرح بسوں کے بار بار رکنے کی وجہ سے ہونے
والی پریشانی سے بچ جاؤ گے۔ تیز گاڑیاں لاکھ ہارن دیں تم اپنی جگہ سے نہ
ہٹو۔ سڑک میں گول چکر (راؤنڈ اباؤٹ) اور دوسرے مقامات پر کہا جاتا ہے کہ
دائیں طرف سے آنے والے کا پہلا حق ہے۔ یہ حق اور حقوق کی باتیں پرانی
ہوگئیں۔ اب حق ملتا نہیں ہے، چھینا جاتا ہے۔ تم بھی چھینا جھپٹی کرو اور
گول چکر میں داخل ہو جاؤ۔ پارکنگ کے لیے بہت سے رہنما اصول بتائے جاتے ہیں۔
ان سب کو یاد رکھنے کی بجائے صرف یہ دیکھو کہ تمہیں گاڑی جتنی جگہ مل جائے۔
بلا خوف گاڑی لگاؤ بھلے سے اس کی وجہ سے تمام ٹریفک رک جائے۔ آخر کو تم
vehicle ٹیکس دیتے ہو!۔گاڑی زیادہ تر تیز ٹریک میں چلاؤ اور جو چاہے کرو۔
یہاں سے کوئی مائی کا لعل تمہیں نہ روک سکے گا۔ اگر بالفرض مائی کا لعل
تمہیں روک ہی لیتا ہے تو مک مکے کا آپشن کھلا رکھو اور جگہوں پر گاڑی چلاتے
ہوئے موبائل فون سننے سے روکا جاتا ہے یہاں بھی ایسے قوانین لاگو کیے گئے
ہیں۔ ان کی بالکل فکر نہ کرو۔ موبائل پر کال آئے تو ضرور بات کرو۔ اہم کال
سے لاکھوں کا نقصان ہو سکتا ہے اس لیے موبائل کی پہلے فکر کرو۔ گاڑی میں
اونچی آواز میں گانے لگائے رکھو خود بھی سنو اور اوروں کو بھی سناؤ۔ گانے
انگریزی یا کسی غیر مانوس زبان میں ہوں تو زیادہ بہتر ہے۔ یہ اس لیے بھی
ضروری ہے تاکہ گاڑی چلاتے ہوئے جاگتے رہو۔ ہاں اگر نیند زیادہ آ رہی ہو تو
اونگھ لینے میں کوئی حرج نہیں گاڑی چلانے کے لیے لائسنس ضروری نہیں۔ 17 سال
سے زیادہ عمر بھی ضروری نہیں۔ آنکھوں کا 6/6 ہونا بھی ضروری نہیں۔ طبیعت کی
درستگی اور چاق و چوبند ہونا بھی ضروری نہیں۔ گاڑی کا اچھی کنڈیشن میں ہونا
بھی ضروی نہیں۔ یہ سب تکلّفات ہیں۔ تمہیں جہاں جانا ہو بس نکل کھڑے ہو۔
زیادہ سوچو نہیں۔ گاڑی زیادہ سے زیادہ تیز چلاؤ۔ حدِ رفتار کو اپنا مقصد
بناؤ۔ گاڑی صرف اس وقت روکو جب کسی کے مرنے کا خطرہ ہو۔بانی پاکستان
قائداعظم محمد علی جناح کہیں جا رہے تھے ریلوے پھاٹک کے قریب ان کی گاڑی
پہنچی تو ریلوے پھاٹک کا اہلکار پھاٹک بند کرنے لگا، قائدکی گاڑی رک گئی
اتنے میں قائداعظم کے اے ڈی سی ریلوے پھاٹک کے قریب گئے اور ملازم سے کہا
کہ پھاٹک کھول دو تاکہ قائد اعظم محمد علی جناح کا قیمتی وقت بچ سکے۔ اے ڈی
سی واپس آیا تو بانی پاکستان نے اسے ڈانٹ پلائی اور کہا کہ اگر میں قانون
کا احترام نہیں کروں گا تو پھر کون کرے گا۔ قائداعظم محمد علی جناح اور
علامہ محمد اقبال کے پاکستان میں قانون کی پاسداری ہونا لازم ہے عرض ہے بڑا
شخص وہی ہوتا ہے جو قانون کا احترام کرے، کسی قوم کی تہذیب و تمدن کا
اندازہ لگانا ہو تو وہاں کے ٹریفک پر ایک نظر ڈال لی جائے پھر یہ کہ ٹریفک
قوانین پر عمل پیرا ہونے سے وقت کی بچت کے ساتھ ساتھ حادثات کی روک تھام
بھی ممکن ہے ایک تجزیہ کے مطابق اتنے انسان دشمنیوں کے نتیجہ میں ہلاک نہیں
ہوتے جتنے ٹریفک حادثات کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ٹریفک حادثات کی روک تھام کے
لئے عوام میں ٹریفک شعور پیدا کرنا از حد ضروری ہے، گزشتہ حکومت نے لوگوں
کی حفاظت اور ٹریفک کو فعال بنانے کی خاطر ٹریفک وارڈن سکیم کا اجراء کیا
اس سے قبل پرانی ٹریفک ناکام اس لئے ہو چکی تھی کہ رشوت دل کھول کر لی جاتی
تھی۔ ٹریفک وارڈن کی سکیم بڑی مثبت سوچ کی آئینہ دار تھی، پڑھے لکھے
نوجوان، سمارٹ، الرٹ، عمدہ نفیس رنگت کی یونیفارم میں ملبوس ہر چوک، شاہراہ
پر اپنی ڈیوٹی پر کھڑے رہتے ٹریفک کو رواں دواں کرتے، کشادہ ظرفی اور حوصلے
کے ساتھ اچھی گفتگو کرتے، چاک وچوبند رہتے، رشوت کی منفی اثرات ختم ہو گئے
عوام میں بے یقینی غائب ہوگئی۔ وارڈن چالان اگر کرتے تو نہایت ادب سے سلیقہ
سے سلام کرتے اورجذبات کو کنٹرول کرتے ہوئے چالان کرتے ہیں،چند روز قبل
میرے ایک دوست احسن چوہدری جو ٹھوکر نیاز بیگ گوپے رائے میں رہائش پذیر ہیں
سمن آباد میں ان کے امتحانات ہو رہے تھے پرچہ دے کر اپنے ایک کلاس فیلو کے
ہمراہ واپس جا رہے تھے تو ملتان چونگی پر جولائی کے مہینے میں صحیح تپتے
سورج کی دھوپ کوروکنے کے لئے اپنے ہاتھ میں چھتری اٹھائے ایک ٹریفک وارڈن’’
عاصم‘‘ نے اسے روکا احسن چوہدری نے حکم کی تعمیل کی رک گئے،اس کے دوست نے
وارڈن کے ساتھ بدتمیزی کی جس پر وارڈن نے کہا کہ گاڑی کے اصل کاغذات لے کر
آؤ ،احسن اپنے دوست کے ساتھ چلا گیا ،شام کو احسن میرے دفتر آیا اور
صورتحال سے آگاہ کیا دفتر سے واپسی پر میں احسن کے ساتھ ہو لیا ملتان چونگی
پر ہی عاصم ہمیں دوران ڈیوٹی ملا اس نے احسن کو دیکھتے ہی کہا کہ اپنے
بدمعاش دوست کو ساتھ لے کر آؤتب مجھے وارڈن عاصم نے بتایا کہ اس کے دوست نے
میرے ساتھ حد درجہ بد تمیزی کی بلکہ جاتے ہوئے دھمکی بھی دے گیا میں نے
عاصم کی بات غور سے سنی اور اس سے درخواست کی کہ احسن ابھی طالب علم ہے
سیکھنے کے مراحل میں ہے اس کی تربیت کی ضرورت ہے آپ ا س کو کاغذات دے دیں
دوبارہ غلطی نہیں کرے گا تب عاصم بولا کہ ہم چوبیس گھنٹے ڈیوٹی کرتے ہیں
روزانہ ہمیں دفتر سے ڈیوٹی کے لئے نکلتے وقت ہمیں یہ احکامات سنائے جاتے
ہیں کہ عوام کے ساتھ خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آیا کرو،کسی کے ساتھ زیادتی
نہیں کرنی ،حسن سلوک کرنا ہے مگر ممتاز بتاؤ ہم کیا کریں جس کے ساتھ حسن
سلوک کریں وہی ہمارا گریبان پکڑ لیتا ہے ،ہم نے کبھی کسی کا فضول میں چالان
نہیں کیا،طلباء کو تو صرف ڈانٹ ڈپٹ ہی کرتے ہیں وہ بھی ان کی اصلاح کے لئے
تاکہ جب وہ معاشرے کے فرد بنیں انکے کندھوں پر ذمہ داریاں آئین تو وہ قانون
کی پاسداری کرنے والے بنیں،عاصم کہہ رہا تھا آج ہمارامعاشرہ بگڑ چکا ہے اور
اس بگاڑ میں ہم سب کا کردار ہے اس کے سلجھاؤ کے لئے کوئی کام نہیں کرتا
،رشوت ستانی،بلیک میلنگ عروج پر ہے،ہم سارے کام کرتے ہیں مگر جب کوئی ہماری
اصلاح کی کوشش کرتا ہے تو ہم اسکا گریبان پکڑ لیتے ہیں بتاؤ ہم کہاں
جائیں؟عاصم سوال کر کے خاموش ہو گیا اس کی باتوں میں ایک درد تھا جو وہ قوم
کے لئے رکھتا تھا وہ صبح سات بجے نیلی وردی پہن کر ملتان چونگی پہنچ جاتا
ہے تا کہ وہاں سے گزرنے والی ٹریفک کی بھیڑ میں قوم کی اصلاح کروں مگر وہی
قوم ،وہی لوگ جو غلطی بھی کرتے ہیں اور غلطی کے بعد شرمندگی کی بجائے گلے
بھی پڑ جاتے ہیں مگر شام سات بجے تک بارہ گھنٹے ہر حال میں گرم دھوپ،سخت
سردی،شدید بارش،ہر موسم میں ڈیوٹی کرنے والا عاصم دن بھر لوگوں کی باتیں
سننے ولا مایوس نہیں وہ قوم کو قائد اعظم کی طرح آئین کا پاسدار بنانا
چاہتا ہے وارڈن کی یہ داستان عزیمت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ احسن کام کریں
انصاف کریں جوٹریفک کے اصولوں کو توڑے اس کا سدباب ہونا چاہیے قوم کو بھی
چاہئے کہ جلدی جلدی نہ کریں بلکہ نیلی وردی والوں کی بھی بات سنا کریں وہ
انہی کی بھلائی کی ہی بات کرتے ہیں اگر وارڈن رشوت طلب نہیں کرتے ، انکے
ساتھ بد اخلاقی نہیں کرتے ،فضول چالان نہیں کرتے تو ان کے ساتھ بد تمیزی کی
بجائے اگر وہ ایک ہاتھ دیتے ہیں تو ہمیں دو ہاتھ دینے چاہئے انکی حوصلہ
افزائی کرنی چاہئے اگر ہم نے بحیثیت قوم ایسا نہ کیا تو پھر وہ بھی بالآخر
گلاب کے پھول کی طرح مرجھا جائیں گے۔ |