لفظ ریسرچ جس کا مطلب تحقیق کرنے کے ہیں انگریزی زبان کے
لفظ سرچ سے اخذ ہوا ہے یعنی پہلے سے تلاش شدہ کسی بھی قسم کی معلومات پر
مزید تحقیق کر کے اسے زیادہ سے زیادہ کار آمد بنانے اور دنیا میں انسان کو
درپیش بے شمار مسائل کا حل نکالنے کے ہیں۔آج کے جدید دور میں ریسرچ کی بہت
اہمیت ہے کیونکہ اس دور میں جدت اسی ریسرچ کے مرہون منت ہے جسے انسان نے
شروع سے ہی اسے اپنا شعار بنایا۔ترقی یافتہ ممالک کی کامیابی کا راز بھی
یہی ہے کہ وہاں بسنے والے پڑھنے لکھے لوگوں نے زندگی کے تمام شعبوں کے
متعلق ریسرچ اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک انقلاب برپاکر دیا۔غاروں کے دور
میں شائد انسان ارد گرد کے ماحول پر نظر دوڑا کر نہ سوچتا تو شائد آج ہم
بھی غاروں میں رہ رہے ہوتے،انسان کو اﷲ تعالی نے سوچنے اور سمجھنے جیسی اور
بھی کئی خوبیوں سے نوازا ہے جس کی بدولت آج کا انسان چاند پر اپنا قدم رکھ
چکا ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ انسان کا اپنے ارد گرد ماحول کا بخوبی جائزہ
لینااور اس کے متعلق مختلف پہلوں سے ریسرچ کرنا ہے جس کی بدولت آج کا انسان
نت نئی ٹیکنالوجی اور نا قابل علاج بیماریوں کا علاج دریافت کر چکا ہے۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ پاکستان میں ریسرچرز کی کوئی اتنی بڑی
تعداد موجود نہیں جو ہر وقت زندگی کے مختلف پہلیوں پر ریسرچ کر کے نت نئے
تجربات اور ایجادات کرے۔پاکستان میں سب سے زیادہ ریسرچرز نیوکلئر پروگرامز
پر کے کام پر ہی ہو رہے ہیں اس کے علاوہ ہر شعبے میں ریسرچ کرنے کی تعداد
آٹے میں نمک کے برابر ہے جبکہ 2006میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق امریکہ
میں ریسرچ کرنے والوں کی تعداد 1.39ملین اور چین میں 1.22 تھی اب اس میں
سالانہ 9.9فیصد کی شرح سے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ساؤ تھ کوریا میں
ریسرچرز کی تعداد میں سالانہ اضافے کی شرح 10.8جبکہ جابان میں 1.5فیصد
سالانہ کی بنیاد پر ہے۔
پاکستان میں چند نام مشہور ہیں جو ریسرچ کی دنیا میں انتھک محنت کر رہے ہیں
جن میں پروفیسر سائینسدان نوبل انعام یافتہ مرحوم ڈ اکٹر عبدسلام کے
علاوہ،پرویز ہود بھائی،ڈاکٹر ثمر مبارک مند،ریاض الدین ،شاہد حسین بخاری
اور دیگرز شامل ہیں جبکہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ریسرچ کے بل بوتے پر
پاکستان کو ایک خود مختار ایٹمی طاقت بنا کر پو ری دنیا میں تہلکیہ مچا
دیا۔ریسرچ کی دنیا میں ڈاکٹر عبدلقدیر خان اور ڈاکٹر عبد لسلام کی خدمات نا
قابل فراموش ہیں۔
پاکستان میں اس وقت ریسرچ ایک ایسی فیلڈ ہے جس مین کام کرنے والوں کی
انتہائی قلت ہے جس کے باعث مقابلہ بازی (Competition) نہ ہونے کے برابر
ہے۔پاکستانی یونیورسٹیوں میں ریسرچ کے باقاعدہ ایک مضمون کے طور پر پڑھایا
جاتا ہے تا کہ زیادہ سے زیادہ پڑھے لکھے نوجوان اس میدان میں آگے آئیں۔ مگر
حقیقت میں لوگوں کوریسرچ کے اس وسیع و عریض میدان کا علم ہی نہیں
ہے۔نوجوانوں کو چاہیے کہ ریسرچ کے مضامین میں تعلیم حاصل کریں تاکہ ایک
اچھے ریسرچر بن سکیں کیونکہ پاکستان میں اس فیلڈ کا سکوپ بڑی تیزی سے ترقی
کی جانب گامزن ہے اور نت نئی ایجادات اور تجربات کی کامیابی کے بعد ملکی
ترقی میں اضافے کا سبب ہو گا۔
|