عظیم لوگ

میں پچھلے ایک ہفتہ سے کافی پریشان ہوں جس کی وجہ میری ہمشیرہ کی بیماری ہے۔ ڈاکٹرز نے اسے آپریشن تجویز کیا ہے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اس میں ہیموگلوبن کی شدید کمی تھی جس کو پورا کئے بغیر اس کا آپریشن کرنا ممکن نہیں۔ میں نے اپنے دو دوستوں احسن گلزار اور عامر منیب خان سے درخواست کی اور انہوں نے ایک ایک بوتل خون دے دیا، اس کے بعد کچھ اور دوستوں سے رابطہ کیا تاکہ ہمشیرہ کی خون کی کمی کو پورا کرنے کے لئے مزید 2/3 بوتل خون کی ضرورت کو پورا کیا جاسکے لیکن ان میں سے تقریباً تمام دوست ہی کچھ روز پہلے خون عطیہ کرچکے تھے اور اتنے قلیل وقت میں دوبارہ خون کا عطیہ دینا ممکن نہ تھا، میرے ایک دوست حاجی محمد اشرف نے اس کا حل یوں نکالا کہ اس نے اپنی کمپنی کے کچھ دوستوں کو ایس ایم ایس کیا جس میں میرا رابطہ نمبر دیا گیا تھا، اس نے مجھے تسلی دی کہ انشاءاللہ جلد انتظام ہوجائے گا۔ اگر سچ بتلاﺅں تو پہلے میں اس کی بات کو طفل تسلی ہی سمجھا تھا کہ آجکل کے نفسا نفسی کے دور میں کسی کے پاس کہاں وقت ہے اور کون اتنا خدا ترس اور انسان دوست ہے جو دوسروں کے لئے اپنا وقت اور خون دے، لیکن اس وقت میری حیرانگی اور خوشی کی انتہاء نہ رہی جب مجھے حاجی محمد اشرف کی جانب سے ایس ایم ایس بھیجنے کے پہلے دو گھنٹوں میں ہی بے شمار فون کال موصول ہوگئیں اور اس کمپنی کے تمام ورکرز نے میرے ساتھ انتہائی خلوص کے ساتھ بات کی اور کہا کہ مجھے کب اور کہاں ملیں تاکہ خون عطیہ کر سکیں، آپ یقین کریں کہ ان میں خواتین بھی شامل تھیں، مرد حضرات نے صرف اتنا کہا کہ افطاری کے بعد کا وقت رکھ لیں لیکن خواتین نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر ابھی فوری ضرورت ہے تو وہ ابھی آکر Bleed کروا دیتی ہیں۔ میرے پاس شکریہ کے الفاظ کم پڑ گئے اور میں نے اللہ کا شکریہ ادا کیا کہ ابھی تک انسانیت موجود ہے اور انسانوں سے پیار کرنے والے اور ان کا دکھ بانٹنے والے لوگ موجود ہیں، تبھی تو اس کائنات کا نظام چل رہا ہے۔

گزشتہ روز افطاری کے بعد ایک نوجوان محمد امین سے وقت مقرر ہوگیا اور اس نے ایک گھنٹہ سے زیادہ انتظار بھی کیا تاکہ کراس میچنگ اور دیگر ٹیسٹ وغیرہ کی رپورٹ مل جائے تو وہ خون دے سکے، جب محمد امین خون کا عطیہ دے رہا تھا تو میں اس کا شکریہ ادا کررہا تھا جبکہ وہ اس کو اپنا فرض قرار دے رہا تھا، وہ مجھے بتا رہا تھا کہ ہر انسان کا دوسرے انسان پر حق ہوتا ہے اور اس کے نزدیک کسی کو خون کا عطیہ دینا ایک قسم کا صدقہ جاریہ ہے اور صحت مند انسان کا فرض بھی ہے کہ وہ ایسے انسان کو عطیہ دے جس کو اس کی ضرورت ہو! اسی طرح ایک اور احسن صاحب بھی ایک روز بعد خون کا عطیہ دے دیں گے۔ بلڈ بینک میں میری ایک اور صاحب سے ملاقات ہوئی جنہوں نے باقاعدہ ایک بلڈ ڈونر تنظیم بنا رکھی ہے، اس تنظیم کے پاس اپنے تمام ممبران کی فہرست موجود ہے جس میں ان کے بلڈ گروپ اور رابطہ نمبرز موجود ہیں اور ان کے محلے یا جاننے والے کسی کو بھی خون کی ضرورت ہو تو ان کو بس اس تنظیم کے ساتھ رابطہ کرنا پڑتا ہے اور ایک آٹو میٹک نظام کے تحت ان کو خون کا عطیہ مہیا کردیا جاتا ہے۔ ان صاحب نے مجھے بتایا کہ میڈیکل سائنس کے مطابق ایک صحت مند شخص اگر 2 ماہ بعد خون کی ایک بوتل عطیہ کردے تو اس کی صحت پر کسی قسم کے مضر اثرات نہیں پڑتے نیز خون دینے کے بعد کوشش کرنی چاہئے کہ خون دینے والا کوئی ٹھنڈا مشروب استعمال نہ کرے بلکہ ڈاکٹرز کے مطابق چائے یا کافی کا استعمال زیادہ مفید ثابت ہوتا ہے کیونکہ جسم سے گرم خون نکلتا ہے اور اگر گرم مشروب استعمال کیا جائے تو وہ بہتر ہوتا ہے۔

بزرگ کہا کرتے ہیں کہ دعا کرنی چاہئے کہ خدا کسی کو کچہری یا ہسپتال کا راستہ نہ دکھائے کیونکہ وہاں کی دیواریں بھی پیسے مانگتی ہیں۔ بزرگوں کی بات سے مجھے تو اختلاف نہیں کیونکہ حقیقتاً ایسا ہی ہوتا ہے، پہلے جب بلڈ بینک اور بلڈ ڈونرز کا کوئی خاص رواج نہیں ہوتا تھا اور لوگ خون کا عطیہ دینے سے گھبراتے بھی تھے تو خون قیمتاً خریدنا پڑتا تھا، مجھے یاد ہے کافی عرصہ پہلے میرے دادا جان کے آپریشن کے لئے خون درکار تھا اور ہمیں وہ میو ہسپتال کے سامنے سے ایک میڈیکل سٹور کے توسط سے خریدنا پڑا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اب پاکستان کی نوجوان نسل میں اتنا شعور بیدار ہوچکا ہوا ہے کہ وہ دکھی انسانیت کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہے۔ مخلف دفاتر میں لوگوں کے پاس بلڈ ڈونرز کی فہرست بھی میسر ہوتی ہے اور ڈونرز کے رابطہ نمبرز بھی تاکہ اگر کسی کو ہنگامی ضرورت پڑ جائے تو اس کی مدد کی جاسکے۔ میں خون کا عطیہ دینے والے دوستوں کا بہت ممنون ہوں لیکن زیادہ شکریہ کے مستحق وہ عظیم لوگ ہیں جن کے ساتھ میری کوئی جان پہچان نہیں تھی اور صرف ایک ایس ایم ایس ملنے پر انہوں نے مجھ ناچیز پر احسان کیا۔ یہی انسانیت کی عظمت ہے کہ انسان ایک دوسرے کے کام آئیں۔ اللہ تعالیٰ نے بھی انسانوں کو آپس میں باہم محبت اور ایک دوسرے کے کام آنے کی تلقین کی ہے اور مسلمانوں کے لئے تو حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ذات میں کامل نمونہ موجود ہے۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ آپس میں تحفہ دیا کرو اس طرح پیار بڑھتا ہے، اپنے دشمن کی بھی تیمارداری کر کے آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے انسانیت کی بلندی کی مثال قائم کردی۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج کے دور میں اس سے بڑھ کر اور کوئی تحفہ نہیں ہوسکتا کہ اگر ایک انسان مجبوراور ضرورت مند ہو اور کوئی اسے خون کا تحفہ دیدے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادات بے شک ہم پر فرض ہیں لیکن صرف ان عبادات کی وجہ سے بخشش شاید نہ ہوسکے جب تک کہ ہم آپس میں اس طرح پیار، محبت اور خلوص پر مبنی بھائی چارہ قائم نہیں کرلیتے جس کا تقاضہ ہم سے ہمارا مذہب بھی کرتا ہے اور انسانیت بھی۔ اسی لئے فرمایا کہ مسلمان آپس میں ایک جسم کی مانند ہیں اگر جسم کے کسی بھی حصہ میں درد ہو تو پورا جسم بے چین ہوجاتا ہے۔ علامہ اقبال نے بھی اسی جانب توجہ دلائی کہ
اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستان کا ہر پیرو جواں بے تاب ہوجائے

اسی طرح ایک اور شعر میں شاعر نے کس خوبصورتی سے ایک دوسرے کی ہمدردی اور غمگساری کا درس دیا ہے
دردل دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ اطاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

آج جس طرح کے حالات سے ہماری قوم گزر رہی ہے اس کا بھی تقاضہ ہے کہ ہم آپس میں باہم شیر و شکر ہو کر رہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح تعاون کی فضاء بن جائے کہیں اگر کوئی اختلاف ہو بھی تو اس پر محبت اور خلوص غالب آجائے۔ ہم جو فرقوں، ذاتوں اور گروہوں میں بٹی ہوئی قوم بن چکے ہیں اور آپس میں باہم پیکار ہیں، ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ محبت، خلوص اور اپنائیت کے اظہار کی ضرورت ہے، ہمیں انسانیت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، ہمیں انسانوں سے پیار کرنا چاہئے اور یہ سمجھ لینا چاہئے کہ چیزیں استعمال کے لئے ہوتی ہیں نہ کہ انسان! میں دوبارہ ان عظیم انسانوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ ان کو جزاء عطا فرمائے کیونکہ اس نیکی کی جزاء صرف اللہ کی ذات کے پاس ہی ہے۔ میں تمام قارئین سے اپنی ہمشیرہ اور تمام دکھی انسانوں کے لئے دعا کی درخواست بھی کرتا ہوں کہ اگر خلوص نیت کے ساتھ کسی دوسرے انسان کے لئے دعا کی جائے تو اللہ تعالیٰ کی ذات ضرور شرف قبولیت سے نوازتی ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام بیماروں کو صحت کاملہ عطا فرمائے.... آمین
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 207397 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.