’’ڈاکٹر صاحب خدا کا واسطہ ہے
مجھے زہر کا ٹیکہ لگائیں میں اور درد برداشت نہیں کر سکتی‘‘
ڈاکٹر اپنے سٹاف کے ساتھ جیسے ہی وارڈ میں داخل ہوا یہ درد بھری آواز سن کر
فورا ًاس 14سالہ کرن کی طرف آیا جو تیزاب گردی کا نشانہ بن کر اتنی شدید جل
چکی تھی کہ دیکھنے والے کی ہمت بھی جواب دے جاتی ۔کئی گھنٹوں سے یہ کرن
اتنے شدید درد سے کراہ رہی تھی کہ اس سے اب مزید درد برداشت کرنا مشکل ہوتا
جارہا تھااسی درد کے ہاتھوں ہمت ہار کر آخر کار اس نے موت کو گلے لگانے کا
فیصلہ کر ہی لیاتھا۔
ڈاکٹر صاحب کیا کر سکتے تھے صرف کوشش اورسخت محنت ،لگن اور ہمت۔ ڈاکٹر
سانحات کو تو نہیں روک سکتے، ڈاکٹر لوگوں کی بے حسی کو ختم نہیں کر سکتے ،ڈاکٹر
تو شفاء تک نہیں دے سکتے بس ایک دلاسہ ، ایک امید کی کرن ، ایک مسکراہٹ اور
کوشش ہی تو ڈاکٹر کے پاس ہوتی ہے ۔
بس14سالہ کرن کی یہ درد بھری آواز اور موت کے لیے فریاد سن کر یہ ڈاکٹر بھی
لاچار نظر آرہا تھا مگر اسے اپنے منصب کا خیال آیا کہ اس کا کام تو ہمت
بندھانا ہے،لگن اور محنت سے مریضوں کے لیے شفاء کا سامان بنانا ہے اس کا
کام تو ہر حال میں کوشش کرنا ہے بس یہی خیال آتے ہی اُس نے 14سالہ کرن کو
دلاسہ دیا اور ایک مسکراہٹ سے ایسا ظاہر کیا کہ جیسے واقعی ہی کرن صحت یاب
ہو جائے گی ۔ڈاکٹر بھی شاید کرن کا دکھ برداشت نہ کرسکا اور اس کی غم زدہ
والدہ کی طرف دیکھاکہ جس کا چہرہ آنسوؤں سے گیلا ہو چکا تھا۔جیسے ہی کرن کی
والدہ نے گیلے چہرے اور سوالیہ نگاہوں سے ڈاکٹر کی طرف دیکھا تو ڈاکٹر اس
کی والدہ کے دکھ کو برداشت نہ کر سکااور وہ جھوٹا دلاسہ جو کرن کو دیا اس
کی والدہ کو نہ دے سکا اوراپنی نگاہوں کا رخ کرن کے بوڑھے والدکی طرف کر
دیا جوبے سدھ سوالیہ نگاہوں سے ڈاکٹر کی طرف دیکھ رہا تھا۔
یقیناکرن کے بزرگ والد کی نگاہوں میں سوال یہی ہوگاکہ کیا بیٹیاں اسی لیے
پیدا کی جاتی ہیں کہ وہ ظلم کا شکار ہوں؟دشمنیوں کا بدلہ لینے کے لیے یا
انسان نما شیطانوں کی شیطانی ہوس پوری کرنے کے لیے؟کرن کے باپ کے ذہن میں
وہ منظر گردش کر رہا ہو گا کہ جب رحمت عالم حضرت محمدﷺ کے پاس حضرت فاطمہؓ
آتی تھی توآپﷺ کے چہرہ مبارک سے خوشی امڈامڈ کر پوری کائنات میں بکھرتی تھی
اور کھڑے ہو کر اپنی بیٹی کا استقبال کرتے ،اپنے ہاتھوں سے اپنی بیٹی کے
لیے چادر بچھا کر اس پر بٹھاتے تھے۔کرن کے والد کو وہ ناگواری بھی یاد آئی
ہو گی جو آپ ﷺ کے چہرے مبارک پر تب آئی جب ایک والد نے اپنی بیٹی کو زمانہ
جاہلیت میں زندہ دفن کرنے کا واقعہ آپ ﷺ کو سنایا۔یہ سب سوچنے کے بعد کرن
کا باپ یہ سوچتا ہوگا کہ یہ وہی امت ہے کہ جس کو رحمت عالم ﷺ جاہلیت کے
اندھیروں سے نکال کر لائے ،جس کے لیے راتوں کو جاگ جاگ کر رو رو کر دعائیں
مانگیں۔
کرن ، کرن کی والدہ اور والدکی سوالیہ نگاہوں کا جواب ڈاکٹر کے پاس کیا
ہوتاوہ تو خود ان سوالوں کے جواب کا متلاشی کئی عرصے سے ہے ۔ڈاکٹر انھی
خیالات میں گم تھاکہ کرن نے ایک بار پھر ڈاکٹر سے موت مانگی ،زہر کا ٹیکہ
لگانے کی التجا کی لیکن ۔۔۔۔لیکن ڈاکٹر کیوں زہر کا ٹیکہ لگاتا کہ اُس کا
منصب، اُس کا پیشہ ،اس کا شعبہ ہر گز یہ اجازت نہیں دیتاکہ وہ ایک جیتے
جاگتے انسان کو لاچاری سے موت کا ٹیکہ لگائے۔ڈاکٹر حیران ضرور تھا کہ اُس
سے تو لوگ زندگی کی فریاد کرتے ہیں مگر یہ14سالہ کرن موت کی فریا کر رہی
ہے۔اس کرن کو نہ اپنی والدہ کے آنسوؤں کا پاس اور نہ اپنے والدہ کی سوالیہ
نگاہوں کا خیال وہ تو بس موت کی طلب گار ہے جو ڈاکٹر کے بس کی بات نہیں۔
ڈاکٹراس لڑکی کو موت نہیں دینا چاہتا تھا مگروہ لڑکی پھر بھی موت کی طلب
گار تھی کیوں کہ کرن جانتی تھی کہ ڈاکٹر نے اُس کے درد کو کم کر بھی دیا تو
یہ معاشرہ اُسے کبھی قبول نہیں کرے گا وہ معاشرے میں ان فٹ چیز بن جائے گی
کیوں کہ اس کا منہ اور سر تیزاب سے مکمل طور پر جھلس چکا تھا ۔کیا کوئی
بچہ،کوئی مرد،کوئی عورت،کوئی جوان، کوئی بزرگ اس کو نارمل سمجھتا؟ کبھی
نہیں۔ڈاکٹر تو اُس لڑکی کی خواہش پوری نہ کر سکا مگر وہ لڑکی زندگی ہار ہی
گئی اور اس دنیا سے منہ پھیر کر اپنے خالق حقیقی سے جاملی۔ جتنی تکلیف اس
14سالہ کرن کو دی گئی اور جتنی اس نے برداشت کیا اس کا برابر نہیں ۔تکلیف
دینے والے بھی انسان ،تکلیف کا اندازہ لگانے والے بھی انسان اور ستم ظریفی
یہ کہ جس کو تکلیف دی گئی وہ بھی جیتا جاگتا انسان۔
اس کے بعد پھر وہی ہوا سیاسی نعرے،میڈیا کے ذریعوں کے سامنے دلاسے، لوگوں
کی وہی خواہشات کہ ظالموں کوعبرت کا نشانہ بنایا جائے،سر عام پھانسی دی
جائے مگر۔۔۔مگر کچھ دن بعد وہی خاموشی اور وہی سکون کہ جس میں پوشیدہ ایک
ہی وجہ کہ ہم بچ گئے۔
مذکورہ بالا سطور ابھی کاغذ کی زینت بن ہی رہی تھی کہ 18سالہ حافظہ قرآن کی
خود سوزی اور اگلے دن موت کی خبر پڑھی جو انسانی درندوں کے ظلم کا نشانہ
بننے کے بعد یہ انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوئی۔وہ آنسو جو کرن کے دکھ کو
محسوس کرتے کرتے ہزار بار تھمے اس حافظہ قرآن کی کہانی پڑھ کر نہ تھم سکے۔
کتنی بیٹیاں ان ہوس پرستوں کے ہاتھوں تباہ وبرباد اور ذلیل و خوار ہو چکی
ہیں ان میں بے شمار زندگی سے منہ موڑ چکی ہیں کئی سانسوں کی مالا توڑ کر
اور کچھ سانسوں کی مالا جوڑ کر ۔کیا یہی عورت ذات کی عزت ہے؟ کیا یہی مقدر
ہے اور کیا یہی مستقبل؟آخر کب تک مسیحاؤں سے موت مانگی جائے گی؟ آخر کب تک
خود کشیاں ہوں گی؟آخر کب تک لاشیں نالوں،جنگلوں اور گھروں میں مسخ شدہ ملے
گیں؟ ہم کب سدھریں گے؟ہم کب سمجھیں گے؟ہم کب زمانہ جاہلیت سے نکلیں گے؟
عبرت کا نشانہ ضرور بنایا جائے ،پھانسیاں ضرور دی جائیں، سخت سے سخت قوانین
ضرور بنائے جائیں مگر اُس راستے پر بھی چلا جائے کہ جس راستے پر چلنے کا
حکم14سو سال پہلے دیا گیاتھا۔ جو پوری انسانیت اور خاص کر امت مسلمہ کے لیے
ہے یعنی ہمارا اپنا راستہ،وہ راستہ کہ جس پر ہم نے چل کر دوسروں کے لیے
مشعل راہ بننا ہے نہ کہ وہ رستہ جو ہمارا کسی صورت نہیں جس کا نتیجہ ذلت و
رسوائی کے سوا کچھ نہیں ۔اُس جڑ کو اکھاڑ نا ہو گا جواب گھر گھر سرایت کر
چکی ہے جس سے وہ پودے اُگ رہے ہیں جن سے ہوس پر ست پھول اورپھل پیدا ہورہے
ہیں۔ |