خلیل جبران لکھتا ہے ’’قابل رحم
ہے وہ قوم جو جنازوں کے ہجوم کے سواکہیں اور اپنی آواز بلند نہیں کرتی اور
ماضی کی یادوں کے سوا اس کے پاس فخر کرنے کا کوئی ساماں نہیں ہوتا‘‘۔
پاکستانی بحیثیت قوم لوگوں کا ایک ایسا ہجوم بن چکا ہے جس میں ہر فرد ایک
دوسرے سے بلاوجہ اختلاف رائے رکھتا ہے اور اس قوم کے نام نہاد مُلاکفر کے
فتوے بانٹتے پھر رہے ہیں،لوگوں کے اس ہجوم کو ایک قوم کہنا سمجھ سے بالاتر
ہے کیونکہ یہاں اجتماعیت کی بجائے انفرادیت کو فروغ حاصل ہے،ہر کوئی ذاتی
مفاد کے لئے قومیت کے نام پر اپنے خزانے کو بھرنے کی تگ و دو میں مصروف ہے
،لوگوں کے اس ہجوم میں نفرتیں بڑھتی چلی جارہی ہیں اور حضرت انسان یہاں موت
کے ہرکارے کے روپ میں موت تقسیم کرتا پھر رہا ہے۔
لوگوں کے اس ہجوم میں کچھ لوگ نظریات اور اپنی ثقافت کو بچانے کے لئے کوشاں
ہیں جس میں وہ یہ مثالیں بڑی ذوق و شوق سے دیتے ہیں کہ جب ہم ایک تھے،جب
نفرت کی دیواریں نہیں تھے اور متحد تھے تو اس وقت ہم دنیا پر راج کیا کرتے
تھے،پوری دنیا میں ہم مسلمانوں کارعب و دبدبہ تھا وہ جب یہ واقعات بیان
کرتے ہیں تو جہاں ہمیں اپنے ماضی پر رشک آتا ہے وہیں یہ بات ذہن میں آتی ہے
کہ اس وقت ہماری کامیابی کا راز کیا تھا؟؟؟
ہم اس وقت ایک قوم تھے ،تفرقوں میں بٹے ہوئے نہیں تھے ،ایک دوسرے کا احترام
کرنا جانتے تھے ،اس وقت اسلام ہمارا اوڑھنا بچھونا تھا ،ہماری ایک تہذیب و
کلچر تھا ،ہماری آنکھوں میں حیااور خواتین کا احترام تھا، ہمارے تابناک
ماضی اور موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے شاعرمشرق نے کہا ہے
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
پھر کیا ہوا؟ہم نے اسلام کو چھوڑ دیا،احکامات الہی سے منہ موڑ لیا اور
فرمان نبویﷺ کو بھلا دیا،جس کی وجہ سے اغیار نے سازشی جال بنے اور ہم آسان
شکار کی طرح اس میں پھنستے چلے گئے،محبت کی جگہ نفرت نے لے لی ،احترام کی
جگہ انتقام کی پرورش ہونے لگی،خود احتسابی کی بجائے دوسروں پر ملبہ گرانا
اور الزام دینا ہمارا شیوہ بن گیا ،ہم ذلت و رسوائی میں ڈوبتے چلے گئے ،زوال
کی طرف ہمارا سفر تیزی سے جاری رہا ،ہم نہیں سمجھے اور بتدریج تنزلی کی
منزلیں طے کرتے چلے گئے اور خوار ہونا ہمارا مقدر بن گیا ہے۔
اب تو ہمارا یہ حال بن چکا ہے کہ سفارش اور رشوت ہمارا کلچر ہے،ملاوٹ کرنا
ہمارا شیوہ بن چکا ہے ،جھوٹ بولنا ہم کامیاب کاروبار کی ضرورت سمجھتے ہیں
اور اس معاشرے میں خواتین کا مقام بس یہ ہے کہ انہیں بازاروں اور اشتہاروں
کی زینت بنا دیا جائے،اگر اس قوم سے تہذیب کی بابت سوال کیا جائے تو بڑے
شوق سے ماضی کے قصے سناتے ہیں ۔بھلا ان سے پوچھے وہ تو آپ کے اسلاف تھے
جنہوں نے کارنامے انجام دیئے تھے ،آپ لوگوں نے کیاکِیاہے؟؟؟خون بہائے ہیں ،مظلوم
پہ ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں ،اسلامی شعار کا مذاق اڑایا ہے،تہذیب و کلچر کے
نام پر فحاشی و عریانی کو فروغ دیا ہے اور طبقاتی تفریق کا کلچر متعارف
کروایا ہے؟؟۔
یہاں پر مجھے اس غلام قوم کے بارے میں مولانا عبیداﷲ سندھی کے الفاظ یاد
آرہے ہیں کہ’’غلام قوم کے معیار بھی عجیب ہوتے ہیں،شریف کو بے وقوف،مکار کو
چالاک،قاتل کو بہادر اور مالدار کو بڑا آدمی سمجھتے ہیں‘‘۔اگر دیکھا جائے
کہ ہم مسلمان خوار کیوں ہورہے ہیں؟ذلت و رسوائی ہمارا مقدر کیوں بن چکی
ہے؟اور ہم روز بروز پستی کی طرف کیوں گامزن ہو رہے ہیں ؟؟؟تو اس کا جواب
بھی موجود ہے جو ہمیں پیارے آقا حضرت محمدﷺ آج سے صدیوں پہلے دے گئے تھے جس
کا مفہوم ہے کہ ’’اگر تم جہاد کو ترک کردو گے تو ذلت تمہارا مقدر ہوگی‘‘۔
آج ہم حالات کو دیکھیں تو ہم پر واضح ہوگا کہ ہم نے کوشش کرنا ترک کر دی
ہے،جدوجہد کی بجائے اغیار کی امداد پر بھروسہ کرنا شروع کر دیا ہے،اسی لئے
آج ہماری گردنیں آئی۔ایم۔ایف کے بے رحم شکنجے میں جکڑی جاچکی ہیں ،اور ہم
آج بھی سب کچھ جانتے ہوئے بھی حقائق سے آنکھیں چرا رہے ہیں اگر ذلت و
رسوائی کے طوق کو اتار پھینکنا چاہتے ہیں تو ہمیں اغیار پہ بھروسہ کرنے کی
بجائے اپنے زور و بازو اور اپنے وسائل کو بروئے کار لاکر ہم سر اٹھا کر اور
دنیا سے نظریں ملا کر جی سکتے ہیں ورنہ ہم اسی طرح ظلم کی چکی میں پستے
رہیں گے ،اپنی تہذیب و کلچر تو ہم بھلا چکے ہی ہیں اگر یہی حال رہا تو کوئی
بعید نہیں
تمہاری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں |