محمد جواد کو بھی ان ہزاروں
افراد کی طرح پانچ سال بعد گوانتا نامو بے جیل سے رہا کردیا گیا جن پر
امریکیوں نے جھوٹے الزام لگائے تھے۔ جواد پر دو امریکی فوجیوں پر حملہ کر
کے زخمی کرنے کا الزام عائد تھا۔ اس وقت جواد کی عمر ۲۱ سال تھی۔ انسانی
حقوق کی تنظیموں اور اداروں کے لئے یہ ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ محمد جواد کا قصور
صرف یہ ہے کہ وہ مسلمان تھا۔ اسے گوانتانا موبے کی خوفناک جیل میں کیا کیا
اذیتیں دی گئی ہوں گی۔ اس کا بچپن اس سے چھین لیا گیا۔ عالمی عدالت انصاف
کب تک سوتی رہے گی۔امریکیوں کے بھیانک جرائم پر کب تک پردہ پڑا رہے گا۔ سی
آئی اے کی جانب سے دورانِ تفتیش مشتبہ دہشتگردوں پر جو تشدد کیا جاتا رہا
اس کی تفصیلات آہستہ آہستہ منظر عام پر آ رہی ہیں۔
بدنام زمانہ گوانتاناموبے میں قیدیوں کو خوفزدہ کرنے کیلئے ان کے سیل سے
ملحقہ کمروں میں دیگر قیدیوں کے قتل کا ڈرامہ رچا کر تفتیش کیے جانے اور
شدید نفسیاتی دباﺅ ڈالے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق
عنقریب جاری کی جانے والی سی آئی اے کی رپورٹ میں گوانتاناموبے جیل کے
قیدیوں سے وحشیانہ اور غیر انسانی سلوک کیے جانے کا واضح تذکرہ موجود ہے۔
رپورٹ کے مطابق قیدیوں میں جان سے مارے جانے کا خوف پیدا کرنے کیلئے ان کے
سیل سے ملحقہ کمروں میں باقاعدہ فائرنگ اور ہنگامہ آرائی کر کے قیدی کو عدم
تعاون پر قتل کرنے کا بھرپور ڈرامہ رچایا جاتا تھا۔ قیدیوں کو نشانے پر لے
کر فائر کرنے کا ڈرامہ کیا جاتا اور ڈرل مشین کو جسم کے حساس اعضاء کے قریب
چلا کر انہیں دہشت زدہ کیا جاتا رہا۔ میڈیا کے مطابق یہ رپورٹ سی آئی اے کے
ایک انسپکٹر جنرل نے 2004 میں تیار کی تھی جو اب جلد منظر عام پر لائی جانے
والی ہے.
سی آئی اے کی ان دستاویزات سے پتہ چلا ہے کہ دوران تفتیش نائن الیون کے
مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد کو بچوں کے قتل تک کی دھمکی دی گئی تھی۔
تاکہ اس سے اعتراف کرایا جاسکے۔ حال ہی میں محکمہ انصاف کی اخلاقیات کی
کمیٹی نے اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر سے سفارش کی تھی کہ درجن بھر ملزمان سے کی
جانے والی تفتیش کے دوران تشدد کے واقعات کی ازسرنو تحقیق کرائی جائے۔ ان
واقعات کی ازسر نو تحقیقات کی صورت میں سی آئی اے کے اہلکاروں کے خلاف
قانونی کارروائی کے راستے کھل جانے کے امکانات ہیں۔ اس سلسلے میں ایک خصوصی
وکیل کی نامزدگی بھی عمل میں آئی ہے۔ یہ نامزدگی ایسے وقت کی گئی ہے جب سی
آئی اے کے متنازع تفتیشی طریقوں پر چند برس قبل جاری کی جانی والی رپورٹ کے
وہ سنسر شدہ حصے ظاہر کیے جا رہے ہیں جن کے مطابق درجنوں مواقع پر سی آئی
اے اہلکاروں نے مشتبہ شدت پسندوں کو ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا۔
پچھلے دنوں ایک عدالت نے حکم دیا تھا کہ سی آئی اے کے تشدد پر رپورٹ کے ان
خفیہ حصوں کو منظر عام پر لایا جائے جنہیں بش انتظامیہ نے کلاسیفائیڈ کر
دیا تھا۔ ان جرائم کی شدت کو دیکھتے ہوئے صدر باراک اوباما نے دہشت گردی کے
اہم ملزمان سے تفتیش کرنے کے لیے ایک نیا یونٹ تشکیل دینے کی منظوری دی ہے
جس میں سکیورٹی کے مختلف اداروں کے انتہائی پیشہ ور تفتیش کار شامل ہوں گے
اور تشدد جیسے غیر قانونی طریقوں پر پابندی ہوگی۔
امریکی صدر باراک اوباما انتظامیہ نے سی آئی اے کے حراستی مراکز میں قیدیوں
پر دوران تفتیش غیر قانونی تشدد کے نئے انکشافات کے بعد اس معاملہ کی
تحقیقات کرنے پر غور شروع کردیا۔ امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی
اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر قیدیوں سے تفتیش کے سی آئی اے کے طریقہ کار کی
تحقیقات کیلئے خصوصی پراسیکیوٹر مقرر کرنے پر غور کررہے ہیں۔ حکام کے مطابق
قیدیوں سے تفتیش کے دوران انہیں جان سے مار دینے کی دھمکیوں جیسے غیر
قانونی طریقوں کے استعمال پر سی آئی اے کے کل6 اہلکاروں کے کیس محکمہ انصاف
کو بجھوائے گئے جن میں سے صرف ایک کو سزا ہوئی بلکہ باقی کے بارے میں سی
آئی اے کے تحقیقاتی بورڈ کے ذریعہ پوچھ گچھ کی ہدایت کی گئی۔ تاہم ان میں
سے دو نے سی آئی اے بورڈ کے سامنے پیش ہونے کی بجائے ملازمت سے استعفٰی دے
دیا۔ سی آئی اے کے حوالہ سے امریکی اٹارنی جنرل کی رپورٹ پر سی آئی اے کو
انسانی حقوق کے اداروں کی طرف سے سخت تنقید کا سامنا ہے۔ خود سی آئی اے
حکام پریشان ہیں کہ وہ اپنے ان غیر قانونی اقدامات کا دفاع کس طرح کریں۔
امریکی صدر باراک اوباما نے خطرناک قرار دئیے گئے دہشت گردوں سے تفتیش
کیلئے اعلیٰ اختیاراتی گروپ تشکیل دینے کی بھی منظوری دیدی ہے۔ امریکی
عہدیدار کے حوالے سے رپورٹ میں کہا ہے کہ صدر باراک اوباما کا یہ اقدام
حراست اور تفتیش میں تبدیلی کے طریقوں سے متعلق پالیسی کا حصہ ہے۔ اعلیٰ
اختیاراتی گروپ کا نام ہائی ویلیو ڈیٹینی انٹروگیشن گروپ رکھا گیا ہے۔ یہ
گروپ انٹیلی جنس ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ماہرین پر
مشتمل ہوگا۔ اخبار کے مطابق اس اقدام کا مقصد قیدیوں کی حراست اور ان سے
تفتیش کے اختیارات کو سی آئی اے کے بجائے وائٹ ہاوس کے کنٹرول میں لانا ہے۔
نئی پابندیوں کے پیش نظر سی آئی اے نے بھی اپنی حکمت عملی میں تبدیل کرلی
ہے ۔ سی آئی اے کے ڈائریکٹر لیون پینیٹا نے اپنے ساتھیوں کو ایک ای میل
بھیجی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ وہ اپنے ان ساتھیوں کا تحفظ کریں گے
جنہوں نے اپنے ملک کے لئے خدمات انجام دی ہیں۔ اور انہیں قانونی امداد دی
جائے گی۔ سی آئی اے کے اہلکاروں کو ممکنہ جرائم کے مقدمات کا سامنا کرنے کی
صورتحال پیش آسکتی ہے۔ جرمنی کے ایک ہفت روزہ نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ
امریکی سی آئی اے نے گوانتا نامو بے کے قیدی منتقل کرنے کے لئے بلیک واٹر
کی خدمات حاصل کر لی ہیں۔ جرمن ہفت روزے کے مطابق سی آئی اے نے گوانتا نامو
بے کے قیدیوں کو اشیاء منتقل کرنے کے لئے بدنام زمانہ بلیک واٹر کی خدمات
حاصل کرلی ہیں۔ ہفت روزے نے بلیک واٹر کے دو سابق اہلکاروں کے حوالے سے
بتایا ہے کہ بلیک واٹر قیدیوں کو مختلف ممالک منتقل کرے گی جہاں قیدیوں پر
تشدد میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔ ان ممالک میں ممکنہ طور پار پاکستان،
افغانستان یا ازبکستان ہوسکتے ہیں۔ جہاں کے عقوبت خانوں میں قیدی لائے
جائیں گے اور ان سے مزید پوچھ گچھ کی جائے گی۔
پاکستان کو یقیناً امریکی سی آئی اے کے جرائم میں حصہ دار نہیں بننا چاہئے،
یوں بھی ابھی ان چار ہزار گمشدہ افراد کے تلاش جاری ہے۔ جو دہشت گردی کے
شبے میں غائب کردیے گئے ہیں۔ عالمی انسانی حقوق کے اداروں کے بھی ذمہ داری
ہے کہ وہ ان مظالم پر آواز اٹھائیں۔ |