ہمارے مسا ئل اور اُن کا حل

ابن آدم کے جسدِ خاکی میں جب روح پھونکی جا تی ہے تو اُس کے سا تھ ہی مسا ئل کا لا تعداد سلسلہ درپیش ہو تا ہے ،دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تمام مسا ئل کا مرکز ایک ہی ہے اور وہ ہے زندگی کی بقاء انسان کی یہ ازلی خصلت ہے کہ وہ اپنے طرزِ زندگی سے مطمن نہیں ہو تا وہ ایک طرف تو زندگی کو دوام د ینا چا ہتا ہے تو دوسری طرف زیادہ سے زیادہ پُر تعیش رکھنا چا ہتا ہے۔ بس یہ ہی سا ر ے مسا ئل کی و جہ اور اس پہ ہی سا ر ے وسا ئل برو ئے کار لا ئے جا تے ہیں۔مسا ئل کو حل کر نے کے لہٰذ سے لوگوں کی چار ا قسام ہیں۔

پہلی قسم کے لوگ وہ ہیں جو ا پنے تمام مسا ئل کو ایک گھٹڑی میں باندھتے ہیں اور دوسروں کے سر پہ ر کھ کے بے فکر ہو جا تے ہیں۔یہ کبھی مسائل کو حل کر نے کی جسارت نہیں کر تے ۔یہ صرف اُس سہولت سے فیض یاب ہو نا جانتے ہیں جو اُن کو پلیٹ میں پڑی ہو ئی ملے۔اگر د نیا میں صرف اس ایک ہی قسم کے لوگ ہو تے تو ابنِ آدم کے ہمسا ئے آج بھی بندر ہوتے۔یہ گاڑی ،پیپر،قلم،کپڑے،جوتے،گھر،واش روم، تفریح،دعوت ، یہ تمام چیزیں دوسروں کی استعمال کر تے ہیں۔یہ تمام چیزیں مجبورً نہیں عادتاً استعمال کر تے ہیں۔وہ اس بات کی کبھی پرواہ نہیں کر تے کہ جن کاکھانا وہ کھا گئے ہیں دوسروں کو اُس کی کتنی ضرورت ہو گی۔ وہ اس بات کی بھی قطعی پرواہ نہیں کر تے کہ اُن کے اس اقدام سے دوسروں کو کتنی تکلیف اٹھانا پڑتی ہے۔وہ دوسروں کے احساسات کو محسوس کر نا بھی بو جھ سمجھتے ہیں۔ یہ ہی وہ لوگ ہیں جب دوسروں سے ان کی ضروریات پوری نہ ہوں تو پھر جرائم کی راہ اختیار کر تے ہیں اور گری سے گری حرکت بھی کر نے سے گریز نہیں کر تے ۔

دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو مسا ئل کو حل کر نے کی بجا ئے اُن کا ڈھیر لگا تے جاتے ہیں،جب یہ مسائل انبار کی شکل اختیار کر تے ہیں تو کفِ افسوس ملنے لگتے ہیں۔یہ دوسروں کو ا پنی مو جودہ حالت کا ذمہ دار ٹھرا تے ہیں،کبھی ا پنے اجداد کو کوستے ہیں تو کبھی معا شرے یاحاکم ِ و قت کو بد دعا ئیں د یتے ہیں۔یا پھر (اﷲ)حاکمِ اعلیٰ سے شکوہ شکا ئت کر تے ہیں۔یہ لوگ جب ہر طرف سے زچ ہو جا تے ہیں تو یا تو یہ لوگ خود کُشی کر تے ہیں یا پھر ایسے لوگوں کے آلہ کار بن جا تے ہیں جو ان سے ان کی زندگیاں چند دنوں کی خوشی کے عوض خر ید لیتے ہیں

تیسری قسم کے وہ لوگ ہیں ۔جو ا پنے مسا ئل کو حل کر نے کے لیے دوسروں کو استعمال کر جا تے ہیں ۔ان کا مقصد زیادہ سے زیادہ مہذب اور غیر مہذب طر یقے سے وسا ئل سے فیض یاب ہو نا ہو تا ہے لہٰذا یہ لوگ گروہ ،جما عت،گینگ،سو سا ئٹیاں،NGO'sبنا تے ہیں۔

یہ لوگ صدقہ ،خیرت،زکوٰۃ،فطرانہ یہاں تک کہ انسان تک کو کھا جا تے ہیں۔

چو تھی اور آخر ی قسم اُن لوگوں کی ہے جو ان تینوں قسم کے لوگوں کے اعمال کو فیس کر تے ہیں۔یہ لوگ دن رات نوع بشر کے را ستے کے کا نٹوں کو چنُتے ر ہتے ہیں،یہ لوگ عمر بھر کی مشقت سے چور چور ہو جا تے ہیں ان کے دامن تار تار ہو تے ہیں اور ہا تھ لہو لہو ۔یہ مسا ئل کے اژد ھا کے سا منے ڈٹ جا تے ہیں۔یہ لوگ د ریا ؤں کا رخ اور پہاڑوں کی ہیت بدل د یتے ہیں۔یہ اندھوں کو آنکھیں اور معذوروں کو سہارے د یتے ہیں۔یہ بھو کوں کو نو الہ اور بے آسروں کا آسرا ہو تے ہیں۔یہ لوگ خوف میں ہمت اور دکھ میں ڈھا رس ہو تے ہیں۔یہ دوسروں کے عیب نہیں ٹٹو لتے ۔یہ لوگ بدنا میاں نہیں بانٹتے ۔بشر ہو نے کے نا طے چند غلطیاں ان سے بھی ہو سکتی ہیں مگر ان کی غلطیاں ا تنی گھمبگیر نہیں ہو تیں کہ با عثِ سوزِ انسا نیت ہوں۔یہ غلطیاں ان کی نیک سیرت و خصلت میں معدوم ہو جا تی ہیں۔ ان کی زند گیاں لیبارٹریوں،ریسرچ سینٹروں،تعلیمی اداروں،صحافت کے ایوانوں،سیاست کے میدانوں ،سرحدوں،کارخانوں،ہسپتالوں غرض کہ ہر وہ جگہ جہاں زندگی سانس لے ر ہی ہے ان ہی کے دم خم سے ہے۔یہ بات درست ہے کہ ان کی تعداد قلیل ہے ۔اسی وجہ سے حضرت ِ انسان پر یشاں ہے۔اب سوال یہ ہے کہ ان کی تعداد میں کیسے اضا فہ کیا جا ئے ؟ اس کا صرف واحد ایک ہی حل ہے اور وہ ہے تعلیم ۔ہمیں نئی نسل کو لفظ نہیں یاد کر وا نے نہ ہی ہمیں سا لوں کی گنتی پو ر ی کر نا ہے۔ہمیں ا پنا تعلیمی نظام اس طرح تر تیب د ینا ہے کہ تعلیم حا صل کر نے کے بعد فرد کو دوبارہ تعلیم نہ حا صل کر نا پڑے ۔ہمیں ’’ایمانداری بہترین حکمت عملی ہے۔‘‘ پڑھانی نہیں سیکھانی ہے کہ بچے دوسروں کی چیز کو ا پنی چیز نہ کہہ کر لیں۔ہمیں ’’اتفاق میں برکت ہے۔‘‘ بھی نہیں پڑ ھانی ہمیں یہ بھی اس طرح سیکھانی ہے کہ شیعہ ،سنی،پنجابی،بلوچی ،کی لڑائی ختم ہو جا ئے۔ہمیں اسلامیات اس طرح پڑ ھانی ہے کہ مدرسے اور سکول کا فرق ختم ہو جا ئے ۔یعنی ہمیں تعلیم اس طرح د ینی ہے کہ دنیا اور آخرت کی تعلیم کا فرق مٹ جا ئے ۔اس ملک کو اس د نیا کو کامیاب طالب علوں کی نہیں کا میاب لوگوں کی ضرورت ہے۔اس ملک اور دنیا کو زیادہ لفظ یا چیزوں کے نام یاد کر نے والوں کی نہیں بلکہ لفظ اور چیزوں کو تخلیق کر نے والوں کی ضرورت ہے۔ہر سال لا کھوں طا لب علم A.Bگریڈ میں پر موٹ ہو تے ہیں مگر آج بھی ملک کو ہر شعبے میں اچھے افراد درکار ہیں۔ہمیں ایسا تعلیمی نظام تر تیب د ینا ہے جو ہمیں خودانحصاری اور ضمیر کی آزادی سے ہمکنار کر ے ۔تاکہ پھر کو ئی اسلام کو یرغمال بنا کر غاروں میں نہ لے جا سکے۔
A.R Ikhlas
About the Author: A.R Ikhlas Read More Articles by A.R Ikhlas: 37 Articles with 31715 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.