رات کی تاریکی گہری ہوتی جا رہی
تھی موسم سرما کی راتیں بڑی خاموش اور اُداس اُداس ہوتی ہیں ۔ایسے میں
سناٹے کو چیرتی ہوئی مدہم مدہم سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں ۔کبھی کبھی ان
سرگوشیوں میں لطیف جذبات سے بھرپور اور جوانی کے خمار کو طوالت بخشتی
مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوتا ہے تو کبھی مسرور دھڑکنیں مخمور جذبات کا پیغام
دیتی نظر آتی ہیں۔مجھے اب جانا ہو گا مریم نے امجد سے کہا ۔امجد جو محبت کی
وادیوں میں گم اپنے محبوب کا پری چہرہ کو دیکھتے ہوئے عجیب سی سرشاری میں
بیٹھا تھا اچانک مریم کی یہ بات سن کر چونک اُٹھا اور کہنے لگا کیوں اتنی
جلدی کیوں ہے ابھی تو میری آنکھوں کی پیاس بجھی ہی نہیں اور تم چلنے کا کہ
رہی ہو کتنے دن بعد تم سے ملاقات ہو رہی ہے تمہاری قربت کے لیے لمحہ لمحہ
تو جلتا رہا ہوں ۔امجد تم جانتے ہو میں ماما کو بتا کر آئی تھی کہ میں اپنی
فرینڈ کی شادی پر جا رہی ہوں اور اب بابا جانی کے گھر آنے کا بھی تو وقت ہو
گیا ہے نا تو میری مجبوری کو سمجھوں ورنہ میں تو ساری رات تمہاری آنکھوں
میں ڈوب کا گزار دیتی ،مریم نے پیار بھری نظر امجد پر ڈالتے ہوئے کہا ،آخر
کب تک یہ مجبوریا ں کی دیوار ہمارے پیار کے رستے میں ہائل رہے گئی آخر تم
اپنے بابا سے میری بات کیوں نہیں کرتی دیکھو تمہیں اندازہ ہے اب مجھ سے
تمہاری لمحہ بھر کی بھی جدائی برداشت نہیں ہوتی میں تمہاری محبت کے سمندر
میں بہت دور تک نکل گیا ہوں اب تیز اور طوفانی لہریں مجھے اپنے ارد گرد
منڈلاتی نظر ا ٓرہی ہیں اگر اسی طرح تم اپنے بابا سے بات کرنے کو ڈرتی رہی
تو مجھے ڈر ہے آگے کا لفظ امجد بول نا سکا اور مریم نے جلدی سے اپنا ہاتھ
امجد کے منہ پر رکھ دیا اور ہولے سے کہا بد شگونی کے الفاظ مت بولو محبت
کرتے ہو تو اُس پر یقین بھی رکھو اس پارسا اور پاکیزہ محبت کی قسم ہمار ا
ملن ضرور ہو گا میں آج ہی امی سے بات کروں گئی مریم نے فیصلہ کن لہجے میں
کہا -
امجد اور مریم یونیورسٹی میں کلاس فیلو تھے وہی پر دونو ں ایک دوسرے کی
محبت کے لازوال بندھن میں بندھ گئے وقت کا پنچھی بہت تیزی سے پر لگا کر
اُڈا دونو ں کو پتا ہی نہیں چلا اور دو سال کا پریڈ بہت تیزی سے بیت گیا
دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ وہی پرانے پریمیوں کی طرح ساتھ جینے مرنے کی
قسمیں کھائیں محبت کے سہانے سپنوں کو حقیقت کا تاج محل بنانے کا بھی بھرپور
اعادہ کیا ۔مریم ایک رئیس خاندان سے تعلق رکھنے والی اور اپنے والدین کی
اکلوتی اُولاد تھی جو بہت منتوں اور دعاؤں کے بعد پیدا ہوئی جبکہ امجد ایک
غریب خاندان سے تعلق رکھتا تھا ۔مریم نے کبھی امجد کو اپنے خاندان کے بارے
میں کبھی نہیں بتا یا تھا کہ جب کبھی امجد اُ س سے اس کی ماما اور بابا کے
بارے میں پوچھتا تو وہ ٹال مٹول کر دیتی تھی اب یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے
بعد دونوں ایک دوسرے سے چوری چھپے ملتے تھے -
آج بھی مریم ماما سے یہ کہہ کر گھر سے نکلی تھی کہ ایک فرینڈ کی شادی پر جا
رہی ہے او ر اب امجد سے ملاقا ت کر کے گھر واپس جا رہی تھی راستے میں مریم
یہ سو چ رہی تھی کہ اب امجد کچھ زیادہ ہی جذباتی ہونے لگا ہے-
اب اس بات کو گھر والوں سے چھپانا مناسب نہیں گھر پہنچتے ہوئے مریم کو کافی
دیر ہو گئی مریم کی ماما فردوس بیگم بڑی بے تابی سے مریم کا انتظار کر رہی
تھی ۔ کتنی دیر لگا دی تم نے کب سے تمہارا انتظار کر رہی ہو ں شکر ہے ابھی
تک تمہارے بابا نہیں آئے ورنہ اُنھیں بہت برا لگتا کہ تم اتنی دیر سے گھر
آئی ہو ماما نے مریم کو کہا ۔بس ماما ٹریفک کی وجہ سے دیر ہو گئی اور ہاں
ماما آج میں نے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے مریم نے ڈرتے ڈرتے اپنی ماما
کو کہا ۔ہاں کہو ایسی کیا بات ہے جو کہتے ہوئے اتنا گھبرا رہی ہو فردوس
بیگم نے کہا۔وہ ماما آپ کو امجد سے ملوانا تھا ۔امجد کون ہے اور کیوں
ملوانا ہے فردوس بیگم نے کہا ۔امجد اور میں ہم دونوں یونیورسٹی میں کلاس
فیلو تھے اور اس سے آگے مریم کچھ نہ کہ سکی مشرقی شرم و حیا سے مریم کی
آنکھیں جھک گئیں۔مریم شاید تمہیں یاد نہیں جب تم یونیورسٹی جا رہی تھی تو
تمہار ے بابا نے تمہیں کیا کہا تھا فردوس بیگم نے بڑے سرد لہجے میں کہا ۔مریم
کو یاد آنے لگا اُس کے بابا نے اُسے کہا تھا کہ ہمارے خاندان میں تم واحد
لڑکی ہو جیسے میں پڑھا رہا ہوں بس اس بات کا خیا ل رکھنا کہ میری عزت کی
ڈوریا ں تمہارے ہاتھوں میں ہیں اگر ان ڈوریاں میں کہیں جوانی کی لغزشیں مل
گئیں تو پھر میری محبت تمہارے لیے قہر بن جائے گئی اور اسی وجہ سے تو مریم
نے کبھی ہمت نہیں کی تھی کہ اپنی ماما کو ہی امجد کے بارے میں بتا دے مگر
آج ماما کو بتایا تو انھوں نے بھی وہی جواب دیاجو بابا نے کہا تھا۔ماما
خدارا آپ میرے لیے کچھ کریں ورنہ میں امجد کے بغیر جیتے جی مر جاؤگئی مریم
نے انتہائی نڈھال آواز میں کہا ۔تمہاری ماں تمہارے لیے جان دے سکتی ہے مگر
تمہارے بابا کے سخت اصولوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی میری بچی مگر میں تیرے
لیے کوشش ضرور کروں گئی اب دیکھو آگے کیا بنتا ہے اب جاؤ اور سو جاؤ تمہارے
بابا آتے ہیں تو میں بات کرتی ہوں فردوس بیگم نے شفقت سے مریم کو کہا -
جب مریم کے بابا امیر خان گھر میں آئے تو فردوس بیگم نے کہا مریم نے اب
جوانی کی سرحدوں پر قدم رکھ لیا ہے آپ نے اُس کے بارے میں کچھ سوچا ہے امیر
خان نے بڑی حیرت سے اپنی بیگم کو دیکھا اور کہا آج تمہیں اچانک کیا سوجھی
مریم کے بارے میں اور ویسے بھی تم جانتی ہو ہمارے خاندان کی روایت ہے کہ
شادی خاندان میں ہی ہوتی ہے اور مریم کی شادی میرے بھائی کے بیٹے سکندر خان
سے ہو گئی ۔کیا ایسا نہیں ہو سکتا ہم مریم سے اُ س کی شادی کے بارے میں کو
ئی رائے معلوم کر لیں ویسے بھی میں اُس کے ایک کلاس فیلو سے ملی ہوں جو بہت
ہی اچھا لڑکا ہے اور اگر آپ چاہیں تو مریم کی بات وہاں پکی کر دیں ۔ فردوس
بیگم نے آہستہ سے کہا ۔یہ بات سن کر امیر خان کے چہرے پر سخت تناؤ آ گیا
اور امیر خان نے اتنہاہی کرخت لہجے میں کہا ۔ہمارے فیصلہ کے آگے کسی رائے
کی کوئی اہمیت نہیں اور مریم کبھی اپنے بابا کے فیصلہ کے خلاف کوئی رائے
دینے کی جرات نہیں کر سکتی ہم نے اپنے بھائی کو زبان دے دی ہے اور تم جانتی
ہو زبان دینے کا مطلب ہماری گردن تو کٹ سکتی ہے مگر زبان سے نہیں پھر سکتے
اور نا ہی اپنی صدیوں سے چلتی روایات کو توڑ سکتے ہیں -
اُدھر رات بھر مریم بستر پر کروٹیں بدلتی رہی طرح طرح کے خیالات مریم کے ذ
ہن میں ا ٓ رہے تھے کبھی بابا کے سخت اصول مریم کو تاریکوں کی دلدل میں
دھنسا دیتے تھے تو کبھی لگتا تھا بابا اپنی بیٹی کو کبھی مایوس نہیں کریں
گئے کیونکہ زندگی میں مریم نے جو کچھ مانگا یا جس چیز کی طرف اشارہ کیا وہ
پلک جھپکنے سے پہلے مریم کی دسترس میں ہوتی تھی تو پھر یہ اُ س کی زندگی کی
لازوال محبت اُس کے بابا اُس کی جھولی میں ضرور ڈال دیں گئے مریم صبح ہونے
کا انتظار کر رہی تھی تا کہ ماما سے پتا چلے کہ اُس کی زندگی کااُ س کی
انمول خاہشوں اور مچلتی آرزؤں کا فیصلہ اُس کے بے حد شفیق بابا نے کیا لکھا
ہے رات تھی کہ جو گزرنے کا نام نہیں لے رہی تھی بہت مشکل سے رات نے اپنی
آخری ہچکی لی اور پھر سپیدی نے چاروں طرف اُجالوں کو پھیلا دیا مریم کے
دروازے پر ہلکی سے دستک ہوئی مریم نے بڑی بے تابی سے دروازہ کھولااور مریم
کی ماما فردوس بیگم اند ر داخل ہوئیں مریم نے اپنی ماما کے چہرے کو دیکھا
جو کہ غم کی شدت سے مرجھایا ہوا تھا اور سرخ سرخ آنکھیں شب بھر کی داستان
سنا رہی تھی مریم کے بولنے سے پہلے فردوس بیگم نے انتہاہی دکھ اور تکلیف سے
کہا میری بچی تیری ماما ہار گئی عورت کی زندگی سمجھوتوں سے عبارت ہے تیرے
بابا اپنی فرسود ہ روایات کے چنگل میں مقید ہیں وہ کبھی اُس چنگل سے نہیں
نکل سکتے اب تجھے وہی کرنا ہو گا جو تیرے بابا چاہیں گئے اپنی محبت کو بھول
کر اب تمہیں نئے جیون ساتھی کے بارے میں سوچنا ہو گا جو تیرے ہی خاندان کا
سپوت ہے ۔فردوس بیگم بتائے جا رہی تھی اور آنسوؤں کا اُبلتا ہوا سیلاب مریم
کی آنکھوں سے جار ی تھا مریم کے دل پر تیر چل رہے تھے بے بس آرزوئیں مریم
کے وجود میں ہی کچل کر رہ گئی تھیں اچانک مریم کا نرم و نازک جسم غم سے
نڈھال ہو کر بستر پر گر پڑا فردوس بیگم نے آگے بڑھ کر اپنے دل کے ٹکڑے کو
سینے سے لگایا جو کہ ازیت سے کانپ رہا تھافردوس بیگم نے روتے ہوئے کہا میری
جان پادر میں تیری محبت کا ملاپ کروا سکتی ہوں پھر تجھے یہاں سے بھاگنا پڑے
گا مگر سوچ لو پھر بدنامی اور شرمساری کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہمارے
پورے خاندان کو بہا لے جائے گا مریم نے ہولے ہولے اپنی آنکھوں کو کھولا اور
کہا ماما میں اتنی خود غرض نہیں کہ اپنی محبت کی خاطر اپنے باپ کی آنکھوں
میں کبھی ندامت کے شرمناک آنسوؤں کو دیکھوں میں مشرقیت کی لاج ہوں میری
زندگی کی کل جمع پونجی میری عزت اور میرا وقارہے میں کبھی اپنی سچی محبت کو
مادیت پرستی کے اندھیروں میں نہیں دھکیل سکتی فردوس بیگم نے بے اختیا ر
اپنی بیٹی کا ماتھا چوم لیا اور کہا تو اپنے ماما اور بابا کی لاج رکھنے
والی خدا ہمیشہ تجھے آباد رکھے -
آج مریم نے امجدکو ملاقا ت کے لیے بلوایا تھا مریم آج ایک آخری ملاقات اپنے
محبوب سے کرنا چاہتی تھی امجد نے آتے ہی مریم کو کہا ہاں تو لگتا ہے تم نے
اپنے بابا کو منا ہی لیا ہو گا ۔نہیں امجد بابانہیں مانے اُن کے اصول پہاڑ
کی طرح سخت ہیں مجھے معاف کر دو شاید میں تمہارے قسمت کے ستاروں میں کبھی
تھی ہی نہیں مریم نے افسردہ لہجے میں کہا ۔امجد کے اعصاب پر یہ خبر بجلی بن
کر گری امجد کو لگا جیسے اُس کا وجو ریزہ ریزہ ہو گیا ہو -
ہاں میں سمجھ گیا صدیوں سے ہی ایسا ہوتا آیا ہے غریب کی دہلیز پر کبھی محبت
نے قدم رکھا ہی نہیں شاید تمہارے لیے محبت بارش کے پہلے چھینٹے کی طرح برس
جانے کا نام ہو گا مگر میرے لیے محبت گھٹ گھٹ مرنے کا نام ہے ۔امجد نے
انتہائی تلخی سے کہا ۔نہیں امجد میں روایات کے بندھن میں جکڑی ہوئی وہ عورت
ہوں جو اپنے بڑوں کے فیصلوں کے آگے سر جھکا کر اپنی محبت کی قربانی دینے
والی ہے میں بے بس ہوں میری محبت بھی میری طرح بے بس ہے میرے ارد گرد
مشرقیت کی وہ دیواریں ہائل ہیں جس کو میں اور میرے جیسی ا ن گنت لڑکیاں
کبھی پار نہیں کر سکتی شاید میں تمہیں کبھی بھول نہ پاؤں مریم نے اُداسی سے
کہا ۔کس مشرقیت کی بات کرتی ہو وہ مشرقیت جو تم سے تمہاری محبت چھین لے
تمہاری روح تک کو بے چین کر دے پسند کی شادی کی تو ہمارے مذہب میں بھی
اجازت ہے تو پھر کیا تمہار ے بابا نے ا پنی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے
رسمو ں و رواج کو مذہب سے زیادہ فوقیت دی ہے خدارا اپنی محبت کو یوں کمزور
نا ہونے دو کیا یہی تمہاری محبت ہے جو تیز ہوا میں ریت کی دیوار کی طرح گر
گئی ہے یہ رسموں و رواج اور روایات پرانی قبروں کی مانند ہوتی ہیں جن کے
پاس جا کر رویا تو جا سکتا ہے مگر اُس کے کنارے بیٹھ کر اپنی ساری زندگی
نہیں بیتائی جا سکتی-
میں تمہارے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا مجھے اتنی ازیت مت دو مجھے
پہلے ہی میرے نصیب نے قدم قدم پر محرومیو ں سے نوازا ہے اگر تمہاری محبت کو
بھی نہ پا سکا توپھر میرے جینے کا مقصد ختم ہو جائے گا ۔یہ کہتے ہوئے قطرہ
قطرہ آنسو امجد کے گالوں پر لڑھکنے لگے امجد کو دیکھ کر مریم بھی ضبط نہ کر
سکی اور وہ بھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی جس جگہ کبھی قہقے لگتے تھے جوانی کی
حسین شرارتیں لبوں پر کھیلتی تھی اب وہاں دکھوں کی فضا سوگوار انداز میں
ڈیرا ڈالے ہوئی تھی مریم نے بمشکل اپنے آنسوصاف کیا اور امجد سے کہا اگر
تمہار ا جینے کا مقصد ختم ہو گیا تو پھر میں کبھی اپنے آپ کو معاف نہیں
کرپاؤں گئی تم نے جینا ہے اور اپنی محبت کے لیے جینا ہے بزدلوں اور کمزور
لوگوں کی طرح اپنی زندگی کا خاتمہ کرنا نہیں ہے اب میں جا رہی ہوں اپنے آپ
کو سمبھالے رکھنا اب تم سے کبھی ملاقات نہیں ہو گئی الوداع میرے محبوب -
امجد روز اُس جگہ آتا تھا جہاں مریم اُس سے ملنے کے لیے آیا کرتی تھی امجد
کو لگتا تھا ابھی مریم لبوں پر ہنسی بکھیرے میٹھی میٹھی شرارتیں کرتے آ
جائے گئی مگر اب وہاں اُداس یادوں کے سوا کچھ نہ تھا امجد ہی سوچ کر آتا
تھا کبھی تو مریم پلٹ کر آئے گئی مگر خود کو دھوکا دیتا امجد یہ بھول جاتا
تھا مریم تو بہت دور جا چکی ہے اتنی دور جہاں امجد کی گھٹی گھٹی صدائیں
کبھی نہیں پہنچ سکتیں کچھ دن بعد مریم کا گھر روشنیوں سے چمک رہا تھا مریم
آج دلہن بن کر اپنے پیا گھر جانے والی تھی چاروں طرف شہنایوں کی گونجیں
آرہی تھی مگر ان شہنایوں کی گونجوں میں مریم کو تڑپتی سسکتی سسکیا ں لیتی
ہوئی محبت کی دم توڑتی آواز آ رہی تھی جو کہ رہی تھی
آہ میں مشرق کی بیٹی آہ میں مشرق کی بیٹی |