چھوٹے چھوٹے گناہوں سے بچیے

ایک جگہ ہم نے پڑھا تھا کہ خوشیاں چھوٹی چھوٹی ہوتی ہیں اور زندگی کا حسن بھی انہی باتوں میں پوشیدہ ہوتا ہے۔

خوشیاں جو بارش کے قطروں کی طرح ہوتی ہیں مختصر اور خوبصورت اور زندگی میں رنگ بھی اسی وقت بھرتے ہیں جب ہم ان خوشیوں سے لطف اندوز ہونا سیکھ جاتے ہیں اور نا سے خوبصورت کشید کرنا سیکھ جاتے ہیں۔ اعلیٰ ظرفی ، مروت، دلجوئی، کام آنا ، عیب پوشی، راہ نہ کاٹنا یہ محاسنِ اخلاق بظاہر کس قدر مختصر ہیں لیکن زندگی سنوارنے کے عاقبت نکھارنے کے اور اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں تھامنے کے یہی گڑ ہیں۔

نظر نہ آنے والے محسوس نہ ہونے والے چھوٹے چھوٹے اتنے مختصر کے پل میں ختم ہوجانے والے ، جس طرح خوشیاں بارش کے قطروں کی طرح ہوتی ہیں اسی طرح گناہ بھی چھوٹے چھوٹے کنکروں کی انند ہوتے ہیں اور یہ چھوٹے چھوٹے کنکر آکر کار ایک دن بڑے بڑے بہاڑ بن جاتے ہیں اور یہ پہاڑ ہمارے ساتھ ساتھ رہتے ہیں، جلوت میں خلوت میں، سوتے میں اور جاگتے میں اور آخر کار ہماری خوشیوں کی راہ میں، دعاؤں کی قبولیت میں ، ذہنی سکون اور ترقی کی راہ میں حائل ہوجاتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی میں یہ گناہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح حائل ہوجاتے ہیں۔

پھر لاکھ حیلے و سیلے کرو ، چلاکی ،جادو ٹونے ، مکاری، ہوشیاری، دنیاوی وسیلے، مال و دولت، تعلقات، اختیارات لیکن ہوتا کیا ہے؟ ناکامی، نامرادی، بے چینی، بے سکونی اور بے برکتی۔ ہم لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ منفی ہتھکنڈوں سے ، ہوشیاری سے ہم کامیابی حاصل کر سکتے ہیں لیکن کامیابی ۔۔۔۔ دائمی کامیابی کے لئے منفی سرگرمیاں بھی کبھی کار گر ثابت ہوتی ہیں ؟؟؟

غیبت ، بد خوئی، دوسروں کا بُرا چاہنا ، راہ میں کانٹے ڈالنا، دل آزاری کرنا، غلط فہمیاں ڈالنا بظاہر کوئی بڑے گناہ نہیں دکھتے لیکن سزا بھی چھوٹے چھوٹے گناہوں پر ہوتی ہے، پکڑ بھی انہیں اعمال کی ہوگی جو بظاہر دنیا سے اور لوگوں سے چھپ کر، آہستہ سے غیر محسوس طریقہ سے سر انجام دیئے جاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں ہوتا۔ اس سے حیا نہیں ہوتی اور گناہ سرزرد ہو جاتے ہیں۔ ہم اپنے بچپن میں ایک حکایت پڑھتے تھے کہ ایک بچہ لکڑیوں کو آگ پکڑتے دیکھ کر رو رہا تھا اس کی ماں نے دریافت کیا تو اس نے کہا کہ میں خوفِ خدا سے رو رہا ہوں کیونکہ آگ پہلے چھوٹی لکڑیوں کو پکڑتی ہے بھر بڑی لکڑیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ روزِ محشر بڑے گناہ گاروں سے پہلے ہم چھوٹے چھوٹے گناہ گار پکڑے جائیں گے۔

غور کریں تو اس حکایت میں کتنی گہرائیہے۔ ھناہ صرف یہ نہیں ہے کہ آپ چل کر جائیں،ہتھیار اٹھائیں اور زدو کوب کریں۔ آپ کسی کو حقارت اور نفرت سے دیکھیں، آنکھوں میں حیا نہ ہو، احترام نہ ہو تو یہ نگاہوں کا گناہ ہوگا۔دل میں کسی نقصان پر خوش ہوں، حسد رکھیں تو یہ دل کا گناہ ہوگا ، ناحق کسی کو برا بھلا کہیں، الزام بازی کریں تو یہ زبان کا گناہ ہوگا۔

پھر ہم یہ سوچتے ہیں کہ چیزوں میں بے برکتی کیوں ہے؟ پریشانیاں کیوں ہیں؟ اور سب کچھ ہوتے ہوئے بھی نامرادی کا احساس کیوں ہے؟ تو یہ ہمارے گناہوں کا وہ انبار ہیں جو زندگی ہے خوبصورت رنگوں کو بد صورت اور مٹیالاکر دیتے ہیں۔

جس طرح سچی خوشیاں کشید کرنا مشکل نہیں ہے اسی طرح گناہ سے اجتناب بھی نا ممکن نہیں ہے۔ بات صرف نیک نیتی کی ہے اورپختہ ارادے کی ہے۔آپ بڑے بڑے منصوبے مت بنائیں۔ ٹرسٹ، دفاہی ادارے، مدرسے نہیں۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔

بس چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے ۔۔۔ اچھے کاموں کے لئے قدم اٹھائیں، بے لوث کام آنا، حوصلہ افزائی کرنا، پریشانی میں دل جوئی کرنا ، اپنی دعاؤں میں دوسروں کا یاد رکھنا ، یہ وہ نیکیاں ہیں جن کا علم یا تو آپ کو ہوتا ہے یا آ پ کے رب کو ۔ اسی لیے تو کہا گیا ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہمارا دین وہ واحد دین ہے جہاں اعمال کے اجر کا انحصار نیت پر ہوتا ہے۔

نیک ارادہ بھی نیکی ہے، تو اچھے اعمال کا سوچیے اور عمل کر ڈالیے کیونکہ اچھے کام کے لئے ضروری نہیں ہوتا کہ وہ کتنا بڑا ہے بس اس کا نفع بخش ہونا ضروری ہے منافع بھی وہ جو کئی گنا زیادہ ہو کر واپس ملتا ہے۔

دنیا میں بھی عزت و نیک نامی کی صورت اور آخرت میں سرخروئی کی صورت میں ۔

Andleeb Zuhra
About the Author: Andleeb Zuhra Read More Articles by Andleeb Zuhra: 9 Articles with 20755 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.