شہوت کا منفی چلن‘ کوئی انوکھا
اور نیا نہیں۔ اس کے منفی طور کی تبدیلی کے لیے سیکڑوں نہیں‘ ہزاروں لوگ
میدان عمل میں اترے ۔ انھوں نے اپنی سی کوشش کی۔ لاریب فیہ‘ ان کی کوششوں
میں خلوص اور دیانت داری‘ اپنے پورے وجود کے ساتھ موجود تھی اور اسی عمل کے
دورانیے میں زندگی کی اسٹیج سے غائب ہو گیے۔ کچھ کو مصائب کا سامنا کرنا
پڑا۔ کچھ منفی چلن کی صلیب پر مصلوب ہو گیے۔ مانا‘ جان کی قربانی کوئی
معمولی بات نہیں‘ بدلاؤ آنا چاہیے تھا‘ لیکن منفی چلن کی ڈگر نہ بدلی۔ ہاں
اتنا ضرور ہوا‘ کہ لمحہ دو لمحہ کے لیے ہی سہی‘ اس کھڑے پانی میں‘ ارتعاش
تو پیدا ہوا۔ میدان عمل میں اترنے والوں نے قرطاس حیات پر اپنے ہونے کا
ثبوت چھوڑا۔ وقت کے سینے پر اپنی گواہی کے ننقوش ثبت کر دیے۔ یہ کوئی ایسی
معمولی بات تو نہیں۔
شہوت کا منہ زور طوفان امڈ آیا تھا۔ کاشف سے ملاپ کے لیے‘ بامشکل اور بصد
کوشش‘ چند‘ ہاں گنتی کے چند لمحے‘ دستیاب ہوئے تھے۔ راحیل کے گھر لوٹنے
میں‘ کوئی زیادہ وقت باقی نہ تھا۔ اگر یہ موقع ہاتھ سے نکل جاتا تو‘ جانے
ان چند لمحوں کے لیے‘ اسے کتنے لمحے انتظار کی بھٹی میں جلنا پڑتا۔ وہ ان
لمحوں کی آسودگی کو غارت نہیں کرنا چاہتی تھی۔ کاشف اس کے سپنوں کا شہزادہ
تھا۔ اس سے ملن کی تپسیا بڑی کڑی تھی۔ کام دیوا‘ لمحوں کو‘ ملن کا بردان
کٹری تپسیا کے بعد ہی دیتا ہے۔
جانے آج کام دیوا کس طرح مہربان ہو گیا تھا۔ عوفی اپنی ماں کے برسوں کے
انتظار بھرے جیون سے آگاہ نہ تھا۔ پہلے تو کبھی ایسا نہ ہوا تھا۔ تھوڑی سی
کوشش‘ اسے نیند کی وادی میں لے جاتی تھی۔ پھر وہ پرسکون ہو کر‘ گھر کے کام
کاج کر لیتی تھی۔ آج تو حد ہو چلی تھی۔ یوں لگتا تھا‘ جیسے عوفی نے آج نہ
سونے کی قسم کھا لی تھی۔ وہ اتنا بڑا نہیں تھا‘ لیکن اتنا چھوٹا بھی نہ
تھا‘ کہ وہ اس کے سامنے ہی‘ اپنا یہ معاملہ طے کر لیتی۔ شاید کسی ان جانی
قوت نے‘ اسے ماں کے ارادے سے آگاہ کر دیا تھا۔ یہ بھی بعید از قیاس نہیں‘
کہ نیکی کے دیوتا نے اس سے نیند چھین لی تھی۔ کام دیوا اپنی جگہ پر سرخرو
ہو چکا تھا۔ تپسیا کا بردآن نہ دینے پر‘ اس کے کارے پر حرف آتا تھا۔ اب خیر
کا دیوا آڑے آ گیا تھا‘ اس میں اس کا کوئی قصور نہ تھا۔
خیر کی جانے لذت کے لمحوں سے کیوں نہیں بنتی۔ نہ خود آسودہ رہتی ہے اور
ناہی دوسروں کی آسودگی برداشت کرتی ہے۔ کسی سڑیل سوت کی طرح‘ بےلحاظ اور بے
مروت ہو کر‘ میدان میں اتر آتی ہے۔ کسی ڈھیٹ مٹی سے اٹھی ہے۔ بار بار قتل
ہونا‘ جانے‘ اسے کیوں خوش آتا ہے۔ موت تو‘ بڑے بڑوں کا پتہ پانی کر دیتی ہے
لیکن مر مر کر بھی‘ اسے عقل نہیں آئی۔ اپنی پرانی اور دقیانوسی ڈگر پر
مسلسل گامزن ہے۔
خیر اور شر کی جنگ بڑی شدت سے جاری تھی۔ کب تک‘ آخر کسی کو تو ہارنا تھا۔
پنکی کے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا۔ شر نے خیر کو پچھاڑ ہی دیا۔ افسوس عوفی کو
جان سے جانا پڑا۔ یہ کوئی نیا معاملہ نہ تھا۔ خیر کی رکھشا کے لیے ان گنت
عوفی جان ہار چکے تھے۔ شر کے بطن سے ایک نئی جان نے اپنا وجود حاصل کر لیا
تھا۔
شہوت کی آگ جب سرد پڑ گئی تو نیکی کا دامن اشکوں سے تر ہو چکا تھا۔ ممتا کو
کھو دینے کا روگ‘ لگ چکا تھا۔ آنے والا‘ عوفی کے قتل اور کردہ جرم کی یاد
دلانے کے لیے‘ زندگی کے ہر گرم سرد موسم میں‘ ممتا کے چلن پر قہقہے لگاتا
رہے گا اور کبھی چبھتی اور تلخ نگاہوں سے گھورتا رہے گا۔ زندگی کا ہر لمحہ
سزا بن جائے گا۔
پنکی کو پھر سے نو ماہ زچگی کے عالم میں گزارنا ہوں گے۔ عوفی تک آتے آتے‘
چار سال اور نو ماہ لگ جائیں گے۔ وہ ہر لمحہ‘ اس سوچ میں ڈوبی رہے گی‘ کہ
اگر عوفی زندہ ہوتا تو اتنے سال اور اتنے ماہ کا ہو جاتا۔ پیدا ہونے والا‘
عوفی کے بلی دان کی‘ زندگی کی آخری سانسوں تک‘ شر اور خیر کی گواہی دیتا
رہے گا۔ آنے والا کتنا بھی دھل کر سامنے آئے گا‘ شہوات کے طوفان میں غرق
عوفی کا تبادل نہ بن سکے گا۔ عوفی‘ عوفی تھا۔ وہ تو خیر کا بردانی تھا۔
محبت کا بردان کام دیوا سے ملا تو‘ شنی نے مہر ثبت کر دی تھی‘ ورنہ شر سر
چڑھ کر نہ بولتی۔
عوفی نے کب نبی ہونے کا دعوی کیا تھا۔ ہاں اس کا فعل اور قربانی‘ کسی نبی
کے سچے اور کھرے پیرو کی سی تھی۔ وہ خیر کی علامت تھا۔
جنگ کی حکمت عملی‘ ہر جرنل کی ایک سی نہیں ہوتی۔ کامیاب اسی جرنل کو کہا جا
سکتا ہے‘ جو موقع کی مناسبت سے حکمت عملی طے کرے۔ ٹیپو فرار یا سرنڈر کا
رستہ اختیار کر سکتا تھا۔ اور کتنا جی لیتا؟!اور جینا‘ بےتوقیر جینا ہوتا۔
اس کی زندگی موت سے بدتر ہوتی۔
عوفی نے موت کا رستہ چن کر‘ ٹیپو کی حکمت عملی پر‘ درستی کی مہر ثبت کر دی
تھی۔ یہ کوئ ایسی معمولی بات نہ تھی۔ عوفی فاتح جرنیل ناسہی‘ لیکن کوئی
تجزیہ نگار اسے ناکام جرنیل بھی نہیں قرار دے گا۔ کاشف اور پنکی جیت کر بھی
ہار چکے تھے۔ عوفی نے انھیں عبرت ناک شکست دی تھی۔ یہی حقیقت اور یہی وقت
کا انصاف ہوگا۔ ہر کیے کا‘ کوئی ناکوئی‘ پرینام تو ہوتا ہی ہے۔ کاشف‘ باپ
ہو کر‘ ماموں کا رشتہ استوار کرنے پر مجبور ہو گا اور پنکی کا آنچل پچھتاوے
کی آگ میں جلتا رہے گا۔۔۔۔۔۔۔ ہاں جلتا رہے گا۔ |