اس کا اصل نام تو کسی کو معلوم نہ تھا‘ ہاں البتہ‘ اولڈ بوائے کے نام سے‘
پورے علاقہ میں شہرت رکھتا تھا۔ یہ بچوں کا دیا ہوا نام تھا۔ وہ بچوں کے
ساتھ زیادہ وقت گزارتا۔ کھیلتا‘ انھیں کہانیاں سناتا۔ کسی بچے کو حاجت ہوتی‘
تو اسے نالی پر بیٹھاتا۔ اس کی طہارت کرتا۔ اس کا لباس درست کرتا۔ اگر کوئی
اسے کھانے کی چیز دیتا‘ تو وہ اس کا بڑا حصہ بچوں کے لیے‘ جیب میں سمبھال
لیتا۔ بچے بھی اپنی چیزیں اس سے بانٹ کرتے۔ وہ ان کا دل رکھنے کے لیے‘
برائے نام اس میں سے کچھ لیتا۔ وہ کھاتے پیتے اور اٹھکیلیاں بھرتے‘ بچوں کو
دیکھ کر خوش ہوتا۔ بچے‘ اس کے بغیر اپنے ہر کھیل کو‘ ادھورا اور نامکمل
سمجھتے تھے۔ ایک مرتبہ وہ بیمار پڑا‘ تو بچوں نے اپنے بوڑھے ساتھی کا ہر
طرح سے خیال رکھا۔ اسے لمحہ بھر کے لیے تنہائی کا احساس نہ ہونے دیا۔ یہی
نہیں کوئی اس کے پاؤں داب رہا ہے تو کوئی سر دبا رہا ہے
وہ کون تھا اور کہاں سے آیا تھا‘ کوئی نہیں جانتا تھا۔ وہ اس محلہ میں
پچھلے پچیس سال سے اقامت رکھتا تھا۔ وہ کسی کے لیے اجنبی نہ رہا تھا۔ محلے
کے بچوں کے بچے‘ اب اس سے کھیل رہے تھے۔ عورتیں جب گھر کے کاموں میں مصروف
ہوتیں‘ تو وہ بعض بلکہ اکثر اوقات‘ اپنے شیرخوار بچے اس کے حوالے کر دیتیں۔
کسی شیرخوار بچے کو لیتے وقت‘ اس کے چہرے پر خوشی کے بیسیوں گلاب کھل اٹھتے۔
مجال ہے‘ کوئی بچہ اس کے پاس آ کر روتا یا تنگ کرتا۔ ضدی سے ضدی بچے‘ اس کے
پاس آ کر ضد چھوڑ دیتے اور اس کے ساتھ گھل مل جاتے۔ بچوں کے معاملہ میں‘
اسے مقناطیس کہا جائے‘ تو غلط نہ ہو گا۔
عورتیں اسے دکان سے سودا لانے بھیج دیتیں۔ اس کے منہ پر انکار نہ آتا‘ بلکہ
گوناں فرحت اور آسودگی سی محسوس کرتا۔ ناصرف سودا صاف ستھرا لاتا‘ بلکہ
بقایا بڑے اہتمام سے واپس کرتا۔ معلوم ہوا‘ وہ دکان دار سے بھاؤ بھی کرتا۔
یوں بحث کرتا‘ جیسے اپنے گھر کے لیے سودا خرید کر رہا ہو۔ زیادتی کی صورت
میں‘ اس کا لہجہ ہی بدل جاتا۔ یوں لگتا‘ جیسے کوئی نواب صاحب ہو‘ لیکن چند
ہی ساعتوں میں نارمل ہو جاتا۔ اس کا یہ روپ بالکل الگ سا ہوتا۔
میں خود اسے‘ اولڈ بوائے سے زیادہ‘ نہیں جانتا تھا‘ تاہم میرے ذہن میں اس
کے متعلق کئی سوال اٹھتے رہتے تھے۔ میں نے کئی بار ان سوالوں کا جواب
تلاشنے کی کوشش کی۔ اس نے بھی ایک زہریلی اور زخمی مسکراہٹ کے سوا میرے پلے
کبھی کچھ نہ ڈالا تھا۔ اس کی موجودہ شناخت‘ دوسرے درجے پر بھی نہیں آتی تھی۔
نسلی اور علاقائی شناخت کی‘ ہر سوسائٹی میں معنویت رہی ہے۔ اسے کسی سطح پر
نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ اچھا‘ ذمہ دار‘ ہمدرد‘ بےضرر‘ شریف اورپیار
کرنے والا تھا۔ یہ سب اپنی جگہ‘ لیکن اس سے شخصی شناخت ترکیب نہیں پائی۔ یہ
بات کسی سطح پر نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ اسے‘ اس کے موجودہ رہائشی
علاقہ میں‘ کس حوالہ سے لیا جائے۔ وہاں کا ہر رہائشی‘ رشتہ میں اس کا کچھ
بھی نہیں لگتا تھا۔ رشتہ میں‘ اس کے لیے سب غیر تھے۔ علاقائی نسبت بھی
موجود نہ تھی۔ وہ کسی گھر میں بطور باپ‘بیٹا‘ ماما‘ چاچا‘ بھائی‘ کزن وغیرہ‘
ٹانگیں پسار کر نہیں بیٹھ سکتا تھا۔ اس کا ہر رہائشی سے دروازے تک کا رشتہ
تھا۔ گھر کے اندر داخلہ غیرمرد ہونے کے حوالہ سے‘ قطعی ممنوع تھا۔
اس کے کفن دقن میں وہ اس کے اپنے نہیں ہوں گے۔ اس کو لاوارث سمجھ کر لوگ
کفن دیں گے۔اس کی لاش پر رونے والوں میں اس کا کوئی اپنا نہ ہو گا۔ ایک بھی
نہیں۔ نزدیک کا تو بڑی بات ہے‘ دور کا بھی کوئ نہیں ہو گا۔ اس کی میت بھی
علاقہ کی کتنی بدنصیب ہو گی۔ اف میرے خدا‘ اس سوچ سے میرا پورا جسم لرز
گیا۔ میں نے اس سوچ کو جھٹک دینے کی کوشش کی‘ لیکن میں اس سوچ کو جھٹک نہ
سکا۔ میں اس کی اس بےچارگی پر سسک پڑا۔
میرا بچپن بھی اس کے ہاتھوں میں گزرا تھا۔ میرے لیے وہ اس لیے معتبر تھا‘
کہ وہ دوسرے بچوں سے الگ مجھ سے سلوک روا رکھتا تھا۔ دوسروں کے سامنے مجھے
بھی برابر کا حصہ دیتا‘ لیکن دوسروں سے آنکھ بچا کر زائد دے دیتا ۔ کبھی
کبھی مجھے پیار کرنے کے بہانے‘ دوسرے بچوں کو گلے لگاتا‘ چومتا اور لاڈ
کرتا۔ مجھے یاد پڑتا مجھے گلے لگاتے ہوئے اس کی آنکھوں میں ایک خاص چمک
پیدا ہو جاتی۔ غالبا اس کی وجہ یہ تھی‘ کہ میں گول مٹول اور دوسرے بچوں سے
الگ سا تھا۔ یہ بھی کہ اس کے قریب رہ کر مجھے بہت اچھا لگتا۔ جب وہ بچوں کو
گنتی یا الف بے سکھاتا‘ تو سب زیادہ با ر مجھ سے سنتا اور میں اسے فرفر سنا
دیتا۔ میں چونکہ دوسروں سے قدرے زیادہ ذہین تھا اسی وجہ سے وہ میرا خاص
خیال کرتا تھا۔
ابا پڑھے لکھے تھے۔ نواب تو نہیں‘ قدرے صاحب حیثیت ضرور تھے‘ اسی لیے مجھے
شہر پڑھنے کے لیے بھیج دیا گیا۔ میں بی اے پاس کرکے واپس لوٹا۔ مجھے مل کر‘
اولڈ بوائے بہت خوش ہوا۔ جب اسے معلوم ہوا‘ کہ میرے چھوٹے بھائی رحمت اور
نذیر بھی تعلیم حاصل کرنے‘ شہر چلے گیے ہیں تو‘ اس نے بڑی خوشی کا اظہار
کیا۔ میں نے محسوس کیا‘ جو چمک میرے لیے اس کی آنکھوں میں نمودار ہوئی تھی‘
وہ ان کے لیے نہیں تھی۔ اس بات سے‘ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اولڈ بوائے‘
مجھے میری ذہانت کے حوالہ سے کتنا چاہتا تھا۔ انسان کی خصوصی کوالٹی ہی‘
اسے کسی دوسرے کے قریب لاتی ہے اور اس وصف کے حوالہ سے‘ لوگ اسے معتبر
رکھتے ہیں۔ اولڈ بوائے بھی مجھے اسی حوالہ سے عزیز رکھتا تھا۔
زندگی عارضی چیز ہے‘ اسے ایک روز ختم ہونا ہی ہوتا ہے۔ اولڈ بوائے اپنے
ننھے منے ہنسے مسکراتے ساتھیوں کو چھوڑ کر ملک عدم کو روانہ ہو گیا۔ میرا
اندازہ یکسر غلط نکلا۔ اس کی معت پر میں ہی نہیں‘ محلہ کا ہر چھوٹا بڑا رو
رہا تھا۔ بچے بےچین و بےکل تھے۔ ان کے چہروں پر قیامت خیز کرب تھا۔ عورتیں
اس کی شرافت اور دیانت کی قصیدہ خوان تھیں۔ اولڈ بوائے کا جنازہ کرب کے
طوفان میں اٹھا۔ محلہ میں اتنی سوگواری کا منظر‘ پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔
وہ کسی کا‘ کچھ بھی نہ ہو کر‘ بہت کچھ تھا۔
جانے والوں کو جانا ہی ہوتا ہے۔ انھیں جانے سے کون روک سکتا ہے۔ ابا جب
گیے‘ محلہ کے لوگ ہمارے ہاں افسوس کے لیے آتے رہے۔ اولڈ بوائے کی کہیں
پھوڑی نہ بچھی‘ ہاں رستہ ملتے لوگ آپس میں ملتے‘ اولڈ بوائے کا افسوس کرتے۔
دیر تک اس کی یادوں کے دیپ جلاتے۔ یہی حال گھروں کا تھا۔ ہر گھر میں اولڈ
بوائے کا تذکرہ چلتا اور سوگواری کے مناظر چھوڑ جاتا۔ وہ کوی سیاسی لیڈر‘
مذہبی راہنما یا قومی ہیرو نہ تھا اس کے باوجود اس کا تذکرہ‘ ان سے کسی طرح
کم نہ تھا۔
ابا کی موت کے بعد‘ اماں کے آنسو کئی سال نہ تھمےتھے۔ اولڈ بوائے کی موت کے
بعد‘ اس کے ہونٹوں پر چپ لگ گئی۔ شروع شروع میں‘ میں نے اسے معمول کا
معاملہ سمجھا۔ بہن اور دونوں بھائیوں نے اسے بڑھاپے کا نتیجہ سمجھا۔ بڑھاپے
اور موت کے قریب وقت میں‘ ایسی صورتیں سامنے آتی ہی رہتی ہیں۔ ان تینوں کے
برعکس‘ وہ مجھے اولڈ بوائے کی کچھ لگنے لگی۔ میں نے کئی بار جاننے کی کوشش
کی کہ آخر کون سا دکھ اسے اندر ہی اندر کھائے چلا جا رہا ہے۔ کسی رشتہ کے
بغیر‘ اولڈ بوائے کا دکھ اس کے دل پر لگنا‘ حیرت سے خالی نہ تھا۔ جب اس سے
کچھ پوچھتا‘ خفا سی ہو جاتی لیکن اس کی خفگی‘ اداسی سے خالی نہ ہوتی تھی۔
اماں شدید بیمار پڑ گئی۔ میرے سوا‘ اس کے تینوں بچے‘ اسے تنہا چھوڑ گیے۔
میری بیوی‘ میری ماں سے قربت کو پسند نہ کرتی تھی۔ وہ جھگڑا بھی کرتی‘ لیکن
میں اس کی بک بک کی پرواہ کیے بغیر ماں کی دل و جان سے خدمت کرتا۔ مرنے سے
چند لمحے پہلے کی بات ہے۔ خود ہی بولی‘ بےچارہ خوشیا کتنا تنہا تھا اور اس
کی آنکھوں میں ساون اتر آیا۔ خوشیا۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کون تھا؟! وہی جسے تم لوگ
اولڈ بوائے کہا کرتے تھے۔ پھر اسے احساس ہوا کہ وہ بہت کچھ غلط کہہ گئی ہے۔
تم اسے جانتی تھیں۔ چھوڑو۔۔۔۔۔۔چھوڑو کس کہانی کو لے بیٹھے ہو۔ اس نے ٹالنے
کی بڑی کوشش کی‘ لیکن میں سر ہو گیا۔
کیا سننا چاہتے ہو‘ سن سکو گے۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔۔ تم سن نہیں
سکتے۔ سن لوں گا‘ سب کہہ دو۔ کہہ دینے سے تمہارا دکھ ہلکا ہو جائے گا اور
تمہاری تکلیف میں کمی آئے گی۔ مگر تمہارا کیا بنے گا۔میرا؟! میرا‘ اس کہے
سے کیا تعلق ہو سکتا ہے۔ پتا نہیں کون اور کس علاقے کا تھا۔
جانتے ہو وہ کون تھا؟ مجھے کیا معلوم۔ وہ تمہارا ابا تھا اور جبل پور کے
رئیس کنبے سے تعلق رکھتا تھا۔ جب میں رحمت کے ابا کے ساتھ بیاہ کر آئی‘ تم
میرے پیٹ میں تھے۔ خوشیا اس خبر سے مسرور تھا لیکن میں اس کی نہ ہو سکی۔
صابر مجھے یہاں لے آیا۔ خوشیا بھی یہاں آ بسا۔ وہ فقط تمہارے لیے یہاں آیا
اور تمہیں دیکھ دیکھ کر زندہ رہا۔
اماں اس سے آگے کچھ نہ کہہ سکی اور میں بھی اس سے آگے کچھ نہ سن سکتا تھا۔
پہلے اماں کو چپ لگی تھی‘ اس کے بعد مجھے چپ لگ گئی۔ زمین سے کیا‘ موجود
ڈھیر سارے رشتوں سے میرا رشتہ ٹوٹ گیا تھا۔ میں آج اس سرزمین پر زندگی گزار
رہا ہوں‘ جو سرے سے میری نہیں۔ میری ان رشتوں سے ملاقات ہوتی ہے‘ جو میرے
نہیں ہیں۔ کسی سے کیا کہوں‘ کیا بتاؤں۔ میں بھی اپنے حقیقی رشتے کے ساتھ
بدقسمتی اور شناخت سے محروم لحد میں اتر گیا ہوں۔ خوشیے کا میں تھا‘ مگر
میرا یہاں کون ہے؟ ماں منوں مٹی تلے‘ اپنے من کا بوجھ ہلکا کرکے جا سوئی
ہے۔
میں کس سے اپنی کہہ کر‘ من کا بوجھ ہلکا کروں؟ بیوی سے۔۔۔۔۔۔ اپنے بچوں
سے؟! سابقوں کی بوچھاڑ‘ مجھ سے یہ مردہ اور بےنشان سانسیں بھی چھین لے گی۔
سوالوں کے بہت سے دائرے میرے گرد جگہ بنا لیں گے۔ میرے جعلی رشتے‘ جھوٹ کا
ساتھ بھی چھوڑ جاءیں گے۔ کچھ بھی سہی‘ میں اپنی نسلی نسبی اور علاقائی
شناخت جان چکا ہوں۔ میں جبل پور کا رئیس زادہ ہوں۔ میرے باپ دادا نام و
مقام والے تھے۔ بدقسمتی مجھے چوتھے درجے کے لوگوں میں لے آئی‘ ورنہ ایسے تو
ہمارے کمی کمین ہوتے ہوں گے۔
کاش‘ میں کسی سے یہ سب کہہ پاتا۔۔۔۔۔۔ کاش میری موت کے بعد‘ میری قبر کے
لوح پر کندہ کر دیا جائے۔۔۔۔۔ نواب زادہ نوید عمر ولد نواب خوشی محمد جبل
پوری۔
11-7-1974 |