غلام شبیر
اس دنیا میں ہر انسان کا کسی نہ کسی گدھے سے ضرور پالا پڑتا ہے ۔اس لیے
انسان کو گدھے کی سرشت سے روشناس کرانا تحصیل حاصل کی ناقابل ِ برداشت کوشش
ہے ۔اس عالمِ آب و گِل میں گدھوں کی کہیں قلت نہیں ۔اس عالم ِ آب و گِل کے
آبلہ پا مسافر جب ایک گدھے کو ڈھونڈنے نکلتے ہیں تو راہ میں ہزارہا خر ہر
طرف خراماں خراماں اپنی رُو سیاہی اور جگ ہنسائی کا عملی نمونہ پیش کر رہے
ہوتے ہیں ۔اس دنیا کے آئینہ خانے میں گدھے کو آئینہ دکھانا جوئے شیر لانے
اور خود کو تماشا بنانے کے مترادف ہے ۔گدھے کو انگوری باغ ،سبز باغ ،حلوے
پُوری اور کستوری یا گُل قند اور نصائح و پند کے بارے میں کوئی امتیازی بات
سمجھانا بھینس کے آگے بین بجانے اور لفاظ حشرات سخن کا ٹینٹوا دبانے کی
سعیء ناکام ہے ۔ماہرین علم حیوانات نے گدھوں کی نسل کے آغاز و ارتقا کے
بارے میں صدیوں کی تحقیق کے بعد جو نتائج اخذ کیے ہیں ان سے شپرانہ چشم
پوشی ممکن نہیں ۔دنیا میں کئی قسم کے گدھے پائے جاتے ہیں ۔ان میں سے دو
ٹانگوں والے گدھے ،چار ٹانگوں والے گدھے ،باربرداری کے لیے استعمال ہونے
والے گدھے ،ناز برداری پر مامور گدھے ،جفا کار گدھے ،ریا کار گدھے ،عیار
گدھے ،مکار گدھے ،معذور گدھے ،مقہور گدھے ، مغرور گدھے ،مفرور گدھے ،اڑیل
گدھے ،سڑیل گدھے ،فربہ گدھے ،چربہ گدھے اور طفیلی گدھے زیادہ مشہور ہیں ۔جب
سے نقار خانے میں گدھوں کی ڈھینچوں ڈھینچوں کی آواز گونجنے لگی ہے کہیں بھی
طُوطی کی آواز سُنائی نہیں دیتی ۔جہاں کرگس حشم ،طوطا چشم اور موقع پرستوں
کی پانچوں گھی میں ہوں وہاں اہل ِ درد کی جان پہ بن آتی ہے اور وہ قبر میں
پاؤ ں لٹکائے سانس گن گِن کر زندگی کے دِن پُورے کر نے پر مجبور ہو جاتے
ہیں ۔سوشیالوجی کے ماہرین کی متفقہ رائے ہے کہ زمانے کے حالات بڑی تیزی سے
بدل رہے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے طویلے کے ہر جھمیلے اور ہر بلا کے پسِ پردہ
مہا گدھوں اُن کے بچوں ،چُغد ،مہا اُلّو اور اُلّو کے پٹھوں کا خُفیہ ہاتھ
ہوتا ہے ۔کھنڈرات اور جنگلات میں جنگل کے قانون کی ایک ہی لاٹھی تھامے تمام
چوپایوں کو بالعموم اور خچروں ،گھوڑوں اور گدھوں کو بالعموم ہانک کر من
مانی کرنے والے مشکوک نسب کے ان خربانوں نے اصطبل اور طویلے کے پُورے منظر
نامے کووقفِ ظلمات، پائمال اور خوار و زبوں کر کے جنگلی حیات کی اُمیدوں
اوراُمنگوں کا خون کر دیا ہے ۔
گدھا باربرداری کے لیے استعمال ہونے والے جانوروں میں سب سے زیادہ بوجھ
اُٹھاتا ہے ۔اسے گدھا گاڑی میں جوت کر سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل
کیا جاتا ہے ۔پس ماندہ علاقوں میں گدھے اور گدھا گاڑی پر انسان بھی سفر
کرتے ہیں ۔گدھا گاڑی کو کئی مقامات پر مریضوں کو شفاخانے پہنچانے کے لیے
ایمبو لنس کے طور پر بھی استعما ل کیا جاتا ہے ۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ گدھا
گاڑی کو کھینچنے والے گدھے کو شدید تنہائی کا احساس ستانے لگتا ہے جس کی
وجہ سے گدھے کی رفتار اور کار کر دگی کا معیار کم سے کم تر ہو تا چلا جاتا
ہے ۔ایسی صورت میں خر بان گدھا گاڑی کو کھینچنے والے مہا گدھے کے دائیں اور
بائیں جانب لگے بانسوں کے ساتھ اس کے ہم زباں گدھے باندھ دیتا ہے ۔مہا گدھے
کا رمز آشنا خر شناس اور مشّاق خر بان یہ کوشش کرتا ہے کہ کسی چھوٹی سی
گدھی کو بانس کے ساتھ باندھ دیا جائے جسے پخ کہتے ہیں ۔ بار برداری میں پخ
کا سرے سے کوئی کام ہی نہیں۔مہا گدھے کے ساتھ دوڑ کر اس کا حوصلہ بڑھانا پخ
کی ذمہ داری ہے ۔مہا گدھا جب پخ کو دیکھتا ہے تو اُس کے جذبات میں ایک ہلچل
سی پیدا ہو جاتی ہے ۔وہ حُسن و رومان کی ایک خیالی دُنیا میں پہنچ جاتا ہے
اور اپنے اندر ایک ولولہء تازہ محسوس کرتا ہے ۔پخ کے ساتھ سر گوشیاں اور خر
مستیاں کرتا ہوا مہا گدھا ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے گزرنے کی ٹھان لیتا
ہے۔ وہ اس فریب ِ حقیقت میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ وہ اب تنہا نہیں رہا ، بل
کہ اب اُس کے راز داں ہم جنس اس کے شانہ بہ شانہ مصروف ِ خر مستی ہیں جو اس
کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر اور پیہم ہنہنا کر چل رہے ہیں ۔ جذبات کے لاوے
سے سُلگتے مہا گدھے کو کیا معلوم کہ پخ کے جذبات تو یخ بستہ ہیں۔وہ تو محض
وقت گُزارنے کی خاطر ناچار اُسے جُھوٹی تسلیاں دینے پر مامور ہے ۔جب مہا
گدھا دن بھر کی مشقت کے بعد گدھا گاڑی سے الگ ہوتا ہے تو پخ کا کہیں اتا
پتا نہیں مِلتا۔اس طرح مہا گدھا ایک طویل اور صبر آزما تنہائی کا وار سہنے
کے لیے دُم دبا کر ہنہنانے اور دولتیاں جھاڑ کر داغ ِ فرقت کو سہلانے لگتا
ہے۔
میرے پڑوس میں گھاسفو نامی ایک متفنی فلسفی رہتا ہے جس کی جعل سازی نے اُسے
پُورے علاقے میں تماشا بنا دیا ہے ۔اُس کی ایک ہی منطق ہے کہ اس معاشرے میں
حمار آخر زیرِ بار کیوں ہیں ؟ وہ ایک تنظیم کا بانی ہے جس کا نام ’’انجمن
تحفظ ِ حقوق ِ حمار‘‘ ہے ۔اس کا سیکرٹری بدنام سمگلر تُلا کمھار اور سر
پرست فجا چمار ہے ۔ اس نا م نہاد انجمن کے دیگر اراکین میں رنگو اُٹھائی
گیرا،تارو گھسیارا، گھونسہ پتھارے دار ،اکّی بھتہ خور ،عارو صبح خیزیا اور
ڈھڈوکُٹنی شباہتی شامل ہیں۔ گھاسفو جس اصطبل میں رہتا ہے وہیں اس انجمن کے
اراکین کا ماہانہ اکٹھ ہوتا ہے اور اراکین کے راتب بھاڑے کا انتظام شباہتی
کے ذمے ہوتا ہے۔محکمہ اِمدادِ بے رحمی ء حیوانات کے کئی سیاہ کار اس انجمن
کے کام میں مشاورت کرتے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ گھاسفو کے علاوہ باقی سب
عہدے دار نمائشی اور محض خانہ پُری کے لیے ہیں ۔عملی طور پر گھاسفو ہی اس
تنظیم کا کرتا دھرتا ہے اور وہی روسیاہ انجمن کے سیاہ و سفید کا مالک ہے ۔یہ
تنظیم تو در اصل کوئلوں کی ایک دلالی کی صُورت ہے جس میں گھاسفو کا بد وضع
اور کریہہ چہرہ اس کے اندر کی سیاہی کی وجہ سے شبِ تاریک کا بھیانک منظر
پیش کرتا ہے ۔ سادیت پسندی (Sadism)کے مرض میں مبتلا گھاسفو ایک ایسا بد
اندیش ہے جو مسلسل خلقِ خدا کے درپئے آزار اور اہل کمال کے درپئے پِندار
رہتا ہے ۔ اسے ایک ہی فلم ’’ انسان اور گدھا ‘‘ پسند ہے ۔یہ سوچ کر اس کے
سینے پر سانپ لو ٹنے لگتا ہے کہ فلم ساز نے اپنی فلم میں گدھے کا مرکزی
کردار ادا کرنے کے لیے اُسے منتخب کیوں نہ کیا ۔حالانکہ ایک مہا گدھے کی
حیثیت سے ہر جگہ اُس شُوم کے گدھے پن کی دُھوم مچی ہے ۔خود نمائی کا رسیا
اور اپنے منہ میاں مٹھو بننے والا مشکوک نسب کا یہ مخبوط الحواس ،فاتر
العقل جنسی جنونی حسیناؤں کے جُھرمٹ میں راجہ اِندر بن کر خوب ہنہناتا ہے
اور جو کوئی اس مسخرے کے قبیح کردار پر تنقید کرے تو نتھنے پھیلا کر اور
دولتیاں جھاڑ کر اُس کے پیچھے پڑ جاتا ہے ۔ یہ جب بھی چلتا ہے تو دو طرفہ
ندامت اور پُوری آبادی کی ملامت اس کا تعا قب کرتی ہے ۔کبھی کبھی گلشن ادب
میں بھی منہ مار لیتا ہے اور شعر و شاعری کی جُگالی کر کے اپنااُلّو سیدھا
کر کے سادہ لوح لوگوں کو کج روی پر مائل کرتا ہے ۔اس بگلا بھگت اور جو فروش
گندم نما مسخرے نے تو تمام رُتیں ہی بے ثمر کر دی ہیں ۔اس نے ہر صنف ادب
میں عالمی کلا سیک کی بھونڈی نقالی کو وتیرہ بنا رکھا ہے ۔ اپنی بے سر وپا
باتوں اور شاعری کی وجہ سے یہ مُو ذی سدا مردود ِخلائق ہی رہا ہے ۔اس کی
ہئیتِ کذائی دیکھتے ہوئے کسی نے سچ کہا ہے کہگدھا چلا شُتر کی چال ،اپنی
چال بھی بُھول گیا ۔گزشتہ روز اس نے یہ اشعار سنائے ا ور کہا کہ یہ شعر اس
کے حسبِ حال ہیں۔
ملی شراب تو مٹکے چڑھا گیا اک خر ہوئی پٹائی تو سینگ ہی گنوا گیا اِک خر
ڈھینچوں بھی عجب اس کی خر مستیاں بھی کمال میری ہی طرح کا مجھ میں سما گیا
اک خر
گھاسفو اکثر پریوں کے اکھاڑے میں راجہ اِندر بن کر شعر وشاعری پر ہاتھ صاف
کرتا ہے ۔ادب اور فنونِ لطیفہ کے ساتھ اُس کی دلچسپی محض نمائشی نو عیت کی
ہے ورنہ اس کثیف بے ادب کا ان لطیف اصناف سے دُور کا بھی واسطہ نہیں۔
داناؤں کا کہنا ہے کہ اپنے ابنائے جنس کے ساتھ قلبی لگاؤ انسان کی فطرت اور
جبلت میں شامل ہے ۔یہ خرادی مُرادی خرِ نا مُشخص اپنا خروار اُٹھانے کی
صلاحیت سے تو عاری ہے لیکن اپنی خُرجی لیے دوسروں کے معاملات میں ٹانگ
اڑانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے ۔ یہ اس قدر خُرّانٹ ہے کہ جیب کتروں کی
بھی جیب کاٹ لیتا ہے ۔گدھوں کے ساتھ اس کی والہانہ محبت کے پسِ پردہ بھی اس
کی فطری جبلت کا ر فرما ہے ۔ اس متشاعر نے اپنی مو ضوعاتی شاعری میں گدھوں
کے موضوع پر بے بصری اور کو ر مغزی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے خرِ قلم کی
ہذیانیاں دکھائی ہیں ۔اس کی شاعری چوری اور سینہ زوری کی قبیح مثال ہے
۔کہیں کہیں تحریف کا گُماں گُزرتا ہے لیکن اس کے با وجود طبیعت اس کی تعریف
پر مائل ہی نہیں ہوتی ۔ا س چربہ ساز ،سارق اور کفن دُزد کے سہو قلم کے چند
نمونے پیش ہیں ۔
کوئی ہذیانی سی ہذیانی ہے اسپ کو دیکھ کے خر یاد آیا
یہ آرزو تھی تجھے خر کے رو بہ رُو کرتے ہم اور استر ِ بے آب گفتگو کرتے
گدھا سمجھ کے وہ چُپ تھا میری جو شامت آئی بڑھا اور بڑھ کے لتّے میں نے
فِیل باں کے لیے
سمجھ کے رکھیوقدم دشتِ عار میں رنگو کہ اِس خرابے میں حمار روسیاہ بھی ہے
گدھے کھولے ہوئے چلنے کو سب کمھار بیٹھے ہیں سبھی روتے گئے باقی جو ہیں غم
خوار بیٹھے ہیں
اکّی کے جو بالیں پہ ہوا شور ِ ملامت جلاد پُکارے کہ ابھی مار پڑی ہے
وہ لوگ جن پہ باطن ایام ظاہر ہے خُوب جانتے ہیں کہ گھاسفو ایک آزمودہ کار
خر ہے ۔اس خر کار نے ہر وقت اپنے بد وضع جذام زدہ اور کوڑھی جسم پر خر خرہ
پھیرنا وتیرہ بنا رکھا ہے ۔ایک شام یہ متفنی ہنہناتا ہوا ایک کھنڈر سے
نمودار ہوا ۔میرے پاس بیٹھے سب لوگ اسے دیکھ کر لاحول پڑھنے لگے ۔ اُستاد
منظور نے جب اس نا ہنجار کو دیکھا تو گلو گیر لہجے میں اﷲ کریم سے دعا کی
’’جل تُو جلا ل تُو ، آئی بلا کو ٹال تُو ۔‘‘اس کے باوجود یہ بلائے نا
گہانی نہ ٹل سکی اور گھاسفو نے اپنے عفونت زدہ چوڑے نتھنے(جن میں سے میلی
رطوبت پیہم خارج ہوتی رہتی ہے ) پھیلاتے ہوئے اور زور سے ہنہناتے ہوئے کہا
:
’’اس بے کیف دیار میں میرا دل نہیں لگتا ،میں لندن جانا چاہتا ہوں ۔وہاں کے
شاہی کالج کی رومان پرور فضا کی یادیں ہر وقت میرے دل میں چُٹکیاں لیتی
رہتی ہیں ۔ میرے دل کی دھڑکنیں اُس وادیء جمیل کی سر سبز و شادب سیر گاہوں
اور چراگاہوں کے حضور آداب پیش کرنے کے لیے بے تاب ہیں ۔ جہاں سب مست بندِ
قبا سے بے نیاز ایک دوسرے میں سما جانے کے لیے ہمہ وقت بے تاب رہتے تھے
۔یہاں تو کوئی حا ل ہی نہیں ،سب کچھ بے کار ہے ۔نہ مے نوشی نہ غسل آفتابی
نہ رقص و سرود اور نہ جنس و جنون ۔ توبہ توبہ !یہ شہر ہے یا زندان ، بازار
ہیں یا قبرستان ،میرا تو یہاں دم گُھٹ رہا ہے ۔‘‘
اُستاد منظور نے اس ابلہ کی لاف زنی سُن کر کہا:’’یہ تو اچھی خبر ہے کہ تم
شہر سے جا رہے ہو ،چلو خس کم ، جہاں پاک ۔ایک بات تو بتاؤ کہ کیا لندن میں
گدھے نہیں پائے جاتے ؟ بعض لوگوں کا تو یہ خیال ہے کہ مغربی تہذیب نے جس
فحاشی اور عریانی کو عام کر دیا ہے اس کے باعث دیارِ مغرب کا پورا معاشرہ
ایک طویلہ بل کہ ایک گدھیلا سا بن کر رہ گیا ہے ۔ وہاں فہم و فراست ،شرم و
حیا تہذیب و معاشرت اور زندگی کی درخشاں روایات اور اقدار ِ عالیہ کو کو خر
دماغ عیاشوں نے بارہ پتھر کر دیا ہے ۔جس حمام میں اکثر سفید خر پہلے سے
عریاں ہیں وہاں ایک اور کالے خر ِبے دُم کا اضافہ ہو جائے گا ۔سب خراباتی
مل جائیں گے۔‘‘
’’وہاں تو بہت فربہ اور سفید گدھے پائے جاتے ہیں نہ کہ پس ماندہ ممالک کے
گدھے کہ جن کی خارش زدہ سیاہ چمڑی سے کالک جھڑتی ہے ۔‘‘رنگو بولا ’’مہا
گدھے !اعلا نسل کے گدھے جو بار برداری اور ناز برداری میں اپنی مثال آپ ہیں
۔ گھاسفو یہاں اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر گدھے کے مانند کام کرتاہے اس کے
با وجود اس کی معاشرے میں کوئی قدر و منزلت نہیں۔سب لوگ اسے ابن الوقت ،مفت
خور اور لیموں نچوڑ سمجھتے ہیں ۔ دنیا میں سب سے پہلے خر شماری کی تجویز
گھاسفو نے پیش کی لیکن اس وطن میں اس کی آواز پر کسی نے توجہ نہ دی ۔ یہی
وجہ ہے کہ اس نے ترکِ وطن کی ٹھان لی ہے،اب وہ عالمی سطح پر خر شماری کے
لیے کام کرے گا ۔ ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ میرے ہمدمِ دیرینہ
گدھا منش گھاسفو کے ترک وطن اور لندن جانے سے تمھارے پیٹ میں مروڑ کیوں
اُٹھ رہے ہیں ؟اس نے لندن سے ابتدائی تعلیم مکمل کی اور ایک بڑی ڈگری بھی
وہاں سے لی مگر یہاں تو کوئی اس کی پذیرائی کرنے پر آمادہ ہی نہیں ۔یوں
لگتا ہے کہ سب کی زبان پر آبلے پڑ گئے ہیں ۔‘‘
اُُستاد منظور نے پیچ و تاب کھاتے ہوئے کہا :’’سچ ہے گدھے کو ایک گدھا ہی
اچھی طرح کُھجا سکتا ہے ۔قحط الرجال کے موجودہ دور میں ذہنی افلاس کا یہ
عالم ہے کہ جاہل کو اس کے جہل کا انعام ملنے لگا ہے اور جعلی ڈگریوں کی ہر
طرف لُوٹ سیل لگی ہے انگوٹھا چھاپ جیّد جاہل رواقیت کے داعی بن بیٹھے ہیں ۔
عقابوں کے آشیانوں میں زاغ و زغن،کرگس ،بوم اور شپر گھس گئے ہیں۔گلشن میں
جہاں پہلے سرو و صنوبر اور گلاب و یاسمین کی فراوانی ہوتی تھی اب وہاں حنظل
،پوہلی ،زقوم ،کریر،بھکڑا اور اکڑا اُگ رہا ہے ۔گھاسفو عطائی جیسے جنسی
جنونی اورراسپوٹین کے لیے یقیناًلندن ایک موزوں ترین جگہ ہے ۔ سچ تو یہ ہے
کہ گدھے کی جتنی بھی دُھلائی یا دُھنائی کر لی جائے وہ کسی صورت میں بچھڑا
نہیں بن سکتا۔خر کو خواہ خربوزے کھلاؤ یا حنظل ، اُس کا راتب جو ہو یا جوار
اُسے بھوک و ننگ کا ڈر ہو یا توپ و تفنگ کا اندیشہ اُس کی خر مستی میں کوئی
فرق نہیں آتا۔زمانہ لاکھ ترقی کے مدارج طے کرتا چلا جائے گدھے کا اسپ بننا
بعید از قیاس ہے ۔گدھا اپنی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہے ،برسات ہو یا موسم کی
سوغات گدھے کا گدھا پن اس کے لیے ہلاکت خیزی کا پیغام لاتا ہے ۔ بلاد شرق
میں تو گدھے کو حلوہ کھلانے والے کی تواضع دولتیوں ہی سے ہوتی ہے البتہ
یورپ میں گدھے کے منہ میں خُشکہ ڈالنے والے کور مغز اقربا پرور کثرت سے
پائے جاتے ہیں ۔سُناہے وہا ں تو گدھا ،گھوڑا ،خچر اور استر سب کو ایک ہی
کھونٹے سے باندھا اور ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جاتا ہے ۔یورپ کے بعض گدھے تو
اس قدر فربہ ہوتے ہیں کہ لاٹھی بھی ان کی کاٹھی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ۔ایک
سُپر طاقت نے تو ہاتھی اور گدھے کو انتخابی نشان کا درجہ دے رکھا ہے ۔اب یہ
عوم کی مرضی ہے کہ وہ اپنی قیادت کے لیے ہاتھی کو منتخب کریں یا گدھے کو
اپنا قائد تسلیم کریں ۔‘‘
گھاسفو ناک میں اُنگلی ڈالے اب تک سب باتیں سُن کر محض کان ہِلا رہا تھا
اچانک کفن پھاڑ کر ہرزہ سرائی پر اُتر آیا اور منہ سے جھاگ نکال کریوں
ہنہنایا’’ میں گدھوں کی کردار کُشی پر چُپ نہیں رہ سکتا ۔گدھے تاریخ عالم
کے اہم واقعات کے امین ہیں اسی لیے تو یہ بے حدگُربہ مسکین اور غمگین ہیں
۔کسی نے سچ کہا تھا کہ جنت سے جب شیطان کو نکالا گیا تو وہ گدھے پر سوار ہو
کر وہاں سے باہر آیا ۔قیامت سے قبل جب دجال نمودار ہو گا تو وہ بھی ایک خر
پر سوار ہو گا ۔کون ہے جِسے حضرت عیسیٰ کے مشہور گدھے کے بارے میں علم نہ
ہو ۔ اپنی سواری کے لیے حضرت عیسیٰ نے گدھے کو پسند فرمایاجو کہ گدھے کی
اہمیت کی دلیل ہے ۔گدھا گنگا نہائے یا لنکا ڈھائے،روم جلائے یا اینٹ سے
اینٹ بجا کر دل دہلائے ، ہر حال میں گدھا ہی رہتا ہے ۔ گدھے کی مستقل مزاجی
مُسلمہ ہے اس سے متاثر ہو کر میں نے اپناقلمی نام حمار منتخب کیا ہے ۔ مہم
جوئی کا ہر فرمان اور جاہ و حشمت کی ہر داستان تاریخ کے طومار وں میں دب
جائے گی لیکن کوئی بھی مورخ حمار کی اہمیت کو کبھی نظر انداز نہیں کر سکتا
۔میرے آبا کا سات پُشتوں سے گھاس کھودنے پر مدار تھااسی لیے مجھے پیارسے
گھاسفو کہا جاتا ہے ۔ اس آبادی کی پہلی گدھا گاڑی میرے پردادا نے بنائی تھی
۔وہ خادمِ خلق پُورے علاقے کا کُوڑا کرکٹ اور کچرا اپنی گدھا گاڑی پر لاد
کردُور ایک سنسان جنگل میں گِرا آتا تھا۔ میرے دادا کو محلے کی صحت و صفائی
کا اس قدر خیال تھا کہ وہ گلیوں سے مُردہ کُتے گھسیٹ کر دُور ویرانے میں
پھینک آتاتھا۔ صحت و صفائی کی اس انتھک خدمت کے عوض انھیں محض دو وقت کی
روٹی ملتی تھی اور وہ اسی پر قناعت کر تے تھے ۔میرے دادا کو شاہی دربار سے
خر شناس کا لقب ملا تھا ۔بے لوث خدمت کا یہ معیار اب کہاں ،اب تو اس بستی
میں ہر طرف گدھوں کے ہل پِھر چُکے ہیں ۔آج تو المیہ یہ ہے کہ جس طرف نظر
دوڑائیں زاغ و زغن نے حمار کی نسل پر عرصہ ء حیات تنگ کر رکھا ہے ۔حمار اور
حمار بان کی نا قدری نے لرزہ خیز اور اعصاب شکن صورت اختیار کر لی ہے ۔یہ
حالات دیکھ کر مُجھے تو گدھوں بُخار چڑھ جاتا ہے ۔میرے پُرکھوں نے گدھوں کو
پالا اور اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر گدھوں پر اجناس لاد کر دساور کو
بھیجیں۔بھنگ ،حشیش ،افیون اور دوسری نشہ آور ادویات کی تجارت سے دولت کمائی
لیکن اب تو ہم لوگوں پر بہت کڑا وقت آ گیا ہے ۔سچ تو یہ ہے :
استر پِھریں ہیں خوار کوئی پُو چھتا نہیں اِس چاکری میں شہرتِ حمار بھی گئی
‘‘
’’اونہہ !اس مخبوط الحواس اور فاتر العقل خبطی کا قلمی نام حمار ہے ‘‘
اُستاد منظور نے غصے سے کہا ’’شکل و صور ت سے تو تم چمار لگتے ہو ۔گدھا
ہمیشہ گدھا ہی رہتا ہے خواہ وہ لندن کی یاترا کر آئے یا واشنگٹن کی گلیوں
میں دُم رگڑ کر واپس آئے ۔جو اپنے وطن میں گدھے ہیں وہ دیار ِ غیر میں بھی
مہا گدھے ہی ثابت ہوتے ہیں ۔گدھے کا ماس رکھنے والوں کو یہ حقیقت فراموش
نہیں کرنی چاہیے کہ اجنبی معاشرت میں سب لوگ سنگِ ملامت لیے نکل آتے ہیں
اور کُتے کے دانت سے اُن کو کاٹ کر رکھ دیتے ہیں ۔مادر وطن کے لیے جو خر
ننگ و عار کا باعث بنتے ہیں انھیں تو مر جانا چاہیے ۔‘‘
ڈھڈو کُٹنی شباہتی بھی گھاسفو کی تلاش میں اچانک وہاں آ دھمکی ،گھاسفو کی
داشتہ کی حیثیت سے سب لوگ اس رذیل طوائف اور نا ئکہ پر تین حرف بھیجتے تھے
۔ اس رذیل طوائف نے متمول طبقے کے عیاش جنسی جنونیوں کے لیے رسد کے
انتظامات سنبھال رکھے تھے ۔وہ گدھیڑی اپنے آشنا اور محرمِ راز گھاسفوکے
خلاف ہونے والی باتوں پر کھسیانی بلی کی طرح کھمبا نوچتے ہوئے بولی :
’’استاد منظور تم گدھے کو آدمی بنانے کے فن میں تویکتا ہو لیکن گھاسفو گدھے
کو باپ بنانے میں اپناثانی نہیں رکھتا۔تمھاری ساری زندگی جن گدھوں پر
کتابیں لادنے میں بیت گئی وہ تو موٹروں پہ اُڑ رہے ہیں اور تمھارے احسان
فراموش شاگرد تم جیسے مصلحتِ وقت سے نا آشنا اُستادوں کو گدھوں پر چڑھوانے
کی فکر میں ہیں ۔ تم گدھوں کو سکھانے کی دُھن میں بے تکان مگن ہو مگر تم یہ
بھول گئے کہ گدھوں کی ضیافت کا شمار نہ تو پاپ میں ہوتا ہے اور نہ ہی پُن
میں ۔تمھاری فغانِ صبح گاہی اور آہِ نیم شبی تعلیم و تربیت میں گزری لیکن
اس کا صلہ تمھیں کیا ملا ؟ تمھاری کُٹیا کی قسمت نہ جاگی ،خر کے شر سے تم
بچ نہ سکے ۔‘‘
’’گدھا مرے کمھار کا اور ڈُومنی ستی ہو !‘‘اُستاد منظور نے ترکی بہ ترکی
جواب دیا’’کان کھول کر سن لو شباہتی !میں کسی خر دماغ کی ہذیاں گوئی سے دل
برداشتہ نہیں ہوتا۔ اپنی کُٹیا کی بے سروسامانی پر مجھے ناز ہے،پرائی چُپڑی
دیکھ کر میرا جی نہیں للچاتا۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ حمار کو زعفران کی
بہار سے کوئی غرض نہیں ہوتی ۔اس کے باوجود بُو م ،شپر اور کرگس پر سنگ زنی
وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔بلا وجہ کڑیالا چبانے کی ضرورت نہیں ۔یاد رکھو
دُم کٹے گدھے جب اپنی ہئیت کذائی سے گھبرا کر اپنی دُم کی تلاش میں در بہ
در اور خاک بہ سر پِھرنے ،سرابوں میں بھٹکنے ،متعفن جوہڑوں اور گھاٹ گھاٹ
کا پانی پینے اور کُوڑے کے ڈھیروں کو سُو نگھنے کے اور خاک چاٹنے کے بعد بے
نیلِ مرام لو ٹتے ہیں تو ان پر یہ راز کُھلتاہے کہ اس سعیء رائیگاں میں وہ
اپنے کانوں سے بھی محروم ہو چُکے ہیں۔‘‘
’’تم نے ہمیں غلط سمجھ رکھا ہے،شباہتی نے اپنے منہ سے نکلنے والا جھاگ
اُگلتے ہوئے کہا ’’میں مغل بادشاہ جہاں دار شاہ کی ملکہ لال کنور کی پڑ
پوتی ہوں،زہرہ کنجڑن میری پڑ دادی کی مصاحب تھی ۔اور یہ گھاسفو نعمت خان
کلاونت کا نواساہے ۔تاریخ سے تم لوگ کورے ہو اس لیے بتانا ضروری ہے کہ نعمت
خان کلا ونت جہاں دار شاہ کے عہد میں ملتان کا صوبے دار تھا۔‘‘
’’کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا ،بھان متی نے کنبہ جوڑا۔‘‘ اُستاد منظور نے
تحمل سے کہا ’’جن ننگ انسانیت لوگوں کا نام منہ چھپا کر لینا چاہیے تم اپنا
بھاڑ جیسا منہ پھاڑ کر ان سے ناتہ جوڑ رہے ہو ۔ جس قماش کے لوگوں کو سر
جُھکا کر چلنا چاہیے وہ یوں سر اُٹھا اور ڈھٹائی سے اپنی بے غیرتی ،بے
ضمیری اور بے حیائی کی داستانیں سنا کر داد طلب ہوں ،تُف ہے ایسی سوچ پر ۔
دنیا جانتی ہے کہ نعمت خان کلاونت نے اپنی بہن رذیل طوائف لا ل کنور کو
سیڑھی بنا کر منصب تک رسائی حاصل کی اور لال کنور کی شریکِ کار زہرہ کنجڑن
اُس سے بھی دو ہاتھ آگے تھی ۔اگر تم لوگوں کا ان رسوائے زمانہ بے ضمیروں سے
ناتہ ہے تو پھر تو تمھیں چُلّو بھر پانی کی اشد ضرورت ہے تا کہ تم اُس میں
ڈُوب کر اس بے وقعت زندگی سے نجات حاصل کر سکو اور دھرتی کابوجھ بھی کم ہو
سکے ۔‘‘
’’بہت ہو چُکی ! اب یہ کہانی ختم ہو کر رہے گی !‘‘ گھاسفو نے دولتی جھاڑ کر
کہا’’اب میں اس منظو ر ماسٹر سے اچھی طر ح نپٹ لوں گا ۔میں نے گدھے کا لباس
پہن رکھا ہے لیکن اندر سے میں بھیڑیا ہوں ۔یہ شباہتی ایک ناگن ہے جس کاڈسا
پانی بھی نہیں مانگتا۔میں خان ہوں ۔۔۔ہاہا ۔۔ہاہا میں نعمت خان کلاونت کی
اولاد ہوں ۔چنگیز خان اور ہلاکو خان ہمارے مورث ِ اعلا تھے ۔‘‘
’’کان کھول کر سن لو اُستاد منظور ! اب تمھارا جانا ٹھہر گیاہے ،تم صبح گئے
کہ شام گئے ‘‘شباہتی نے غراتے ہوئے کہا’’ تم نے ہمیں گالیاں دی ہیں اب
تمھیں ہمارے انتقام سے کوئی نہیں بچا سکتا۔شہر کے بڑے بڑے رئیس ہماری ایک
جھلک دیکھنے کے لیے جُو تیاں چٹخاتے پھرتے ہیں۔ہمارے پاس بہت سے راز ہیں
۔میرے ایک اشارے پر میرے پر ستار تمھاری تِکا بوٹی کر دیں گے ۔اب میں
دیکھوں گی تم ہمارے خلاف زبان کیسے کھولتے ہو۔تمھاری زبان گُدی سے کھینچ لی
جائے گی اور تمھیں عبرت کی مثال بنا دیا جائے گا۔‘‘
اُستاد منظور نے کہا’’ چھاج تو بولے مگر چھلنی کیوں بولے جس میں ہزاروں
چھید ہیں ۔منشیات اور خرچی سے کالا دھن سمیٹ کر تم لوگوں نے کئی گھر بے
چراغ کر دئیے ہیں ۔لوگ تمہارے ظلم سے عاجز آچکے ہیں۔ میں تمھاری خُرافت سے
ہراساں نہیں ہو سکتا،میں ہر ظالم پہ لعنت بھیجتا ہو ں۔میرا سر کٹ تو سکتا
ہے لیکن یہ جُرم اور ظُلم و جور کے سامنے جُھک نہیں سکتا۔ میں نے زندگی بھر
مسموم ہواؤں کا مقابلہ کیا ہے ۔میری داستانِ حیات کا حرف حرف صداقتوں کا
مظہر ہے ۔تمھاری کتابِ زیست کا ورق ورق تمھاری بد اعمالیوں سے لبریز ہے
۔کُوڑے کے ڈھیر سے جاہ و منصب کے استخواں چُننے والے سگان ِ راہ کی عف عف
مُجھ جیسے گدا کی زندگی اور رزق میں کمی کا باعث ہر گز نہیں بن سکتی ۔تم
جیسے نو دولتیے یہ بات کبھی فراموش نہ کریں کہ کسی محل کی منڈیر پر بیٹھ
جانے سے کرگس عقاب نہیں بن جاتا،بلند و بالا نخل ثمر دار کی کھوہ میں بسیرا
کرنے سے چُغد کبھی سُرخاب نہیں بن جاتا اسی طرح کالا دھن کما کر خسیس کسی
صورت میں رئیس نہیں کہلا سکتا ۔مجھے اپنے خدا پر کامل یقین ہے کہ وہ مجھے
ہر خناس کے شر سے بچائے گا۔‘‘
گھاسفو ،رنگو اور شباہتی نے اس کے بعد استاد منظور کو بے تحاشا گالیاں دیں
اور بُڑ بُڑاتے ہوئے اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے ہوئے وہاں سے رفو چکر
ہو گئے ۔اُستاد منظور نے پُر نم آنکھوں سے یہ سب کچھ بر داشت کر لیا اور ان
منشیات فروشوں ،دہشت گردوں اور رسوائے زمانہ جنسی جنونیوں کی ہر بے ہودہ
بات سُنی ان سُنی کر دی ۔میں نے اُستاد منظور کو گلے لگا لیا اور اس کی
ڈھارس بندھائی ۔میں اس معمر استاد کو پنے ساتھ لے کر اُس کے گھر پہنچا ۔وہ
بہت دل برداشتہ تھااور اُس کا جسم بھی تپ رہا تھا۔
گھاسفواور اس کے ساتا روہن فطرت کی سخت تعزیروں سے غافل ہو چُکے تھے۔گھاسفو
کا اصطبل عقوبت خانے ،چنڈو خانے اور قحبہ خانے میں بدل چکا تھا۔یہاں منشیات
فروشوں،اُجرتی بد معاشوں اور جرائم پیشہ دہشت گردوں نے مستقل ڈیرے ڈال رکھے
تھے ۔ گھوڑوں ،گدھوں اور خچروں کے ساتھ رہتے رہتے و ہاں کے ہر مکین کی خُو
بھی خر جیسی ہو چُکی تھی۔گھاسفو کے پاس کالے دھن کی فراوانی تھی ۔وہ ایک
ایسے مافیا کا مہرہ تھاجس کے ہاتھ بہت لمبے تھے اس کا تعلق بیرونِ ملک مقیم
سماج دُشمن عناصر سے بتایا جاتا تھا ۔ میں اپنے والد کے علاج کے سلسلے میں
ایک ماہ شہر سے باہر رہا ۔جب میں گھر آیا تو معلوم ہوا کہ کینہ پرور گھاسفو
نے اُستاد منظور پر حملہ کیا ۔استاد منظور سڑک پر پیدل جا رہا تھاکہ ناصف
کھبال نے اسے اپنی تیز رفتار کار کے نیچے کُچل دیا اور اس کی کار فراٹے
بھرتی ہوئی ٹریفک کے ہجوم میں غائب ہو گئی۔استاد منظور کو شدید زخمی حالت
میں نزدیکی ہسپتال میں پہنچایا گیا۔معالجین کی سر توڑکوششوں سے استاد منظور
کی جان تو بچ گئی لیکن اس حادثے نے اس کو جسمانی اعتبار سے بے حد کم زور کر
دیا اور اس کا گھر سے باہر نکلنا بھی ممکن نہ تھا ۔میں جب اس سے ملنے گیا
تو اس کے الفاظ کی ترنگ اور دبنگ لہجہ نا پید تھا ۔اس نے آسمان کی طرف دیکھ
کر کہا کائنات کے خالق کے ہاں دیر تو ہو سکتی ہے لیکن اندھیرکا تصور ہی
گناہ ہے ۔میری داد رسی ضرور ہو گی ۔‘‘ اُستاد منطور کو گہری سوچوں میں گُم
چھوڑ کر میں گھر کی جانب چل پڑا ۔میں بہت دل گرفتہ تھا اور یہ سوال بار بار
ذہن میں آرہا تھا کہ نا معلوم کیوں قادرِ مطلق نے گھاسفو جیسے فرعون کے
عرصہء حیات کو طول دے رکھا ہے ۔ با ضمیر اور انسانیت کے لیے فیض رساں انسان
بے بسی کے عالم میں گوشہ نشین ہوتے چلے جا رہے ہیں اس کے بر عکس کالی
بھیڑیں ،سفید کوے ،گندی مچھلیاں اور وہ گدھے جو ناک ،کان اور دُم تک کٹو ا
چُکے ہیں سرِ عام دندناتے پھرتے ہیں اور مفید نہالوں کو جڑ سے اُ کھاڑ کر
اپنے پیٹ کا دوزخ بھرنے میں لگے ہیں۔اس قماش کے گدھوں نے تو لُٹیا ہی ڈبو
دی ہے ۔
جھنگ میں ہر سال میلہ سنگ کے موقع پر شہر میں گدھا گاڑیوں کی ایک دوڑ کا
اہتمام کیا جاتا ہے ۔ اس دوڑ میں ہر قماش کے خر بان بڑھ کر اور گدھے پر چڑھ
کر حصہ لیتے ہیں ۔سیکڑوں گدھا گاڑیاں یہاں آتی ہیں ۔جتنی گاڑیاں اتنے گدھے
اور جتنے منہ اتنی باتیں ۔ سال 2006میں بھی اسی قسم کی ایک گدھا گاڑی دوڑ
کے انعامی مقابلے کا اہتمام کیا گیا ۔شہر کے مضافات اور دور دراز کے علاقوں
سے متعدد خربان ،خر شناس گدھوں کے معالج ،عطائی ،رمال ،نجومی،تماشائی
،گدھوں کے شیدائی اور گد ھا پال اکٹھے ہوئے ۔ اس بار دھرتی کا بوجھ گھاسفو
اور اس کے ساتا روہن ہی اس کے کرتا دھرتا تھے ۔گدھا گاڑیوں کی اس دوڑ کا
مقامِ آغاز جھنگ شہر کا حفاظتی بند تھا اور مقام اختتام تریموں ہیڈ ورکس
تھا۔اسی مقام پر طویل مسافت سے نڈھال اور سُست روی کا شکار دریائے جہلم
اپنے خفیف وجود کو دریائے چناب کی پُر شور طوفانی لہروں کے سپرد کر کے
بحیرہ عرب تک دریائے چناب کا حصہ بن جاتا ہے ۔تریموں سے آگے صرف دریائے
چناب ہی باقی رہ جاتا ہے ۔دو دریاؤں کے سنگم کے مقام پر بے شمار نہنگ پائے
جاتے ہیں ۔ یہاں کے مقامی باشندے اس جگہ کو آسیب زدہ قرار دیتے ہیں۔ کوئی
ملاح یاکشتی بان اس طرف کا رخ نہیں کرتا ۔اسی جگہ سے رنگ پور نہر نکالی گئی
ہے جو ہیر کے سسرالی شہر رنگ پور کھیڑے کو سیراب کرتی ہے ۔ رانجھے کو جب
رنگ پور کھیڑے سے شہر بدر کیا گیا تو وہ اپنی حباب کی سی ہستی اور سراب کی
سی کائنات سے بیزار ہو گیا ۔گُمان ہے کہ اس نے بھی کچھ عرصہ یہاں ایک
خَرگاہ میں قیام کیا تھا ۔اس جگہ پر ایک دریائی سیر گاہ ہے جہاں دنیا بھر
سے بڑی تعداد میں سیاح کشتی رانی ،مہم جوئی و سیاحت ،سیرو تفریح ا ور حسن و
رومان کی داستانوں کے اوراق کی باز دید اور چشمِ غزال کی تیر اندازی سے
گھائل ہونے کے لیے آتے ہیں ۔ یہاں سے ملنے والا خَر مُہرہ جوگیوں،سیلانی
سادھوؤں اور فقیروں کو بہت پسند ہے ۔ کئی شکاری یہاں کُنڈیاں لگا کر بیٹھ
جاتے ہیں اور لاوے کے طمع میں مچھلیاں اُن کی کُنڈیوں میں پھنس جاتی ہیں
۔اس جگہ پر دریا ئے چناب سے کُنڈی لگا کر پکڑی جانے والی تازہ مچھلی کے
کباب تیار کیے جاتے ہیں جو یہاں کی خاص سوغات ہے ۔ ان کاذائقہ گھڑے یاجوہڑ
کی گندی مچھلیوں سے بہت اچھاہوتا ہے ،اس لیے بیرونی سیاح ان تازہ مچھلیوں
کے متلاشی رہتے ہیں ۔صدیوں سے یہ داستان زبان زدِ عام چلی آ رہی ہے کہ اس
مقام پرہر سال ایک کشتی غرقاب ہوتی ہے اور اس کشتی کے مسافر نہنگوں کا
لقمہء تر بن جاتے ہیں ۔
دسمبر کی ایک خنک صبح تھی ۔خون منجمد کر دینے والی سردی اور شدید دھند کے
باوجود ایک سو کے قریب گدھاگاڑیاں مقابلے میں شریک ہوئیں۔خربان اپنے گدھوں
پر کوڑوں کی طرح پے در پے چابک اور چھانٹے برسا رہے تھے ۔سر پیٹتے خربانوں
کے تابڑ توڑ تازیانے کھا کر گدھے سر پٹ دوڑ رہے تھے ۔سب تماشائیوں کی یہ
متفقہ رائے تھی کہ گدھوں کو پیار اور شفقت بھرا سلوک کبھی راس نہیں آتا ۔
بُھوکے گدھے زیادہ تیز دوڑتے ہیں ،اس لیے گدھوں کو پیٹ بھر کر راتب و چارہ
دینے سے گریز کرنا چاہیے ۔گدھے ڈنڈے کے مُرید ہوتے ہیں ،اس لیے گدھوں پر
مشق ستم جاری رکھنااز بس ضروری ہے ۔ جب بھی گدھے اپنے حقوق یا راتب کی بات
کریں،ان پر لٹھ لے کر ٹُوٹ پڑنا چاہیے تا کہ گدھے اپنی اوقات میں رہیں ۔جب
گدھوں پر کوئی کوہِ ستم ٹُو ٹتا ہے تو وہ زیادہ مستعدی کے ساتھ بار برداری
میں لگ جاتے ہیں ۔سہ پہر قریب تھی یہ بیس میل لمبی دوڑ اپنے اختتام کو
پہنچی ۔اس سال گھاسفو کے پالتو گدھوں نے پہلی تینوں پوزیشنیں جیت لیں
۔گھاسفو اور اس کے خر بان ٹرافیاں اور انعام جیت چکے تھے ۔دوڑ کے بعد
دریائے چناب میں سیر کے لیے کشتی رانی اور ضیافت کا انتظام بھی تھا ۔ پتن
پر موجود سو کے قریب کشتیاں تماشائیوں سے بھر گئیں ۔ خوشی کے اس موقع پر
شراب اور شباب کے تمام انتظامات کے ساتھ گھاسفو اور اس کے ساتا روہن بھی
ایک کشتی میں سوار ہو گئے ۔کشتیاں دریائے چناب کی طوفانی لہروں پر ہچکولے
کھاتی ہو ئی تیرنے لگیں ۔ خوشی ،حیرت اور سکون کے ملے جُلے جذبات سب چہروں
پر نمایاں تھے ۔ملاح نہایت سکون کے ساتھ چپو چلا رہے تھے اور دریا کی
اُٹھتی ہوئی لہروں سے اپنی اپنی کشتیوں کو بہ حفاظت دوسرے کنارے تک لے جانے
کی کوشش کر رہے تھے۔دریا کے دوسرے کنارے پر ایک سیر گاہ تھی جہاں قیام و
طعام کا خاطر خواہ بندو بست تھا۔کشتیوں کے اکثر مسافر تو دریا کی سیر کے
دوران ہی رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے سب استعاروں سے لطف اندوز ہونے میں
مگن تھے ۔ایک کشتی سے مے خوار وں کی جانب سے شراب کی خالی بو تلیں مسلسل
دریا میں پھینکی جا رہی تھیں۔ اس کشتی میں سوار سب مست خر اور طوائفیں بندِ
قبا سے بے نیاز ہو کر ایک دوسرے میں سما گئے تھے اور انھوں نے شرم و حیا کو
دریا بُرد کر دیا تھا ۔ ان کی یہ خر مستیاں اس حد تک بڑ ھ گئیں کہ دوسری
کشتیوں کے مسافروں نے شرم سے سر جھکا لیے اور توبہ استغفار کا وِرد شروع کر
دیا۔ پُر اسرار طور پر اس خاص کشتی کا رُخ دریا کی منجدھار کی جانب ہو گیا
۔مشّاق ملاح نے کشتی میں موجود جنسی جنونیوں کو خطرے سے خبر دار کیا لیکن
کسی نے اس کی بات پر کان نہ دھرے ۔اچانک وہی کشتی دریا کے ہول ناک گرداب
میں بُری طرح پھنس گئی اور دریا کی تیس فٹ کے قریب اونچی مہیب طوفانی لہر
نے کشتی کو نگل کر ہمیشہ کے لیے غرقاب کر دیا۔ گرداب کا رخ نہنگوں کے مر کز
کی طرف تھا۔اسی کشتی میں رذیل طوائفیں ، گھاسفو ،اس کے ساتا روہن سوار تھے
۔ |