کوئلہ سے بجلی ۔۔کچھ شکوک کچھ شبہات

کوئلے سے6000میگا واٹ تک بجلی بنا کر پنجاب کو فراہم کرناحکومت پنجاب کا ایک نہایت احسن اور قابل تحسین اعلان ہے گو کہ یہ پروجیکٹ 3سے5سال تک مکمل ہو گامگر ایک نسل کو یہ مستفید کرے گا۔مگر اس کے ساتھ ساتھ اس پراجیکٹ میں کچھ شکوک و شبہات اور اندیشے بھی جنم لے رہے ہیں جن کا تعلق پنجاب حکومت سے کم جب کہ پاکستان سے زیادہ ہے۔

پہلااندیشہ صوبائیت کا ہے ۔لوڈشیڈنگ کسی ایک صوبے کا مسئلہ ہے نہ کسی ایک شہر کا بل کہ اس کی وجہ سے پوراپاکستان ہی شدید اذیت کا شکار ہے ۔مذکورہ بالا پروگرام چوں کہ ایک صوبہ کے لیے ہے تو صوبائیت کا قیاس کیا جاسکتا ہے ۔ یہ قیاس دوسرے صوبوں کو احساس کم تری میں مبتلا کر سکتا ہے جو ابھی بھی دوسرے صوبہ کے عوام محسوس کرتے ہیں ۔

دوسرا یہ کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس منصوبے کے بارے میں بتایا کہ کوئلہ دوسرے ممالک سے لیا جائے گا اور اُسی کوئلہ سے بجلی پیدا کی جائے گی۔اس سے تو ہم کبھی کبھی اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہو سکتے۔کوئلے سے بجلی پیدا کرنا قابل تحسین قدم ضرور ہے مگر دوسرے ممالک سے کوئلہ لے کر بجلی بنانا قابل تحسین قدم نہیں ہے کیوں کہ یہ وہی انحصار ہے جس کی وجہ سے ہم آج ان گنت مسائل کا شکارہیں۔

ٹھیک ہے مان لیتے ہیں کہ پاکستانی کوئلہ اتنا مناسب نہیں کہ اتنی زیادہ بجلی پیدا کر سکے مگر اُس باہر والے کوئلے سے بہت اچھا ہے جس کی وجہ سے ملک خداداد پاکستان کا بڑا سرمایہ بھی غیر ممالک کو جائے اور جس کی عمر کابھی نہیں پتا۔

تیسرا یہ کہ660میگاواٹ بجلی تو حکومت پنجاب پیداکرے گی جب کہ باقی بجلی نجی شعبہ کی شراکت سے بنائی جائے گی۔نجی شعبہ کی شراکت اگر کرپشن سے پاک ہوتو پھر یقینا خوش کن بات ہے مگر کیا ماضی وحال میں نجی شعبہ کی شراکت سے ہونے والی ڈیلنگ کتنی اور کہاں تک کرپشن سے پاک ہوئیں۔رینٹل پاور پلانٹ بھی حکومت نے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے لیے نجی شعبہ کی شراکت سے لیے تھے مگر کیا ہوا؟ مہنگی ہی سہی کیا بجلی کسی فرد کو ملی؟

اس پراجیکٹ میں یقینا خدشات ہیں مگر ایک خدشہ صوبائی تعصب کا بہت خطرناک ہے ۔مجھے یاد ہے کہ ایک کام کے سلسلہ میں جب ایک دوسرے صوبہ میں جانا پڑا تو10منٹ کے کام کے لیے مجھے دو دن اس لیے خوار ہونا پڑا کہ میرا تعلق اس صوبے سے نہیں ہے۔اگر میں پہلے دن ہی یہ بتا دیتا کہ میں انھی کہ صوبے سے تعلق رکھتا ہوں تو وہ کام میرا کام10نہیں تو20منٹ میں ضرور ہو جاتا اور ساتھ ساتھ مجھے دوسرے صوبے کا شہری ہونے کا طعنہ نفرت آمیز نگاہوں سے نہ ملتا۔

ہوسکتا ہے کہ صوبائی خودمختاری کو استعمال کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب نے یہ پراجیکٹ شروع کرنے کا ارادہ کیا ہو مگر میرا جہاں تک اندازہ ہے یہ صوبائی خودمختاری پچھلی حکومت کے دور میں بھی تھی اور تب بھی پنجاب میں وہی وزیر اعلیٰ تھے جو اب ہیں۔لیکن تب5سالہ دور میں بجلی پیداواری متعلق کوئی پراجیکٹ نہ شروع کیا گیا اور نہ ہی کوئی تگ و دو کی گئی ۔اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سرا سر مرکزی حکومت کو ناکام کرنے کے لیے تب ایسے پراجیکٹ نہ شروع کیے گئے جب کہ اب اس طرح کے پراجیکٹ شروع کرنے سے مراد یہی ہے کہ مرکزی حکومت کو کامیاب کرنا یا کامیا ب کہلوانا۔

وزیر اعلیٰ صاحب نے کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی پچھلی حکومتوں پر تنقید کی کہ پاور کرائسسز کے بارے میں سنجیدگی سے کام نہیں کیا گیا۔بجا فرمایا گیا ہے مگر انھیں یہ بھی یاد ہونا چاہیے کہ پچھلی حکومت میں پنجاب انھی کہ پاس تھا ان کا منصب اور اختیارات بھی وہی تھے جو اب ہیں اور جن کو استعمال کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ صاحب نے پنجاب میں بجلی، پیداواری کا پروجیکٹ شروع کیا۔ہاں مرکزی حکومت ضرور تبدیل تھی مگر باقی اختیارات وہی تھے جو اب ہیں وزیر اعلیٰ صاحب کی یہ تنقید یقینا بے تکی تنقید ہے جس کا نشانہ ان کی اپنی پچھلی حکومت ہی بنتی ہے۔

اسی تنقید سے مجھے یا د آیا کہ چند دن پہلے ایک وزیر صاحب جب اپنے آبائی علاقے میں گئے تو وہاں ان کے چاہنے والوں نے سر عام ہوائی فائرنگ کی جو قانونی طور پر تو یقینا جرم ہے مگر ان کے چاہنے والوں کو قانونی چھوٹ دی گئی جب ان چاہنے والوں کے وزیر سے اس معاملہ میں پوچھا گیا تو وہ بولے میرے چاہنے والے کچھ نادانوں نے یہ قدم اٹھایا۔

ہنسی اس پر آئی کہ انھوں نے نادان کہہ کر اپنے چاہنے والوں پر تنقید تو کر دی مگر انھیں شاید یہ ادراک نہیں کہ انھی نادانوں کی وجہ سے اسمبلی تک پہنچے اور پھر وزارت پربرجمان ہوئے۔

خیر بات کوئلہ سے بجلی پیداواری کی چل رہی تھی جس کا فیصلہ حکومت پنجاب نے کر ہی لیا ہے مگر یہ حروف کاغذ کی زینت بنتے بنتے ایک اور اطلاع بھی ملی کہ بھارت سے بجلی لانے کا کام شروع ہو چکا ہے۔ابتدائی طور پر300سے500 میگا واٹ تک بجلی درآمد کی جارہی ہے۔جو لاہور میں استعمال کی جائے گی۔ویسے ہم نے تو یہی پڑھا ہے سنا ہے اور تھوڑا بہت جانا بھی ہے کہ پاکستان کے صنعتی شہروں میں فیصل آباد اور سیا لکوٹ نمایا ں ہیں لیکن لاہور کو روشن رکھنے کی منطق تھوڑی سمجھ سے بالا تر ہے حالاں کہ وہ بھی پنجاب کے علاقے ہیں۔شاید کہ لاہور وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم صاحب کا شہر ہے شاید یہ پنجاب کا دارلخلافہ ہے شاید لاہور ہی پنجاب ہے۔

Nusrat Aziz
About the Author: Nusrat Aziz Read More Articles by Nusrat Aziz: 100 Articles with 86085 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.