زرعی تجارت میں پاکستان اور ہندوستان کے تحفظات

زراعت کی تجارت عالمی تجارت میں بلاشک و شبہ ایک بہت ہی متنازعہ اور زیر بحث مسئلہ ہے، تاہم، یہ بہت شاذو نادر ہوتا ہے کہ زراعت دو ممالک کے بیچ تجارت میں آضافہ کی طرف ایک رکاوٹ کا باعث بنے۔ جب بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت کا موضوع زیر بحث آتا ہے تو عام خیال یہی ہوتاہے کہ سیاست معیشت پر سبقت لے جاتی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو معمول پر لانے کے لے لیے کوئی بھی کوشش غیر متوقع اور نازک سیاسی تعلقات کا شکار ہوجاتی ہے۔ دسمبر 2012 میں پاکستانی حکومت کی طرف سے انڈیا کو سب سے پسندیدیدہ ملک (MFN) کا درجہ دینے کا فیصلہ بارڈر پار جھڑپوں کی وجہ سے کٹھائی میں پڑ گیا۔ لیکن، سیاسی کشیدگی ہی صرف اس کی وجہ نہیں تھی، پاکستان میں ذرائع نے بھارت کو MFN کا درجہ دینے میں تاخیر میں اہم کردار ادا کیا ہے، جن کا یہ دعوی تھا کہ بھارت کی طرف سے رعایتی اور سستی زرعی مصنوعات پاکستانی کسانوں اور دیہی آبادی کی قیمت پر پڑے گی۔ یہ مختصر تجزیہ زراعت کے شعبے میں چیلنجوں اور تجارت کے مواقعوں کی شناخت کرنے کی ایک کوشش ہے۔

زراعت کی اہمیت دونوں پاکستان اور بھارت کے لیے جتنی اہم سمجھی جائے اتنی کم ہے۔ یہ شعبہ دونوں ممالک کے لیے GDPاور روزگارکے ان گنت مواقع فراہم کرتا ہے۔ آبادی کے لحاظ سے بھارت کی زرعی پیداوارپاکستان سے پانچ گنا زیادہ ہے لیکن پھر بھی اہم فصلوں میں پاکستان کی فی کس پیداوار بھارت کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔ دونوں ممالک کے جغرافیائی علاقوں میں زرعی پیداوار کی ساخت میں کافی مماثلت ہے، لیکن کئی اختلافات کے باوجود بھی تجارت کے مواقع تخلیق ہوتے ہیں۔ جہاں پاکستان نے گزشتہ چند سالوں میں مویشیوں میں اضافہ ہوا ہے وہاں بھارت زراعت پر مختلف قسم کی بائیو جینیٹکس کو گود لینے کے باعث کپاس کی پیداوار پچھلے دس سالوں میں تین گنا بڑھی ہے۔ لیکن شاید دونوں ممالک کے زراعت کے شعبوں میں سب سے اہم فرق ان کی متضاد حکومتی پالیسی ہے۔

آزادی کے بعد بنیادی طور پر بھارت کا ہدف اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کو خوراک فراہم کرنا تھا اور اس مقصد کے حصول کے لیے زراعت میں مداخلت کی حکومت کو برقرار رکھا ہے۔ حکومت 24 فصلوں پر قیمت میں کمی دیتی ہے اور دوسری طرف اعلی اوسط ٹیرف کی شرح کا اطلاق برقرار رکھتی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان نے کم سے کم ریاست کی مداخلت کے ساتھ زراعت کے شعبے کو آزاد کردیا ہے، اس کی وجہ سے سبسڈی اور قیمت میں کمی ہو جاتی ہے۔ پاکستان کے زرعی شعبے کے نقطہ نظر سے حکومتی پالیسی میں فرق ہونے کی وجہ سے ناہموار میدان بن جاتا ہے، جس کی وجہ سے سبسڈی، کاشت کے اختیارات کا بگڑنا اور تجارت کے حجم کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

اس کے برعکس کہ پاکستان نے MFN کا درجہ نہیں دیا اور بھارت کو منفی فہرست میں برقرار رکھا ہے، دونوں مجموعی طور پر زرعی اور تجارتی توازن ابھی بھی کافی حد تک بھارت کے حق میں ہے۔ بھارت سے بڑی زراعت کی درآمد بہتر چینی، کپاس اور حال ہی میں تازہ سبزیاں ہیں۔ دوسری طرف گزشتہ دو سالوں کے دوران بھارت کے لیے پاکستان کی اہم زرعی درآمد خشک کھجور رہی ہے (47.2 ملین ڈالر)۔

یہ بات اس چیز کی ضامن ہے کہ زرعی مصنوعات میں مقابلہ ہونا پاکستان کے لیے بھارت کو برآمدات میں کافی مواقع فراہم کر سکتا ہے۔ کئی مختلف مطالعے سے اس بات کا انکشاف ہوا ہے۔ پاکستان ہاتھی پھل، آم ،خوبانی، آڑو، زیتون، مچھلی اور اس کی مصنوعات میں سب کے مدمقابل ہے۔ یہ مصنوعات بھارتی بازاروں میں اپنی طرف متوجہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مزید برآں بھارت اپنی بڑی آبادی کے ساتھ ویلیو ایڈڈ ذرائع عمل درآمد ،تازہ اور محفوظ کھانا، دودھ کی مصنوعات، جوس اور سبزیوں کی درآمد کے لیے کئی وسیع مواقع فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ مخصوص درآمد مارکیٹ کے مواقع، شاہکاری، ہلال، کوشراور نامیاتی مصنوعات کے لیے بھی ماحول بہت سازگار ہے۔

پاکستان کے زرعی شعبہ کو بھار ت کے ساتھ صلاحیت کا احساس کرنے کے لیے یہ بات بہت اہم ہے کہ مارکیٹ تک رسائی کے معاملے میں دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارتی مذاکرات کیے جائیں۔ عالمی تجارتی تنظیم WTO کی جیب سے دی گئی زرعی سبسڈی اور اس کے کسانوں کی حمایت، بھارتی حکومت کاگھریلو مسئلہ ہے۔ اس بات کا زیادہ امکان نہیں ہے کہ بھارت مستقبل میں دی گئی سبسڈی کی فراہمی کو کم کرے گا۔ لہذا مختصر مدت میں جس چیز کی پاکستان کو فوری ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اس کے زرعی سامان پر لاگو MFN ٹیرف اور زرعی NTB پر گفت و شنید کی جائے۔ بھارتی مارکیٹ کا پاکستان کے لیے ہموار ہونا۔ زرعی لابی کو قابوکرنے میں ایک اہم عمل ہوگا۔

کچھ عرصہ سے زراعت اور پروسیسڈکھانے کی اشیاء کے لیے دونوں ممالک میں سرمایہ کاری کی بہت کوششیں کی گئی ہیں۔ اس بات کو جانتے ہوئے کہ دونوں حکومتوں کی جانب سے آزادانہ سرمایہ داری کو فروغ دیا جارہا ہے۔ اسی طرح تجارت اور مشترکہ منصوبوں میں ممکنہ گنجائش ہے جیسا کہ بیج او رزرعی آلات۔ اس کے علاوہ پانی کی کمی اور بدلتے موسم کو مدنظر رکھتے ہوئے دونوں ممالک کو اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ان کے درمیان پانی کے مسائل کو حل کیا جائے اور پانی کو ایک مشترکہ وسائل کے طور پر سمجھا جائے۔ آخر میں بھارت اور پاکستان دونوں کے علاقوں میں زیادہ سے زیادہ پائیدار زرعی ترقیوں کے لیے ٹیکنالوجی کی منتقلی کے وسائل کو مضبوط بنانے کے لیے روابط منظم کرنے چاہییں۔

Dr S M Turab Hussain
About the Author: Dr S M Turab Hussain Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.