یہ وائرس انسانوں اور جانوروں کیلئے خطرناک نہیں اور تیس
ہزار سال تک برف میں منجمند رہنے کے باوجود زندہ تھا۔ اگرچہ یہ پیڈورا
وائرس سے مشابہہ ہے لیکن اس کے جینوم اور خود کی نقل کرنے کے انداز کو
دیکھتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ یہ پیڈورا وائرس سے بہت مختلف ہے۔
|
|
ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق جب الیکٹرون مائیکروسکوپ ( خردبین) سے اس کا
جائزہ لیا گیا تو یہ ڈیڑھ مائیکرو میٹر لمبا اور نصف مائیکرومیٹر چوڑا نظر
آیا۔ تیس ہزار سال سے خوابیدہ یہ وائرس اب تک دریافت ہونے والے سب سے بڑا
وائرس بھی ہے۔ واضح رہے کہ مائیکرومیٹر کا مطلب ہے ایک میٹر کے دس لاکھواں
حصہ۔
اسے فرانس اور روس کے ماہرین نے دریافت کیا ہے۔ اس وائرس کی تفصیلات تین
مارچ 2014 کو نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کی پروسیڈنگز میں شائع ہوئی ہے۔
یہ وائرس ایک طرح کے امیبا کو متاثر کرسکتے ہیں اور ان میں ایڈز، اور
انفلوئنزا وائرس کے مقابلے میں جین کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے یعنی اس کا
جینوم یا تو بیکٹیریا کے برابر ہے یا پھر اس سے بھی بڑا ہے۔
اس پیتھو وائرس کا امیبا کے اندر اپنی تعداد بڑھانے کا طریقہ بھی بہت دلچسپ
ہے اور اس کی تعداد بڑھنے کا عمل کسی متاثرہ خلیے کے سائٹو پلازم کے اندر
ہوتا ہے ( یعنی نیوکلیئس سے باہر) یعنی کسی ایسے وائرس کی طرح جس کا ڈی این
اے بڑا ہوتا ہے۔
|
|
مزید مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ اسی طرح کے اب تک دریافت ہونے والے وائرس
سے اس کا دور کا واسطہ بھی نہیں۔ یہ ایک نئی وائرس فیملی کا اکلوتا رکن ہے۔
اس مطالعے سے مزید معلوم ہوا ہے کہ وائرس مستقل برف میں ڈھکے ہوئے علاقوں
میں ہزاروں سال تک بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔ عوامی صحت کے لحاظ سے دیکھا جائے
تو کان کنی اور توانائی کے منصوبوں میں ڈرلنگ اور کھدائی میں احتیاط کی
جائے کیونکہ سوئے ہوئے وائرس جاگ سکتے ہیں اور سب سے بڑھ کر نئے وائرس بھی
نمودار ہوسکتےہیں۔ اب پائھتو وائرس محض سائنس فکشن فلموں کا موضوع نہیں
رہے۔
|