خودکار گاڑی، ربوٹ گاڑی، ڈرون گاڑی۔۔۔ آپ انہیں جو بھی
کہیں، خود چلنے والی کوئی نہ کوئی گاڑی آپ کے قریب کسی شو روم میں آنے ہی
والی ہے۔
بی بی سی نے اپنی شائع کردہ ایک دلچسپ رپورٹ میں لکھا ہے کہ اس میں چند سال
یا چند دہائیاں لگ سکتی ہیں مگر جنیوا کے موٹر شو میں شریک کچھ ہی لوگ اس
سے اختلاف کریں گے کہ ایک دن یہ سائنس فکشن کا خیال حقیقت بننے کو ہے۔
|
|
ادھر گوگل، بی ایم ڈبلیو، فورڈ اور آئی بی ایم جیسی کمپنیاں اس ٹیکنالوجی
پر کام کر رہی ہیں، اس بات پر زیادہ غور نہیں کیا جاتا کہ اس سب کا مسافروں
کے لیے کیا معنی رکھتا ہے۔
سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھنے والا گاڑیوں سے متعلق تھینک ٹینک ’رن سپیڈ‘ نے
کوشش کی ہے کہ مستقبل کے اس وژن کو ایک شکل دی جائے۔ ان کی گاڑی ’ایکس چینج‘
کی جنیوا کے موٹر شو میں نمائش کی جا رہی ہے۔
رن سپیڈ کے بانی اور چیف ایگزیکیٹیو فرینک رنڈرنیٹ کا کہنا ہے کہ ’میں
چاہتا تھا کہ اس گاڑی کا محور مسافر ہو نہ کہ خود کار ٹیکنالوجی۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’خود کار گاڑی میں سفر کرنے کا اب یہ مطلب نہیں ہوگا کہ
میں سڑک پر گھورتا رہوں بلکہ اب میں اپنا وقت زیادہ معنی خیز انداز میں
گزار سکوں گا۔‘
|
|
’سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا میں وہ سب کرنا چاہوں گا جو کچھ میں ٹرین یا جہاز
پر سکتا ہوں؟‘
رن سپیڈ نے چار سیٹوں والی ایک آرام دہ گاڑی لے کر اس میں ایسی تبدیلی کر
دی ہے کہ وہ اندرونی طور پر کسی پرائیویٹ جیٹ جہاز جیسی لگنے لگی ہے۔
انہوں نے یہ سب تبدیلیاں کسی نئی گاڑی میں نہیں بلکہ ایک عام گاڑی ٹیسلہ
الیکٹریک کار ماڈل ایس میں کیں ہیں۔
فرینک رنڈرنیٹ کہتے ہیں کہ ’ظاہر ہے کہ کسی وین یا لیموزین میں یہ سب کرنا
زیادہ آسان ہوتا۔‘
اس گاڑی کی سیٹیں گھوم سکتی ہیں، سلائیڈ کر سکتی ہیں اور 20 مختلف پوزیشن
میں آ سکتی ہیں۔ ان کو گھما کر آپ گاڑی میں لگا 32 انچ کا ٹی وی بھی دیکھ
سکتے ہیں۔
گاڑی کا سٹیئرنگ گاڑی کے وسط میں لایا جا سکتا ہے تاکہ معلومات اور تقریحی
نظام تک باآسانی رسائی ہو سکے۔
|
|
گاڑی کے ڈیش بورڈ میں دو ایل سی ڈی لگی ہیں جن کے ذریعے انٹرنیٹ پر جایا جا
سکتا ہے، ای میل چیک ہو سکتی ہیں اور ویڈیو کانفرنس ہو سکتی ہے۔
اس گاڑی کے تمام عناصر دنیا سے ریئل ٹائم معلومات اور کلاؤڈ سروسز میں
منسلک ہیں۔
فرینک رنڈرنیٹ اس میں ایک کافی مشین بھی لگانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
اگرچہ ’ایکس چینج‘ ابھی تجرباتی مراحل میں ہے، رن سپیڈ نے پہلے سے قائم
ٹھیکداروں کے ساتھ مل کر اس نمونے کو حقیقت میں تبدیل کیا ہے۔
فرینک کہتے ہیں کہ یہ انتہائی مزے دار شرارتی سی گاڑی ہے جو کہ انتہائی
مہنگی ہے۔ ’مگر یہاں ہمارا مقصد یہ نہیں کہ آپ لائٹیں بند کریں اور فلم
دیکھنے بیٹھ جائیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ خود کار گاڑیاں آ جانے سے گاڑی
چلانے کا فن ختم نہیں ہو جائے گا۔ کبھی کبھی مالکان خوف میں گاڑی چلانا
چاہیں گے۔‘
|
|
’گاڑی چلانا زیادہ تر انتہائی غیر دلچسپ ہوتا ہے۔ اگر آپ لندن سے برمنگھم
جا رہے ہوں تو مزہ نہیں آتا۔ مگر اگر آپ پہاڑوں پر چل رہے ہوں تو میں نہیں
چاہتا کہ مشین گاڑی چلائے، میں خود چلانا چاہتا ہوں۔‘
رن سپیڈ گاڑیوں کے ڈیزائن میں بہت ترقی کر رہی ہے۔ کمپنی اس سے قبل زیرِ آب
چلنے والی گاڑی بھی بنا چکی ہے۔ |
|