ادب ، ادیب ، تعلیم اورعصر حاضر

جب ظلمت قلبِ ملعو ن سے نکل کر گھر گھر ، گھر کر لے ، مومنوں کی شمشیریں اور اُمت کی تدبیریں عوام کی تقدیریں نہ بدل سکیں ، سر ِ راہ غریب لُٹ جائیں ، امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھتا جائے اور ہر سو ویرانی اور بے اطمینانی کی فضاء پھیل جائے تو ایسے میں ادیبوں کے قلم سے نکلی روشنا ئی ملت کی پسپائی کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جاتی ہے ۔ تنزلی اور انحطاط درد ِ دل بنتا ہے اور ادیب کے فرائض میں یہ بات شامل ہوجاتی ہے کہ وہ اس درد کو خامہ کی تحریک کا موجب بنا لے ۔ عوام کے درد کو محسوس کرے اور مظلوموں کےدل میں دھبے نالوں کو زبان بخشے ۔ ایسی زبان جو اربابِ اختیار کی تحسین و توقیر اور جعلی تعظیم کی بجا ئے تعمیری تنقید بنے اور امراء و حا کم کے ارواح کو جھنجھوڑ ڈالے ۔ اور یہ سلسلہ تب تک ادیبوں اور نقادوں کا شعار رہے جب تک کہ سیاست ، عبادت نہ بن جائے ،برائی چھوٹ جا ئےاور بھلائی عادت نہ بن جائے ۔

یہ شکوہ ہمیں اکثر رہتا ہے کہ زمانہ نفسہ نفسی کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ بھا ئی ، بھا ئی کا دشمن اور رقیب بن رہاہے ۔ خون سفید ہو گیا ہے ، دوست لائق اعتبار نہیں ،کوئی بھی آج کی دنیا میں با کردارنہیں ۔ اُستاد اپنے فرائض سے نہ آشناء ہے اور طالب علم عزت اور آداب ِ معاشرت بھول چکا ہے ۔ مگر ہم بشمول ہما رے آمر نما جمہوری حکمران شاید اس امر کو توجہ طلب اور فکر انگیز نہیں سمجھتے ، شاید وہ اس عجیب تغیر کو محسوس نہیں کرتے جو انسانی عضاء کے ٹکڑوں کی صورت میں سڑکوں پر بکھرا پڑا آئے دن ملتا ہے جو دن اور رات میں ہردم لٹنے کے خوف کی صورت میں ہر دل کو گھیرے ہوئے ہے ۔ وہ تغیر جو محبت بھی مادی فائدے کے لیے کرتا ہے وہ تغیر جو پیسےکی عزت اور سفارش کی آب یاری ، بد عنوانی کی سینچائی ، انفرادی مفاد کی پذیرائی اور بد اخلاقی کی بڑھا ئی کرتا ہے وہ تغیر جس کو تغیر ِ مسرت میں تبدیل کرنے اور ترقی کا چرچا کرنے میں بظاہر ہر کو ئی سرگر م ِ عمل نظر آتا ہے ۔ جس کو ختم کرنے اور امن کابول بالا کرنے کے لیے کوئی مذاکرات کی دیوار سے سر ٹکراتا ہےتو کوئی آپریشن کی تدبیر بتا تا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ آ ج کی حالت جس کا سامنا ہم سب کو ہے اس کی وجہ کیا ہے ؟ آ خر ان تغیرات کی حققت کیا ہے ؟ پیسے سے محبت اور انسان سے بیزاری کیوں ہے ؟ ادیب اور مصنف کیوں روش ایمان کو بھول کر جیب کی فکر میں مبتلا ہے ؟

جب علم عالموں کے سینے سے نکل کر قلم کی زبانی کاغذوں کے انبارمیں تبدیل ہو جا ئے ، حصول ِ علم اخلاق کی بہتری کی بجائی کمائی کاذریعہ بن جائے، کردار کی بجا ئے خوشا آمدی سے لپٹی اور لالچ سے آلودہ گفتار سے خوشی کا سامان میسر آنے لگے اور انسان ، انسان کو بھلانے لگے تو محبت کا پنچھی بیابانوں کا ساکن اور نفرت کا درندہ آبادیوں کا رُخ کرتا ہے ۔نتیجتاً راہ میں سرخی ٔ گل نہیں ملتی ، دلوں میں عزت ِ انسانی اور بھلائی کی کلی نہیں کھلتی بلکہ یہ سُرخی بشر کے لہو کی صورت میں راہوں کو خوف بخشی ہے اور کلیا ں خار ہوجا تی ہیں۔ امن باٹنے والی پریاں سو جا تی ہیں۔ جس کی وجہ سے یاس ، نا اُمیدی اور دہشت عام ہوتی ہے ۔ پڑھی لکھی جہالت پھیل جا تی ہے اور ہر قلب کو تاریک اور ہر جگر کو خون کرتی جا تی ہے ۔

قصہ مختصر جب افراد کے تعلیمی نصاب میں اخلا قیات ، عمرانیات ، شہریت اور مذہب کی جگہ اختیاری اور مادی علوم کی جا ٔ لازمی ہو جا ئے تو یہ معیوب نہیں کہ انسان کا گلا انسان پیسے کی وجہ سے کا ٹ ڈالے، مذہب کی پرچون جیب کی سیر شکمی کرے اور بم اجسام کو پاش پاش کر ڈالے ۔ پھر گلہ کیا جو بونا ہے وہی کا ٹنا ہے ، جو پڑھا ؤ گے ویسا ہی چلن طلبہ میں پاؤ گے ۔ میں ہرگز مادہ کی تعلیم اور سائنس کی تشہر میں رکاوٹ پیداکر نے کو نہیں کہ رہا مگر توازن اور ترتیب کی سفارش ضرور کررہا ہوں جو خو بصور تی کی وجہ ہوتا ہے ۔ ہر وہ رخ جو ہماری معاشرت اور سماجیت کو سمیٹے ہوئے ہے،اس کی تعلیم دینااور اس میں توازن کی روش کو ہاتھ سے نہ جا نے دینا ہمارا فرض ِ اول ہے ۔ تفرقات کو مٹانے اور مساوات کو بڑھا نے کی تربیت کی ضرورت ہے ۔ نصاب اور تعلیمات کو تقلیدی بنیادوں پر نہیں بلکہ اپنی ملی ، جغرافیائی اور ضرورت کی بنا پر قائم کرنے کی ضرورت ہے ۔ محلوں میں بیٹھ کر بے چھت افراد کی کیفیت نہیں سمجھی جا سکتی ، پیٹ بھر کر کھا نے والا بھوک کے احساس سے شناسائی نہیں کرسکتا اور حفاظتی حصار میں محصور حاکم بے وارث اور بے اطمینان قوم اور خوف ِ قتل میں مبتلہ فرد کے احساس اور دہشت ِ بارود سے واقفیت کیسے کرسکتاہے ۔

دل میں دولت کی چاہت کو پالنا بُرا نہیں مگر دولت کو زندگی کا منبع مان لینا اور ترقی کاسر چشمہ صرف سائنس کو کہنا خام خیالی ہی نہیں بلکہ شغل ِ طفلاں ہے ۔ مال وزر کے حصول کی چاہت بُری نہیں مگرمعشیت کو متاع کل مان لینا اور دیگر عناصر ِ معاشرت کا انحراف درست نہیں ۔ ہم کسی بھی عنصر معاشرت کو فراموش نہیں کرسکتے ہمیں معاشی، معاشرتی عناصر کے تنوع کا سامنا ہے تو ہمیں اس تنوع سے نبردآزما ہونے کے لیے اپنے تعلیمی نظام کو بھی اس کے مطابق ڈھالنا ہوگا ۔ ہمیں فلاح کے لیے یورپی تقلید کی ضرورت نہیں۔ ہے توضرورت ہے خا لص بنیادوں پر اپنے نصاب اور تعلیمی نظام پر سنجیدگی سے فکر کی ۔ ہمیں غریب کا خیال کرنا ہے اور امیر کی پرواہ ، مفلس کی خوشحالی کا سوچنا ہے تو سرمایہ دار کو تحفظ بھی دینا ہے ۔

کیسا ہی بہتر ہو اگر ہم جنگ اور حکومتی رٹ کو قائم کرنے لیے خرچ کی جانے والی رقم کا اندازا کریں اور علم کی توسیع اور تعلیم کی ترسیل کے لیے مختص کیے گئے بجٹ کا جائزہ لیں اور ہم حا لات کو توپ ، گولی ، بم اور قوت سے بدلنے کی بجا ئے دلوں کو علم سے لیس کرکے اذہان کا دھارا امن کی طرف موڑ دیں ۔ ہم کلی بدحالی کا مطالعہ جزوی بنیادوں پر کریں اور آنے والی نسل کی فکر کو اس طرح تبدیل کردیں کہ فساد اور دھنگے کی فضاء مانند پڑ جائے اور امن کا بول بالا ہو جائے ۔ علم مادہ کے حصول کا ذریعہ تصور کیا جائے تو اخلاق کی حٖفاظت اور فرائض کی پہچان کی قوت بھی تعلیمی نظام میں سمو دی جائے ۔ ہم تاریخ کا مطالعہ نمبر لینے کی بجا ئے نہ کریں، بلکہ اُن لمحات سے سبق سیکھیں جو تاریخ میں تاریک زمانوں کو روشنی کی دہلیز تک کھینچ لائے ہوں ۔ ہم اپنی خامیوں کوتسلیم کریں او ر مخالف کے داؤ پیچ کی تفہیم کرتے ہو ئے اپنے آ پ کو درست کریں ۔

المیہ یہ ہے کہ ہمارے جینے کے معیار اور ہمارے آداب معکوس نوعیت میں تبدیل ہو چکے ہیں ، شرافت اور ایمانداری وہ وقار دینے سے قاصر ہو چکی ہے جو دولت اور پیسہ سے میسر آتا ہے ۔ دیکھاوا سچ کو دبوچ اور ریاکاری سرعت کرچکی ہے ۔ ہر چہرا ضو صورتی کا شکار ہے ۔ اصل سے بالا اور ذات سے نا آشناء افکار ہمیں تار تار کرچکے ہیں ۔ ہم نقاب پوش کی حثیت اختیار کر چکے ہیں ۔ گھر والوں کے لیے نقاب ، باہر والوں کے لیے نقاب، محفل کا چہرا اور خلوت کا چہرا اور ، سیاست کی شکل اور عبادت کی شکل ، صورتِ خالص کہی گُم ہو گئی ہے نجانے ہم کہا ں کس ڈھگر پر چل رہے ہیں ۔ اگر ہم اپنے نظام کو خاندانی نظام کے اُس پختہ رشتے سے ،جو ہماری روایات کاکسی دور میں تُرا تھاجوڑ دیں او ر اس نظام کا دھارا رشتوں کے وقار کی جانب موڑ دیں تو نہ تو اسلحہ کی ضرور ت رہے گی اور نہ کوئی دہشت گرد باقی رہے گا، کیوں کہ جب تفرقات جڑ سے ہی مساوات کی دواسے شفاء پا جائیں تو نفرت کو پنپنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔

نفسا نفسی ،دہشت گردی اور معاشرتی برائیوں کی پاداش میں ہو نے والی تخریب کی تعمیر نو تعلیم کی ترویج اور مساوی نظام ِ معاشرت سےہی کر سکتے ہیں۔ اگر ہم اقبال کے اس شعر کو سمجھ کر زند گی کا راہ نما بنا لیں تو حال کے بیشتر مسائل جڑ سے ہی اپنی وقت چھوڑ دیں اور ہم حقیقی ترقی کی طر ف اپنا رشتہ جوڑ لیں ۔ جہاں تازہ کی ہے اُفکا ر تا زہ سے نمود
کہ سنگ وخشت سے ہوتے نہیں جہا ں پیدا

اخلاق کی پیروی ، افکار کی تازگی ، اعتقاد کی پختگی ، انسانیت سے واقفیت اور بھلائی کی روش کو عام کرنے کا آلہ صرف علم ہے اور علم کی طرف توجہ مبذول کروانے میں ادیب اہم کردار ادا کرسکتے ہیں جو اپنے قلم کی روشنائی سے جہانِ خون کو ہوس کے جنون کو امن خیالی سے خوشحالی میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ اذہان کی تبدیلی ، افکا رکی درست سمت اور مثبت خیا ل سازی سے ہی ہم قوم میں موجود خوف اور فتنہ و فساد کو ختم کر سکتے ہیں ۔ ہم سوفٹ وئیر کی خرابی کا حل ہارڈ وئیر کی تبدیلی سے کرنے کی بجا ئے سوفٹ وئیر میں ہی تبدیلی کیو ں نہیں کردیتے تاکہ وہ منشر خیالی اور ہوس وہرسِ مالی جو ہمیں ہجوم سے قوم میں تبد یل نہیں ہونے دے رہی اُس سے چھٹکارہ حاصل کرسکیں ۔