سعدیہ ایک متمول خاندان کی سمجھ
دار اور سلیقہ شعار لڑکی تھی۔ قدرت نے اسے بے پناہ حسن سے بھی نوازا تھا۔
لیکن حقیقت یہ ہے رب انسانوں کو بہت کچھ دے کر بھی کچھ چیزوں سے محروم کر
دیتا ہے۔ اگر دولت دی ہے تو حسن کی محرومیت ہوگی۔ حسین و جمیل ہے تو ہوسکتا
غربت کی چکی میں ہو، دونوں ہیں تومقدر میں خوشیاں نہیں ہیں۔ بڑا سٹیٹس ہے
سکون نہیں ہے۔ یہ اس رب کی اپنی تقسیم ہے کس کو کیا اور کیوں دیتا اور کسی
کو کس چیز سے اور کیوں محروم کرتا ہے۔رب کی تقسیم کسی انسان کی سمجھ نہیں
آسکتی۔ ایسا ہی کچھ سعدیہ سے ہوا ۔ اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانے کی ناز و
نعم میں پلی بڑی لڑکی تھی۔اپنے ہی خاندان میں ایک خوبصورت،پڑھے لکھے اور
باروزگار لڑکے سے شادی ہوئی۔عامر امیر والدین کی اکلوتی اولاد تھی۔ لاکھوں
روپے شادی میں اڑائے گئے۔پسند کی بنیاد پر شادی تھی۔ ہر سو خوشیاں ہی
خوشیاں تھیں۔ لیکن کون جانتا تھا یہ خوشیاں کتنی عارضی ہیں۔ شادی گزر گئی۔
سعدیہ نئے گھر میں شہزادیوں کی طرح زندگی گزارنے لگی۔ سعدیہ ، عامر اور ان
کے والدین کے علاوہ گھر میں کوئی فرد نہ تھا۔ سعدیہ اس اعتبار سے بھی خوش
تھی کہ اس کے نئے گھر میں اسے طعنہ دینے اورمقابلہ کرنے والی کوئی اور عورت
نہ تھی۔تمام آسائشیں موجود تھی۔ کام کرنے کے لیے نوکر اور خادمائیں تھیں۔
میاں حد سے زیادہ پیار کرتے تھے۔ ساس اور سسر بھی بلائیں لیتے نہ تھکتے تھے۔
سعدیہ تھی بھی بہت سلیقہ شعار ،کسی کو شکایت کا موقع بھی نہ دیتی تھی۔گھر
میں ہر طرح کا سکون اور پیار تھا۔ چار نفوس پر مشتمل یہ گھرانہ اب شدت سے
گھر میں نئے مہمان کا انتظار کرنے لگا۔ وقت کا گھوڑا اپنی رفتار کے ساتھ
آگے بڑھتا گیا۔ گھنٹے دنوں، دن مہینوں اور مہینے سالوں میں ڈھلتے چلے گئے۔
لیکن مہمان کی آمد کا کوئی نام و نشان نظر نہیں آرہا تھا۔ جب کسی ڈاکٹر یا
حکیم کو چیک کروایا گیا جواب نفی میں ملا۔ کرتے کرتے چھ سال کا عرصہ گزر
گیا۔ جعلی ’’ڈبا‘‘پیروں سے کر اﷲ کے نیک بندوں تک ہر ایک کے در پر حاضری
اور نظر و نیاز دی گئی۔کوئی نہیں چھوڑا گیا جس سے فیض حاصل نہ کیا گیا ہو۔
ہر جگہ ایک نئی امید دلائی جاتی لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ امید
مایوسی کے پاتا ل میں ڈوبتی چلی جاتی۔گلی محلوں میں دکانے سجائے حکیموں سے
لے کر ملک کے نام ورڈاکٹروں تک سب کو بھاری بھاری فیسیں ادا کی گئیں۔
لاکھوں روپے خرچ کیے گئے لیکن مراد پوری نہ ہوئی۔ بہت منتیں مانی گئی، ہر
دربار پر چڑھاوے چڑھائے گئے۔ لیکن اﷲ کے ہاں منظوری نہ ہوئی میاں بیوی کی
محبت کم ہوتے ہوتے اب بالکل ہی ختم ہو چکی تھی۔ بلکہ معاملہ ہر روز کے
لڑائی جھگڑے پر آن پہنچا تھا۔ڈاکٹرز بھی کوئی ایک بات نہیں کہتے کوئی کہتا
بیوی میں بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں ہے اور کوئی مرد کو مورد الزام
ٹھہراتا۔اس وجہ سے گھر میں لڑائی رہنے لگی۔میاں بیوی کو طعنے دیتا تو بیوی
مرد کو قصور وار ٹھہراتی۔ سسر جی کو اپنی نسل ختم ہونے کا ہر وقت غم لگا
رہتا اور ساس بھی بہو کی گود ہری نہ ہونے پر جلی کٹی سناتی رہتیں۔ امن و
آشتی کے گہوارے سے سکون مفقود ہو چکا تھا۔ میاں بیوی نظریں نہیں ملا پا تے
تھے۔ گاؤں محلے میں بھی رنگ رنگ کی باتیں ہورہی تھیں۔ لڑائی بڑھتی چلی گئی
تو ایک دن وہی ہوا جو عموماً اس طرح کے معاملات میں آخری حل ہوتا ہے۔ میاں
نے بیوی کو طلاق دے دی۔ خوشیوں بھرا گھر اجڑ گیا۔ سعدیہ اپنی خوبصورتی اور
سلیقہ شعاری کو لے کر میکے آن بیٹھی ۔بیٹیاں شادی سے پہلے گھر میں بستی دل
کو بہاتی ہیں لیکن وہی بیٹی شادی کے بعد میکے بیٹھی آنکھوں کو بہت چبھتی ہے۔
اب سعدیہ کی ماں سعدیہ کے لیے پریشان رہنے لگی۔ معاشرہ ایسی لڑکی کو کم ہی
قبول کرتا ہے جس کے ساتھ ٹائٹل لگا دیا گیا ہو کہ اس کی گود ہری نہیں ہو
سکتی۔ کچھ عرصہ گزرا تو قریبی گاؤں سے سعدیہ کے لیے رشتہ آیا۔لڑکا پہلے سے
شادی شدہ تھا، پہلی بیوی فوت ہوگئی تھی اور اس کے چار بچے تھے، لڑکا بے
ہنگم سی شکل کا سفید ان پڑھ اور پیشے کے اعتبار سے ڈرائیور تھا۔ جو کسی
حوالے سے بھی سعدیہ کے ساتھ میل نہیں کھاتاتھا۔ لڑکے والوں کو بیوی کی صورت
میں ایک آیا چائیے تھی جو گھر کے کام کاج کے ساتھ ساتھ بچوں کی دیکھ بھی
بھال کرے۔ کوئی اور عام سی لڑکی بھی شاید اس طرح کے حالات میں شادی کے لیے
تیار نہ ہوتی لیکن سعدیہ کے والدین کے پاس اس کے سوا چارہ کار بھی نہ تھا۔
سو انہوں نے جلد ہی ہاں کر دی۔سلیقہ شعار بیٹی نے منہ سے آہ تک بھی نہ
نکالی۔ گاؤں محلے کی عورتیں اس کی بدنصیبی پر روتیں، کہاں حور پری کی مانند
سعدیہ اور کہاں وہ ڈرائیور جس کے پاس عقل، شکل، دولت کچھ بھی نہ تھا۔سادگی
سے نکاح ہوا اور سعدیہ نئے گھر کو سدھار گئی۔ یہاں اس کو سخت کام سے پالا
پڑا، بچوں کی پرورش سے لے کر بھینسوں کے بھاڑے تک، گھر کے کام کاج سے لے کر
کھیتی باڑی کے کام تک کون سا کام تھا جو سعدیہ کو نہ کرنا پڑتا ۔ صبح سے
شام تک اور شام سے رات گئے تک سعدیہ ایک مزدور کی طرح جُتی رہتی۔ اسی پر بس
نہیں رات اس کا آخری کام اپنے اجڈ قسم کے میاں کے پاؤں دبانا اور سر کی
مالش کرنا ہوتی تاوقتیکہ اسے نیند آجائے اوروہ سو جائے ۔ اگر کبھی اس نے
کام زیادہ ہونے کی شکایت بھی کی تو اسے کبھی سسر سے، کبھی ساس سے اور کبھی
میاں سے جلی کٹی سننی پڑیں۔ کھبی کبھار تو نوبت ہاتھ اٹھانے پر بھی
پہنچی۔مرتی کیا نہ کرتی زندگی کے کھٹن دن پورے ہونے لگے۔ شادی کے دسویں ماہ
اسے دو جڑواں بچوں کی صورت میں خوش خبری ملی۔ لیکن وہ بالکل خوش نہ تھی۔ اس
کی گود میں بچے کی خواہش کب کی مر چکی تھی۔ گھر میں نظام آگے ہی گزارے کے
موافق تھا اور اوپر سے قدرت نے بیک وقت دو بچے دے دیے اب ان کو پالے گی تو
کیسے؟ اس کے خوش نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ خود تو بہت ہی
خوبصورت تھی لیکن بچوں میں کوئی بھی اس پر نہیں گیا تھا دونوں پاب پر گئے
تھے جو شکل و صورت میں بھی سعدیہ کے بچے نہیں لگتے تھے۔ وہ بار بار اپنے اﷲ
سے گلہ کر رہی تھی ’’اے مالک کائنات اگر تو نے اولاد دینی ہی تھی تو پہلے
گھر میں دیتا‘ ان کو عیاشی کا سامان ملتا اور مجھے وہاں رہنے کا جواز ملتا۔
آخر مجھ سے کون سی غلطی ہوئی کہ تو نے مجھے اتنی بڑی آزمائش میں ڈالا۔ تو
نے اولاد وہاں دی جس کے گھر والے پہلے ہی بچوں سے تنگ تھے اور ان کے گھر
کیوں نہ دی جو بچوں کے لیے تڑپ رہے تھے‘‘سعدیہ کی زندگی پہلے ہی کم عذاب
والی نہ تھی اب ان دو بچوں کی پیدائش نے آزمائشوں کو اور بڑھا دیا۔ کم
کھانے اور کم سونے کی وجہ سے وہ پہلے ہی بہت کمزور تھی اور اب رہی سہی کسر
دو بچوں کی پیدائش نے نکال دی ۔ اب اس کے لیے کام اور بھی مشکل ہو گیا تھا۔
لیکن آج بھی وہ زندگی کی گاڑی کو گھسیٹ رہی ہے۔ تقدیر کے لکھے کو نبا رہی
ہے۔ اس نے مستقبل کے حسین سپنے دیکھنے چھوڑ دیے ہیں۔ہم لحظہ خوش رہنے والی
سعدیہ آج غم کی تصویر ہے۔خدا جانے یہ آزمائش اس پر کب تک رہتی ہے۔
دوسری طرف سعدیہ کی شادی کے چھ ماہ بعد اس کے پہلے میاں نے بھی رشتے کے لیے
تلاش شروع کر دی۔ لیکن مناسب رشتہ نہیں مل رہا تھا، اور جب سے گاؤں محلے
میں یہ خبر پھیلی تھی کہ جس لڑکی کو اس نے طلاق دی تھی وہ تو امید سے ہے
مسئلہ تو میاں کا ہے تب سے رشتہ ملنا اور بھی مشکل ہو گیا بالآخر ایک طلاق
یافتہ عورت جس کی شکل و صورت بھی واجبہی سی تھی اور پہلے میاں سے زبان
درزای کی وجہ سے طلاق لے چکی تھی ، کے ساتھ رشتہ طے پایا اور سادگی سے شادی
ہوگئی۔ اب جو نئی بیوی گھر میں آئی تو سعدیہ کی قدر و قیمت کا پتہ چلا۔
کہاں صدا کی صابر و شاکر سعدیہ اور کہاں ایک بات کے جواب میں چار باتیں
کہنے والی نئی بیوی۔ زندگی کے دن اب بھی کٹ رہے تھے لیکن سکون نہ تھا۔ آئے
روز لڑائی ہو رہی تھی۔ لیکن اب میاں طلاق بھی نہ دے سکتے تھے کہ پھر رشتہ
ملنا ناممکن ہی تھا۔ شادی کے نویں مہینے گھر میں مہمان کی آمد ہوئی اﷲ نے
ان کو بھی بیٹی دی لیکن شکل و صورت میں ماں پر گئی تھی۔عامر کو دیکھ کر
بیٹی کو دیکھنے والا یقین نہیں کر سکتا تھا کہ یہ بیٹی عامر کی ہے۔ عامر یہ
سوچ رہا تھا کاش اﷲ یہی اولاد سعدیہ کے ذریعے دے دیتا تو زندگی کتنی پرسکون
ہوتی۔ ان دونوں کو اﷲ نے کیوں اولاد نہ دی۔ جب میڈیکلی ثابت ہوچکا تھا کہ
دونوں میں اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت تھی۔سائنس لاچار ہوچکی تھی وہ جواب
دینے سے قاصر تھی آخر مسئلہ کس میں تھا؟لیکن اصل بات ہم بھول جاتے ہیں۔
اولاد دینا اﷲ کے اختیار میں ہے حضرت مریمؑ کو بغیر خاوند کے اولاد دینا
چائے تو دے سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم رب کے دیے پر راضی نہیں ہوتے۔ شاید
کہ کچھ عرصہ انتظار کرتے تو اﷲ ان کو بھی اولاد دے دیتا۔ جن نفوس نے دنیا
میں آنا تھا وہ آکر رہتے ہیں۔ لیکن ہم اتنے جلد باز کیوں ہوجاتے ہیں۔ اﷲ کے
دیے پر شکر اور نہ دیے پر صبر کیوں نہیں کرتے۔؟ شایدہم ہر ایکشن کا فوری ری
ایکشن چاہتے ہیں جب کہ رب کی ذات ہمارے صبر کا امتحان لیتی ہے۔ اﷲ کے دربار
میں دیر ہے اندھیر نہیں۔۔ لیکن ہم سمجھتے کب ہیں۔ اولاد دینا اور نہ دینا
تو کلی اسی کے اختیار میں ہے۔ پھر ہماری طرف سے جلدبازی کیوں کر؟ |