ہم پاکستانیوں کو تاریخ یاد نہیں
رہتی مگر مقام اور واقعات ہم نہیں بھولتے . آئیے آپکو کچھ یاد دلاؤں. ١٦
دسمبر ١٩٧١ ڈھاکہ کا رمنا کورس میدان ، ایک پٹھان جسکا نام امیر عبدللہ خان
نیازی تھا اور جو پاکستان کا سپہ سالار تھا وہ اس میدان میں اپنے بھارتی ہم
منصب کے سامنے ہتھیار ڈال رہا تھا ، ہزاروں بنگالی نفرت سے اس پر تھوک رہے
تھے مخالف نعرے لگا رہے تھے اور پاکستان دو لخت ہورہا تھا . ایک عام
پاکستانی کے حیثیت سے مجھے اس فلسفیانہ بحث میں الجھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ
میرا ملک کیوں ٹوٹا اور ١٦ دسمبر کو ہم کیوں ہارے، میں تو یہ جانتا ہوں فقط
کہ میرا ملک ٹوٹ گیا اور ہمیں بھارتیوں اور بنگالیوں کے سامنے شکست کی ذلّت
ہی نہیں اٹھانی پڑی بلکہ نصف وطن بھی گنوانا پڑا.
اب دو تازہ ترین واقعات دیکھیے. وہی ڈھاکہ ہے وہی بنگالی مجمع اور بھارت
اور پاکستان ایک بار پھر آمنے سامنے ہیں ، میدان اور کھیل اگرچہ مختلف ہیں
.اس بار پھر سے ایک پٹھان بھارت کے سامنے ہے مگر شاید جانتا ہے کہ اس بار
ڈھاکہ میں بھارت سے شکست قوم کے لیے ناقابل برداشت ہوگی .وہ پٹھان جسکے
ہاتھوں کی طاقت کی ایک دنیا گواہی دیتی ہے اسنے ٢ مارچ کی رات بھارت کو دو
ایسے تھپڑ مارے ہیں جسکی گونج مدّتوں بھارتیوں کے کانوں میں گونجا کرے گے ،
جسکی شدّت الم انکو ایک زمانہ بیچین کیے رکھے گی .
یہی پٹھان اسی ڈھاکہ میں بنگالیوں کے سامنے آیا ، اور اسنے یہ پوری دنیا کے
سامنے ثابت کیا کہ بنگالی ١٩٧١ میں بھی بھارتی مدد کے بغیر کچھ کر نہیں
سکتے تھے .
اس رات اسکی ہر ضرب میں شاید ١٩٧١ سے کھولتا انتقامی جذبہ موجود تھا ، وہ
شاید یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کے پٹھان اور پاکستانی ہاتھ کی طاقت کیا ہوتی
ہے . اور اسنے ثابت کیا کے پاکستان کو صرف اور صرف پاکستان ہی ہرا سکتا ہے
کوئی اور نہیں ...اور ہاں اس بار بھی پاکستان کا قائد ایک نیازی تھا اسی
شہر کا جہاں کا امیر عبدللہ خان نیازی تھا- |