گُذشتہ سے پیوستہ۔
کیوں میرے دُوست تم نے انسانوں کو مارکیٹنگ کرتے ہُوئے تو ہزار مرتبہ دیکھا
ہُوگا۔ لیکن کیا کسی انسان کو مجھ جِن زادے کی طرح مارکیٹنگ کرتے بھی دیکھا
ہے۔۔۔ ابو شامل نے تفاخر سے سینہ پُھلاتے ہُوئے داد طلب نِگاہوں سے کامل
علی کی جانب دیکھا۔۔۔۔۔۔ یار تمہاری پرفارمنس تو واقعی زبردست تھی۔۔۔ لیکن
یہ بتاوٗ کہ نفاست صدیقی کو اعتبار کیسے دِلاوٗ گے۔۔۔۔ اُور یہ آئل جسکا
ابھی تُم نفاست صدیقی سے تذکرہ کررہے تھے۔ وُہ کہاں سے پیدا کرو گے۔ ۔۔۔
کامل علی نے تعجب سے ابو شامل سے دریافت کیا۔
دَوا ئی کیلئے میں ابھی کوہ قاف کے شاہی حکیم بطلیموس سے رابطہ کرونگا۔
مجھے معلوم ہے۔ وُہ ہر قسم کے امراض کا شافی علاج کرتے ہیں۔ اُور مجھ سے
خصوصی محبت رکھتے ہیں۔۔۔ اِس لئے مجھے کبھی کسی کام کیلئے منع نہیں کریں گے۔۔۔
اُور جہاں تک نفاست صدیقی کو مطمئین کرنے کی بات ہے تو میرے خیال میں ہمارے
کانٹے میں ایسی مچھلی آگئی ہے۔ جس کے پیچھے پیچھے دوسری مچھلیاں خود بخود
چلی آئیں گی۔ اُور ہمیں پبلسٹی کیلئے ذیادہ محنت نہیں کرنی پڑے گی۔ اِس لئے
نِفاست صدیقی کو ہم ایڈوانٹیج دیں گے۔ اُور تعلقات کو مستحکم کرنے کیلئے
پہلے کسٹمر کو فری دوائی دیں گے۔ جسکی وجہ سے نفیس صدیقی جیسی بڑی پارٹی
ہمیشہ ہمارے اِحسان تلے دبی رہے گی۔۔۔۔ ابوشامل نے مکارانہ انداز میں قہقہ
بلند کرتے ہُوئے کہا۔۔۔۔جبکہ کامل علی ہونقوں کی طرح ابو شامل کے آئیڈیئے
پر دِل ہی دِل میں اُسے داد دے رَہا تھا۔
جاری ہے۔۔۔
اَب مزید پڑھیئے۔
دُوسرے دن ابو شامل نے عصر کی نماز کے بعد جب کامِل علی کو لیجا کر کُوٹھی
کا نیا سیٹ اَپ دِکھایا تو کامل علی بھی حیرت زدہ رِہ گیا۔ ۔۔کو ٹھی پُر
وقار ہُونے کیساتھ ساتھ اب ایک جدید اُور ماڈرن آستانے کا منظر بھی پیش
کررہی تھی۔ کچھ قیمتی نوادرات کا اِضافہ بھی کیا گیا تھا۔ ایک خوبصورت حقہ
نما اینٹیک میں مسحور کُن بخورات سُلگ کر تمام ماحول کو معطر کررہے تھے۔
جبکہ لائٹنگ کے بہترین استعمال نے ماحول کو پُراسرار بنا دیا تھا۔ ایک جانب
چند خوش لباس لُوگوں کو دیکھ کر کامِل علی نے سرگوشی میں ابو شامل سے
استفسار کیا۔۔۔۔ یہ کُون لُوگ ہیں۔۔۔؟؟؟
یہ سب میری برادری کے لُوگ ہیں۔۔ جو صرف کلاینٹ پر اچھا اثر ڈالنے کیلئے
یہاں وقتاً فوقتاً پیش ہُونگے۔۔۔ اُور ہاں یاد آیا۔کہ،، جب بھی کوئی مریض
تُمہارے پاس خلوت میں بھیجا جائے گا۔ میں بھی تُمہارے پاس حاضر رَہوں گا۔
جنہیں کیا جوابات دینے ہیں۔ اُور کیسے بات کرنی ہے۔ یہ میں تمہیں اُسی وقت
بتاتا رَہوں گا۔۔۔۔۔ ابو شامل نے کامل علی کو سمجھاتے ہُوے کہا۔۔۔
یار اگر تمہارے سمجھانے پر اُنہیں ہدایات دُونگا۔ تو کیا وُہ آنے والےلوگ
مجھ سے بدظن نہیں ہُونگے۔کہ ،، کیسا بابا ہے جو اپنے اسسٹنٹ سے ہدایات لے
رَہا ہے۔ کامل علی نے مُنہ بناتے ہُوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔ کامل کے سوال پر ابو
شامل نے قہقہ لگاتے ہوئے کہا۔۔۔ اُو میرے بُھولے بادشاہ میں تم لوگوں
کیساتھ حاضر ضرور رَہوں گا۔۔۔لیکن نظر صرف تجھے آؤنگا۔۔۔۔ وُہ لُوگ نہ مجھے
دیکھ پائیں گے۔اُور نہ ہی میری آواز سُن پائیں گے۔ اُور ہاں کل تمہیں نفاست
صدیقی سے متعلق جو باتیں سمجھائی تھیں۔۔۔ وُہ تو یاد ہیں نا تُم
کو۔؟؟؟۔۔۔۔۔ ہاں بھئی سب کچھ یاد ہے۔۔۔ میں نہ کوئی چھوٹا سا بچہ ہُوں۔اُور
نہ ہی میری یاداشت اتنی کمزور ہے ۔کہ،، کل ہی کی بات بھول جاؤں۔ کامل علی
نے جھنجلائے ہُوئے لہجے میں جواب دِیا۔۔۔۔ چلو اب خفگی چھوڑو۔ اُور اپنا
مُوڈ ٹھیک کرلو۔۔۔ کیونکہ مجھے نفاست صدیقی کی آمد سے قبل تُمہارا ہلکا
پھلکا میک اَپ بھی کرنا ہے۔ابو شامل نے گفتگو کا موضوع بدلتے ہُوئے کہا۔۔۔
تھوڑی دیر میں ابو شامل نے میک اپ کے ذریعہ سے کامل علی کا حلیہ ہی بدل کر
رکھ دیا۔۔۔ کامل علی میک اَپ کے بعد خُود کو آئینے میں دیکھ کر حیرت زدہ
رِہ گیا۔۔۔ شانے کو چُھوتے ہوئے گھنگریالے گیسو، اُور چہرے پر سجی ہلکی
ہلکی داڑھی کیساتھ خُوبصورت گولڈن کام کے کُرتے اُور واسکٹ میں وُہ بالکل
ایک شہزادے کی طرح دِکھائی دے رَہا تھا۔۔۔۔ یار ابو شامل تُم مجھے عامل
دِکھانا چاہتے ہُو۔یا کسی ریاست کا شہزادہ۔۔۔؟ کامل علی نے ابو شامل کو
گھورتے ہُوئے استفسار کیا۔۔۔۔۔ یار تُمہارا کیا خیال ہے۔کہ،، میں اتنا
بدذوق بندہ ہُوں۔ جو تُمہیں کوئی گندے سے بہروپ میں ایک صنعتکار کے سامنے
پیش کروں گا۔
مغرب کی آذان کیساتھ ہی تمام سیٹ اپ مکمل ہُوچکا تھا۔۔۔ کامِل علی کے کمرے
کے باہر بیسیوں لُوگوں کو ایسے مُہذب انداز میں سیٹوں پر بٹھا دِیا گیا
تھا۔ جیسے وُہ تمام لُوگ مُلاقاتی ہُوں۔ اُور اپنی باری کے منتظر ہُوں۔
سبھی لُوگ لباس اُور رکھ رکھاؤ سے اُونچے عہدوں کے حامل یا کاروباری افراد
دِکھائی دیتے تھے۔۔ اِن میں سے کچھ لُوگ انگریزی نیوز پیپر ز یا میگزین کے
مطالعہ میں مصروف تھے۔۔۔ ویٹننگ رُوم میں دُو افراد ایسے بھی تھے جو سگار
سے شغل کررہے تھے۔۔ جبکہ کار پُورچ اُور کُوٹھی کے لان سے ملحق راہداری میں
کھڑی بیش قیمت گاڑیاں بھی آنے والوں کی پُوزیشن کی چغلی کھارہی تھیں۔
مغرب کی نماز کے فورا بعد کوٹھی کے گیٹ پرنفاست صدیقی امپورٹیڈ لیموزین سے
برآمد ہُوئے۔۔۔ کوٹھی کے اندر و باہر گاڑیوں کی قطاریں دیکھ کر دوسرے ہی
لمحے اُنکی گردن میں پڑی راڈ نرم پڑچکی تھی۔۔۔ نفاست صدیقی کا خیال
تھا۔کہ،، اُنکی مالی حیثیت کی وجہ سے اُنکا گیٹ پر استقبال کیا جائے
گا۔لیکن کھلے ہُوئے خالی گیٹ نے اُنکے پھولے ہُوئے سینے کو ذرا سا پچکا دیا
تھا۔۔۔ نفاست صدیقی کوٹھی کے گیٹ سے اندر کسی ملازم کو تلاش کرتے ہُوئے
ویٹنگ رُوم میں پُہنچ گئے۔۔۔ کوٹھی کی آرائش ونفاست اُور ویٹننگ رُوم میں
موجود لُوگوں کو دیکھنے کے بعد نفاست صدیقی اِس نتیجے پر پُہنچے تھے۔ کہ یہ
کوئی رِوایتی آستانہ نہیں ہے۔ اُور جہاں پہلے سے ہی اسقدر بااثر افراد کو
جھگمٹا موجود ہے۔وہاں اِنکی اِمارت سے مرعوب ہُونے والا کُون ہُوگا۔۔۔۔ وُہ
اپنے بیٹھنے کیلئے کسی مناسب جگہ کی تلاش کے ساتھ ساتھ یہ بھی سُوچ کر
پریشان ہُورہے تھے۔کہ اتنے لوگوں کے بعد باری آتے آتے توشائد کئی گھنٹے
گُزر جائیں گے۔۔۔؟؟؟ ابو شامِل ،نفاست صدیقی کی آمد سے بے خبر نہیں تھا۔بس
وُہ تو نفاست صدیقی کے غبارے سے ہُوا نِکل جانے کے انتظار میں تھا
۔۔۔۔۔جُونہی ابو شامل کو اپنا مطلوبہ مقصد پُورا ہُوتا دِکھائی دِیا۔ ابو
شامل نے آگے بڑھ کر نفاست صدیقی کی جانب ہاتھ بڑھاتے ہُوئے اپنا تعارف پیش
کیا۔۔بندے کو ابو شامِل کہتے ہیں۔ اُور آپ غالباً نفاست صدیقی ہیں۔۔۔؟۔۔۔۔۔
جی آپ نے بالکل ٹھیک پہچانا ہے۔ اُورکل شائد میری آپ ہی سے بات ہُوئی
تھی۔؟۔۔۔ نفاست صدیقی نے گرمجوشی سے ہاتھ مِلاتے ہُوئے استفسار کیا۔
ابو شامل ، نفاست صدیقی کا ہاتھ تھامے اُسے ایک کمرے میں لے آیا۔ یہ کمرہ
بھی انتہائی پرتعیش اشیا کی وجہ سے نفاست صدیقی کو اپنی جانب متوجہ کررہا
تھا۔۔۔ اُور سُنائیے نفاست صاحب یہاں تک پُہنچنے میں کوئی دُشواری تو پیش
نہیں آئی آپکو۔۔۔۔؟ ابو شامل نے نفاست صدیقی کی محویت سے لطف اندوز ہُوتے
ہُوئے کہا۔۔۔۔ جی نہیں کوئی دِقت پیش نہیں آئی۔لیکن یہاں اتنا رَش دیکھ کر
پریشانی ضرور ہُورہی ہے۔۔۔نفاست صدیقی نے اپنی پریشانی کا برملا اظہار کرتے
ہُوئے کہا۔۔۔۔ نفاست صاحب آپ پریشان بالکل نہ ہُوں۔۔۔ جب کل میں نے آپکووقت
دیا تھا۔تو اب یہ میری ذمہ داری ہے کہ،، کسی بھی طرح آپکو انتظار کی زحمت
نہ ہُونے دُوں۔۔۔ قبلہ کامل شاہ صاحب اگرچہ کسی کی حق تلفی کو پسند نہیں
فرماتے۔۔۔ لیکن میں اگر کسی کی سفارش کردُوں تو قبلہ شاہ صاحب میری بات کی
لاج رکھ ہی لیتے ہیں۔ اِسی لئے میں آپکو ویٹنگ رُوم کے بجائے اِس خاص کمرے
میں لے آیا ہُوں۔تاکہ جلد از جلد آپکی مُلاقات کا بندوبست کراسَکوں۔ انشا
اللہ آپکو پندرہ منٹ سے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔۔۔ بس شاہ صاحب
نوافل و اذکار سے فارغ ہُوجائیں تو پہلا نمبر اِس خادم کی وجہ آپکو ہی ملے
گا۔۔۔ ابو شامِل نے خوشدلی سے جواب دیتے ہُوئے کہا۔۔۔
پندرہ منٹ بعد حسب وعدہ ابوشامل نے نفاست صدیقی کو کامل علی کے آستانے نُما
کمرے تک پُہنچا کر آہستگی سے دروازہ باہر سے بند کردیا۔۔۔ سامنے فرشی نشست
پر کامل علی آنکھیں بند کئے تسبیح پر انگلیاں گھما رہا تھا۔ نفاست صدیقی
احترام سے قالین پر چلتے ہوئے کامل علی کے ہاتھوں کا بوسہ لینے کیلئے اِس
بات سے بے خبرآگےبڑھ رَہا تھا۔کہ،، اُسکے اُور کامل علی کے علاوہ ابو شامل
بھی غائبانہ طُور پر کامل علی کے ساتھ براجمان ہُو کر کامل علی کے کان میں
سرگوشیاں کررہا ہے۔۔۔۔ نفاست صدیقی تم نے تو ہمیشہ دیسی علاج اُور خانقاہی
سسٹم کی مخالفت کی ہے۔ اُور تم ہمیشہ یہی کہتے رہے ہُو نا کہ،، کالا سفید ،
نوری یا شیطانی علم کچھ نہیں ہُوتا۔ یہ سب کم علم لوگوں کی فراغت کا سرچشمہ
ہے۔۔۔ مگر دیکھ لُو۔۔ آج تُم اُسی سسٹم کا حصہ بننے کیلئے یہاں موجود
ہُو۔۔۔۔ نفاست صدیقی کامل علی کی بارُعب آ واز سُننے کے بعد ایک لمحے کیلئے
ٹھٹک کر ٹہر گیا۔اُسے اپنی سماعت پر یقین نہیں آرہا تھا۔ بھلا کوئی کیسے
اُسکے ماضی کو کھنگال کر اُس کے سامنے رکھ سکتا تھا۔۔۔ اُسے یقین آگیا۔کہ،،
واقعی دُنیا میں بُہت سے علوم ایسے بھی ہیں۔ جو انسان کے اندر بھی جھانکنے
کی صلاحیت پیدا کرسکتے ہیں۔۔۔۔۔ نفاست صدیقی نے کامل کے ہاتھوں پر بُوسہ
دیکر لرزتی ہُوئی آواز میں کہا۔۔۔۔ شاہ صاحب میں اپنی سابقہ فکر اُور مادی
فلسفے پر نادم ہُوں۔ آپ مجھے معاف فرماکر اپنی غلامی میں قبول فرمالیں۔۔۔
(جاری ہے)۔
اُسکا کہنا ہے۔ کِسی اُور کو دیکھوں نہ کبھی
کیوں کہ اُسکو یہ میرا رُوپ بُرا لگتا ہے۔
مجھکو ہر چہرے میں آتی ہے نظر اِک وُہ ہی
جُو نہ بھر پائے یہ بہروُپ بُرا لگتا ہے۔ |