جمشید دستی کی عزیمت یا فکر طالبان

بعض قصے ایسے ہوتے ہیں کہ اس کی کوئی سند نہیں ہوتی لیکن اس کے اندر جو حکیمانہ سبق پوشیدہ ہوتا ہے وہ پھر سند کے بحث کو پس منظر میں دھکیل دیتا ہے۔لیکن میں جو قصہ سنانے جارہا ہوں اس کے راوی یعنی سنانے والے کو میں جانتا ہوں وہ جسارت کے سابق سرکولیشن منیجر مرحوم خواجہ فرید الحق ہیں۔خواجہ صاحب بڑی باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے ۔ہنسی مذاق کرنا ان کی طبیعت کا حصہ تھا ،غیر ضروری باتیں کم کرتے تھے ۔اﷲ ان کی مغفرت فرمائے ۔ایک شہر میں بہت بڑے عالم ،متقی ،پرہیز گار اور ہر دلعزیز بزرگ رہتے تھے ۔اسی شہر میں ایک طوائف بھی رہتی تھی ۔اگر ایک طرف یہ بزرگ اپنے تقویٰ،دیانتداری ،عجز و انکساری اور نیکنامی میں معروف تھے تو دوسری طرف طوائف بدنامی اور بدکاری میں مشہور تھی ۔اب یہ بزرگ ایسے تو نہیں تھے کہ بس اپنی عبادت اﷲ اﷲ باقی ادھر ادھر جو برائیاں پھیل رہی ہیں اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ،جیسا بنی اسرائیل کی ایک قوم میں تین گروہ ہوگئے تھے جس میں ایک صریحاَنافرمانی کرتا تھا عبادت کے بجائے مچھلیاں پکڑتا تھا ۔دوسرا گروہ صرف عبادت کرتا تھا جیسا کہ ہدایت تھی ایک تیسرا گروہ وہ تھا جو اس دن عبادت بھی کرتا تھا اور نافرمانی وسرکشی کرنے والوں کو اس عمل سے روکتا تھا ۔پہلے دو گروہ پر اﷲ کا عذاب نازل ہوا اور تیسرے گروہ کو بچالیا گیا ۔پھر وہ بزرگ اس طرح کے بھی نہ تھے اپنے شاگردوں کے ساتھ ڈنڈے لے کر اس طوائف کے یہاں جاکر اس کا گھر مسمار کرکے اور اس بدبخت خاتون کو خود کوئی سخت سزا دے ڈالتے۔لیکن انھوں نے ایسا کچھ نہ کیا ،پھر انھوں نے کیاکیا یہ ہم آپ کو بعد میں بتاتے ہیں درمیان میں ایک نکتہ پر بات ہوجائے یہ جو ہم اکثر ایک حدیث کے مفہوم پر بات کرتے ہیں کہ کوئی برائی دیکھو تو ہاتھ سے روک دو اور اگر ایسا نہیں کر سکتے تو پھر زبان سے روکو اور یہ بھی نہیں کر سکتے تو دل سے برا جانو۔یہ ہاتھ سے روکنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ معاشرے میں آپ کوئی منکرات ہوتا دیکھیں تو کچھ لوگ ڈنڈے اٹھائیں اور مار پیٹ شروع کر دیں کسی مرحلہ پر ایسا ہو سکتا ہے لیکن پہلے قدم کے طور پر ہمیں اپنے ہاتھ پیر کی ساری قوتیں اس اجتماعیت میں ڈال دینا چاہیے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے رہی ہے اور اس کام میں اپنا وقت اور مال بھی لگانا پڑے گا۔پھر اگر یہ نہیں کر سکتے تو اپنی زبان سے رائے عامہ کو بیدار کرنے کی کوششیں کرتے رہیں یہ اسی وقت ہو سکے گا جب ہمارے دل میں اس بات کی تڑپ ہو کہ اگر ہمارے پاس وقت اور مال ہوتا تو ہم بھی اس میں جان و مال کی قربانی دیتے،پھر تیسرا مرحلہ دل سے برا جاننے کا ہے جو ایمان کا آخری درجہ ہے ۔جس معاشرے میں پہلے مرحلے کے لوگ زیادہ ہوں ،دوسرے مرحلے کے اس سے کم ہوں اور تیسرے مرحلے کے اس سے بھی کم تو اس معاشرے میں بھلائیوں کو فروغ حاصل ہوتا ہے لیکن اگر معاملہ اس کے الٹ ہو تو جیسا کے آج ہمارے معاشرے میں نظر آتا ہے تو پھر وہاں برائیاں منظم ہوتی جاتی ہیں ۔ان بزرگ نے بھی اس برائی کو اپنے ہاتھوں سے ختم کرنے کا منصوبہ بنایا لیکن بہت ہی حکمت اور تدبر کے ساتھ ۔وہ بزرگ ایک دن اس طوائف کے کوٹھے پر پہنچ گئے اور باہر ان کے کارندوں سے ملاقات ہوئی جو اس متقی پرہیز گار شخصیت کو دیکھ کر بہت حیران و پریشان ہوئے پوچھا یاحضرت آپ یہاں،انھوں نے کہا ہاں میں یہاں اس عورت کے ساتھ رات گزارنے آیا ہوں تم جتنے پیسے بتاؤ گے میں ابھی ادا کروں گا ۔وہ پھر گھگھیا کر بولے یا حضرت۔۔۔۔بزرگ بولے دیکھو تمھارے یہاں کا یہ اصول ہے کہ جو یہاں آتے ہیں ان کے بارے میں کسی کو بتایا نہیں جاتا ۔میں اگر تم سے یہ پوچھوں کہ کل یہاں کون آیا تھا یا پرسوں والے دن کون آیا تھا تو کیا تم بتاؤ گے ۔ان کارندوں نے جواب دیا یہ ہمارے یہاں کا اصول ہے کہ اگر دو بھائی بھی آرہے ہوں گے تو انھیں بھی ایک دوسرے کے بارے میں کچھ پتا نہ ہوگا ۔ان بزرگ نے کہا پھر میں بھی یہ امید رکھوں کہ میرے یہاں آنے کا کسی کو پتانہیں چلے گا ۔بہر حال وہ ایک رات کی بکنگ کی ادائیگی کرکے اس طوائف کے کوٹھے پر اس کے کمرے میں چلے گئے ۔اس کے بعد کیا ہوا یہ ہم بتاتے ہیں کچھ جملوں کے بعد کہ کچھ بات جمشید دستی کے حوالے سے ہو جائے کہ جب سے جمشید دستی نے پارلیمنٹ لاجز کی خفیہ کارستانیوں کا پردہ چاک کیا ہے ،کچھ لوگ بالخصوص برسراقتدار ن لیگ کے حضرات بہت جزبز ہورہے ہیں کہ جیسے ان ہی کا پردہ چاک ہوا ہے جمشید دستی نے کہا کہ پارلیمنٹ لاجز میں چرس کی بو آتی ہے شراب اور شباب کی محفلیں جمائی جاتی ہیں ۔چینی کہاوت ہے کہ مچھلی سر کی طرف سے سڑنا شروع ہوتی ہے ۔اسلام آباد کی حیثیت پورے ملک کے سر کی مانند ہے یہاں سے اٹھنے والی بو پورے ملک میں پھیل سکتی ہے ۔جمشید دستی نے تو ایک برائی کی نشاندہی کی تھی اس نے کسی فرد کانام نہیں لیا تھا لیکن ہمارے سیاستداں جنھیں محسوس ہوتا ہے کہ شاید زیادہ چوٹ لگی ہے وہ جمشید دستی کا نام لے کر اس کی ذات کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں ۔اب اگر آپ جمشید دستی کی طرف سے برائی کیخلاف اٹھنے والی پر امن آواز کو دبانے اور کسی قسم کی سیاست کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کریں گے اور اس کی نیت پر حملہ کریں گے تو دوسرے لفظوں میں آپ طالبان کے طرز فکر کی حمایت کرتے ہوئے نظرآئیں گے ۔پھر عابد شیر علی اور رانا ثناء اﷲ یہ نے کہیں کے ہم طالبان کی ڈنڈا بردار شریعت نافذ نہیں ہونے دیں گے۔جب آپ پرامن شریعت کا راستہ روکیں گے تو حالات فطری طور سے اپنا خود راستہ بناتے ہیں۔لہذا آج طالبان کے حوالے سے جو معاشرتی ہلچل مچی ہوئی ہے اس کے اصل ذمہ دار ہمارے حکمران ہی ہیں ۔سورہ مائدہ کی آیات78.79 کا ترجمہ ہے "بنی اسرائیل میں جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ان پر داؤد اور عیسیٰ ابن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی کیونکہ وہ سرکش ہوگئے تھے اور ذ یادتیاں کرنے لگے تھے ،انھوں نے ایک دوسرے کو برے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوڑدیا تھا بر ا طرزعمل تھا جو انھوں نے اختیار کیا "مولانا مودودی نے اس کی تشریح میں کہا ہے کہ "ہر قوم کا بگاڑ ابتداء َچند افراد سے شروع ہوتا ہے اگر قوم کا اجتماعی ضمیر زندہ ہوتا ہے تو رائے عام ان بگڑے ہوئے افراد کو دبائے رکھتی ہے اور قوم بہ حیثیت مجموعی بگڑنے نہیں پاتی لیکن اگر قوم ان افراد کے معاملے میں تساہل شروع کردیتی ہے اور غلط کار لوگوں کو ملامت کرنے کے بجائے انھیں سوسائیٹی میں غلط کاری کے لیے آزاد چھوڑ دیتی ہے تو پھر رفتہ رفتہ ایسی خرابی جو چند افراد تک تھی پوری قوم میں پھیل کر رہتی ہے یہی چیز بنی اسرائیل کے بگاڑ کا سبب بنی"اس سلسلے میں کئی احادیث بھی ہیں جن کا مرکزی مفہوم ہے کہ جس معاشرے میں لوگ برائیوں پر روکنا ٹوکنا چھوڑ دیتے ہیں ان پر اﷲ تعالی عذاب کی مختلف شکلیں نازل کرتا ہے پھر وہ لوگ اگر دعائیں بھی مانگیں گے تو وہ قبول نہیں ہوں گی جمشید دستی ممبر قومی اسمبلی اور اس قوم کے بااثر فرد ہیں انھوں نے ایک برائی کے خلاف آواز اٹھا کر پوری قوم کی طرف سے فرض کفائیہ ادا کیا ہے ۔انھوں نے ہمت ،حکمت ،حمیت اور اخلاص سے ایک مسئلے کو اٹھایا ہے شکر ہے کہ اسپیکر صاحب نے اس پر ایکشن لیا جمشید دستی نے ثبوت بھی پیش کردیے ہیں ۔اسپیکر صاحب نے ایک آٹھ رکنی پارلیمانی کمیٹی بھی بنادی ہے جو اس کی تحقیقات کر کے ذمہ داران کے لیے سزائیں تجویز کرے گی۔دعوت دین اور معاشرے میں برائیوں کے خلاف جدوجہد کے لیے حمیت، ہمت، حکمت، اخلاص اور پھر اﷲ سے دعا مانگنے کی بھی ضرورت ہے جس طرح ان بزرگ نے کیا جن کا قصہ سنایا جارہاتھا کہ جب وہ کمرے میں پہنچے وہ بری عورت انھیں دیکھ کر گھبرا گئی اس کے حلق سے آواز بھی نکل نہیں پا رہی تھی ۔بزرگ نے کہاگھبراؤ نہیں میں بھی دوسرے لوگوں کی طرح ادائیگی کر کے آیا ہوں اب جس طرح تم دیگر افراد کے کہنے پر عمل کرتی ہو کہ جو کچھ وہ کہتے ہیں تم کرتی ہو اس لیے آج جو کچھ میں کہوں تمھیں اس پر عمل کرنا ہو گا ۔تم جاؤ پہلے غسل کرکے آؤ وہ جب واپس آئی تو بزرگ نے کہا کہ اب دورکعت نماز پڑھواور پھر جو تمھارے دل میں ہو وہ دعا مانگو وہ برائی میں ملوث عورت جب نماز کے لیے کھڑی ہوئی تو وہ بزرگ خاموشی سے وہاں سے نکل آئے اور قریب کی مسجد میں جاکر دورکعت نوافل خود بھی اداکیے اور دعامانگی کے اے اﷲ اس شہر کی سب سے زیادہ برائی میں آلودہ عورت کاسر میں نے تیرے آگے جھکا دیا ہے اس عورت نے اپنی پیشانی تیرے سامنے رکھ دی ہے اب اس کے قلب کو بدلنا تیر ا کام ہے میں جہاں تک اس برائی کے خلاف کام کرسکتا تھا وہ میں نے کر دیا اب تو اپنا کام کردے ۔ادھر وہ بری عورت جب نماز پڑھ چکی تو اس کے دل کی دنیا بدل چکی تھی ۔اس نے توبہ کی اور گڑگڑا کر دعائیں مانگی اور اس طرح ان بزرگ کی کوششوں سے ایک بری عورت نیک خاتون ہی نہیں بنی بلکہ وہ اپنے وقت کی زاہدہ وعابدہ خاتو ن کی حیثیت سے مشہور ہوئی۔

Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 60 Articles with 40058 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.