پاکستان اور عدم توازن

ہر علاقے اور ہر خطے کا اپنا مزاج اپنا رہن سہن روایات اور عادات ہوتی ہیں۔ کسی شہر کے لوگ عمومی طور پہ سخت دل اور سنگ دل اور کسی کے نرم خو اور نرم گفتار۔پاکستان کا معاملہ اس سے بھی تھوڑا ٓگے ہے۔یہاں ایک شہر کے مختلف محلوں کا مزاج بھی آپس میں نہیں ملتا۔پنڈی شہر ہی کو لیں تو ڈھوک سیداں کا مزاج کچھ اور ہے اور رتہ امرال کا کچھ اور،چکلالہ سکیم تھری کا مزاج بالکل مختلف۔تھوڑا ٓگے نکلیں تو بحریہ ٹاؤن ہے اور ڈیفنس،ان علاقوں کا مزاج اور رہن سہن ایسا کہ یہ پاکستان کے علاقے ہی نہیں لگتے۔ ان کا لباس نہ زبان کچھ بھی تو عام پاکستانی سے نہیں ملتا۔بحریہ ٹاؤن سے نکل کے آپ ایئر پورٹ کے راستے پنڈی میں داخل ہوئے بغیر اسلام آباد چلے جائیں تو دنیا کا خوبصورت ترین دارلخلافہ بھی یہی منظر پیش کرتا نظر آئے گا۔ اسلام آباد کو کسی زمانے میں لوگ بابؤں کا شہر کہتے تھے۔ اب بابو کہیں گم ہو گئے ہیں۔ شہر بستا ہے تو اپن ساتھ شہری زندگی کے سارے اچھے برے لوازمات بھی لے کے آتا ہے۔اسلام آباد آہستہ آہستہ ان لوازمات سے مسلح ہو رہا ہے۔

روس کی افغانستان پہ جارحیت سے قبل پاکستان دھیمے مزاج کا ایک ملک تھا۔ جہاں اختلافات تو تھے لیکن ان اختلافات پہ کوئی کسی کی جان لینے کے درپے نہیں تھا۔ پھر افغانستان میں جنگ کی وجہ سے مہاجرین کاایک سیلاب پاکستان میں در آیا۔ یہی صورت حال ایران کی بھی تھی۔ایران نے ان مہاجرین کو کیمپوں میں پابند کیا اور انہیں عام عوام میں گھلنے ملنے نہیں دیا جبکہ ہم نے انہی افغانیوں کو اپنی بستیوں میں اپنے گھروں میں رکھا۔یہ لوگ چونکہ لٹے پٹے یہاں پہنچے تھے اس لئے انہوں نے پیٹ کا آگ بھرنے کو بھیک مانگی،مزدوری کی اور ایسی جان توڑ مزدوری کہ ہم نے مقامی لوگوں کو کام دینا ہی بند کر دیا کہ ایک افغانی چار آدمیوں کا کام کیا کرتا تھا۔مزدوری ملنا شروع ہوئی تو خوشحالی بھی آئی۔ اسی اثناء میں افغانیوں کی دوسری نسل جوان ہونا شروع ہوئی۔ اس نسل نے معاشرے میں لالچ اور خود غرضی کا مشاہدہ کیا اور اپنے بزرگوں کے راستے سے ہٹ کے دولت کمانے کا آسان راستہ تلاش کرنا شروع کر دیا۔معاشرے میں پھیلی خود غرضی اور لالچ جب ان کی طاقت اور پیسہ کمانے کی خواہش کے ساتھ ملی تو پھر وہ ہوا جس کا نتیجہ ہم آج بھگت رہے ہیں۔

لالچ میں اندھے ان نوجوانوں نے شروع شروع میں چھوٹی موٹی چوریاں کیں۔ پھر ڈاکو بنے ڈکیٹ بنے اور اس کے بعد یہ سماج دشمن تربیت یافتہ فورس دشمن کی ایجنٹ بن گئی۔ آپ نے کچھ بھی کروانا ہو عین اسلام آباد کے دل میں آپ کو ایسے لوگ بھی مل سکتے ہیں جو پیسے لے کے اپنے ہی باپ کو بم سے اڑا سکتے ہیں۔ایسے میں دشمن کو کیا پڑی ہے کہ وہ اپنے لوگوں کو خطرات کی آگ میں جھونک دے۔ یہ ہمارے اندر یوں گھل مل گئے ہیں کہ انہیں اب پہچاننا بھی مشکل ہے۔ یہ ہماری زبان بولتے ہیں، ہمارا لباس پہنتے ہیں ۔فرق اگر ہے توصرف یہ کہ انہیں اس ملک قوم اور ریاست سے نہ تو کوئی پیار ہے اور نہ اس کا کوئی لحاظ۔ان کے لئے اس کا وجود ایک ویشا کی طرح ہے جسے نائیکہ صرف کمائی کا ذریعہ سمجھتی ہے اور اس کے مستقبل اور صحت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔یہ کرائے کے فوجی ہیں جو عین دارالحکومت کے اندر موجود ہیں اور ان کی خدمات ہر ایک کے لئے ہیں۔

یہ سب ہمارا اپنا کیا دھرا ہے۔ہم نوزائیدہ ریاست ہیں۔ جی ہاں ساٹھ ستر سال کسی ریاست کے لئے کوئی بڑی عمر نہیں ہوتی۔ ہم نے پالنے میں ہی اتنے دشمن پال لئے ہیں کہ اﷲ کی پناہ۔پھر ہمیں انگوٹھا رکھنے کا بھی شوق ہے۔ اپنی سلامتی کی کوئی گارنٹی نہیں اور ہم امہ کی اماں بننے کی سعی لا حاصل کر رہے۔نیل کے ساحل سے تا بخاک کاشغر۔علامہ اقبال نے غلط نہیں کہا تھا۔ ہم پیدا ہوتے ہی نیل کے ساحل اور کاشغر کی طرف چل پڑے جبکہ ہمیں پہلے گھر کو مضبوط کرنا چاہیئے تھا۔ اب گرے دودھ پہ رونے کا کیا فائدہ۔ ہم نے ریاست کی ذمہ داریوں کو آؤٹ سورس کر دیا تھا۔ ہمیں نیل کے ساحل اور کاشغر سے لوٹ کے پاکستان آنا اور اپنی ڈوبتی ناؤ کو بچانا ہے۔ہمیں جان لینا چاہیئے کہ نیل کا ساحل مصر اور کاشغر چین کا حصہ ہے اور ان کی ذمہ داری۔وہ اس کا کچھ نہ کچھ کر لیں گے۔ہمیں اپنے ملک کی فکر کرنی چاہیئے۔

حکومت کے لتے لینے سے کام نہیں چلے گا۔ ایجنسیوں کی ریڑھ کی ہڈی پہ وار کرنا بھی فائدہ مند نہیں ہو گا۔ فوج کو گالی دینے سے بھی معاملات درست نہیں ہو سکتے۔ ہمیں اب کھل کے کسی ایک طرف ہونا ہو گا۔ریاست کے ساتھ یا ریاست کے خلاف۔ہمیں اعلان جنگ کرنا ہو گا۔ بھاڑ میں گئے ایسے انسانی حقوق جس کو بنیاد بنا کے لوگوں کے گلے کاٹے جائیں۔بازاروں میں دھماکے کئے جائیں۔ ہم سیاسی مقاصد کے لئے تو ایمرجنسیاں لگاتے ہی رہیں تو ایک ایمرجنسی ریاست کو بچانے کے لئے کیوں نہیں۔یہ بقا کی جنگ ہے تو اسے جنگ کی طرح لڑیں اور جنگ منت اور ترلوں سے نہیں لڑی جا سکتی۔ کھل کے سماج دشمن لوگوں کو بے نقاب کریں اور پھر ان کے خلاف اعلان جنگ۔ جو امن کی طرف آنا چاہیں انہیں بھٹکا ہوا سمجھ کے گلے لگائیں اور جو جنگ پہ آمادہ ہوں ان کا نام و نشان مٹا دیں۔

اسلام آباد سے شروع کریں۔ ٹینک اور توپیں کھڑی کریں اور جو غیر ملکی ہیں انہیں ملک سے نکل جانے کا حکم دیں۔ جو ناجائز قابض ہیں انہیں بزور طاقت ہٹائیں۔ اندرا گاندھی قتل ہو گئی تھی لیکن اس نے ٹوٹے ہوئے پنجاب کو دوباہ بھارت سے جوڑ دیا تھا۔ ریاست اب فیصلہ سازوں سے قربانی مانگتی ہے۔ عوام کی قربانیوں کا وقت تمام ہوا اب خواص کی باری ہے کہ وہ قربانی کے لئے تیار ہوں ۔مرنا تو ویسے بھی ہے تو کیوں نہ عزت سے مرا جائے۔رٹ رٹ کی رٹ لگانے سے رٹ اسٹیبلش نہیں ہوتی اس کے لئے میدان میں نکلنا پڑتا ہے۔ جہاں آپ میدان میں نکلے ہیں وہاں آج آپ کی رٹ ہے ۔جہاں آپ بنکروں میں چھپے ہوئے ہیں وہاں لوگ آپ سے پانچ منٹ کی ڈرائیو پہ لوگوں کو بھون رہے ہیں۔ یہ رو رعایت کا نہیں حشر اٹھانے کا ٹائم ہے جناب والا۔

سری لنکا کے جنرل سے کسی نے پوچھا کہ باغیوں کی معافی کا کوئی راستہ؟ اس کا جواب بہت مختصر تھا۔معاف کرنے والا اﷲ ہے۔ ہمارا کام ہے کہ ہم اﷲ سے باغیوں کی جلد از جلد ملاقات کا اہتمام کریں۔

Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 269148 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More