بسم اللہ الرحمٰنِ الرحیم
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا اِنَّ کَثِیۡرًا مِّنَ الۡاَحْبَارِ وَ
الرُّہۡبَانِ لَیَاۡکُلُوۡنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَیَصُدُّوۡنَ
عَنۡ سَبِیۡلِ اللہِ ط وَالَّذِیۡنَ یَکْنِزُوۡنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ
وَلَا یُنۡفِقُوۡنَہَا فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ ۙ فَبَشِّرْہُمۡ بِعَذَابٍ
اَلِیۡمٍ (34)
ترجمہ - اے ایمان والو بیشک بہت پادری اور جوگی لوگوں کا مال ناحق کھا جاتے
ہیں - اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور وہ کہ جوڑ کر رکھتے ہیں سونا اور
چاندی اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے
انہیں خوشخبری سناؤ دردناک عذاب کی -
دسواں پارہ آیت نمبر (34) سورہ التوبة
شانِ نُزول : سدی کا قول ہے کہ یہ آیت مانعینِ زکٰوۃ کے حق میں نازِل ہوئی
جب کہ اللہ تعالٰی نے اَحبار اور رُہبان کی حرصِ مال کا ذکر فرمایا تو
مسلمانوں کو مال جمع کرنے اور اس کے حقوق ادا نہ کرنے سے حذر دلایا ۔ حضرت
ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جس مال کی زکٰوۃ دی گئی وہ کنز نہیں
خواہ دفینہ ہی ہو اور جس کی زکٰوۃ نہ دی گئی وہ کنز ہے جس کا ذکر قرآن میں
ہوا کہ اس کے مالک کو اس سے داغ دیا جائے گا ۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم سے اصحاب نے عرض کیا کہ سونے چاندی کا تو یہ حال معلوم ہوا پھر
کون سا مال بہتر ہے جس کو جمع کیا جائے ۔ فرمایا ذکر کرنے والی زبان اور
شکر کرنے والا دل اور نیک بی بی جو ایماندار کی اس کے ایمان پر مدد کرے
یعنی پرہیزگار ہو کہ اس کی صحبت سے طاعت و عبادت کا شوق بڑھے(رواہ الترمذی)
مسئلہ : مال کا جمع کرنا مباح ہے مذموم نہیں جب کہ اس کے حقوق ادا کئے
جائیں ۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت طلحٰہ وغیرہ اصحاب مالدار تھے اور
جو اصحاب کہ جمعِ مال سے نفرت رکھتے تھے وہ ان پر اعتراض نہ کرتے تھے ۔
( ترجمہ کنزالایمان نورالعرفان )
فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس کو اللہ نے مال دیا پھر
اُس نے اس کی زکواۃ نہ ادا کی تو اس کا یہ مال اس کیلئے گنجا سانپ بنایا
جائیگا جسکی ٓانکھوں پر دو سیاہ نقطے ہوں گے اور وہ سانپ قیامت کے دن اس کی
گردن میں بطور طوق ڈالا جائیگا پھر سانپ اس کے منہ کے دونوں کناروں کو یعنی
باچھوں کو پکڑے گا پھر کہے گا میں تیرا مال ہوں میں تیرا خزانہ ہوں پھر آپ
نے یہ آیت تلاوت فرمائی
(ترجمہ )جو لوگ بُخل کرتے ہیں یہ گُمان نہ کریں کہ انہیں اللہ کے فضل میں
سےکچھ پہنچے گا
(راوہ البُخاری ۔ مشکواۃ)
محترم قارئیں کرام زکواۃ اسلام کا رُکن ہے اس کی فرضییت قرآنِ مجید احادیث
اور اجماع اُمت سے ثابت ہے اسلئے زکوٰۃ کا مُنکر کافر اور زکوٰۃ ـ عشر کا
تارک مانع کنہگار اور مُستحق قتل ہے، زکوٰۃ ایک محکم فرض ہے جس کا انکار
کرنے والا کافر ہوجاتا ہے اور اسے ادا نہ کرنے والا واجِبُ القتل
ہو جاتا ہے ۔۔ ( فتاوٰی عالمگیری ۱۷۰ : ۱ ) |