’’اُردو کا آغاز بڑی شان و شوکت
سے ہوا۔ لشکر سے مارکیٹ میں آئی پھر شاہی درباروں کی زینت بنی، درویشوں
فقیروں اور ولیوں نے اسے گلے لگایا اور پیغامِ محبت اسی زبان سے عوام تک
پہنچایا۔ اُردو آج بھی اتنی ہی میٹھی، شائستہ ، مقبول زبان اور مقبولِ عام
بھی ہے جتنی پہلے تھی۔ پھر ایک زلزلہ آیا اور اردو کا باغ اُجڑنے لگا۔ یہ
مضمون لکھنے کی ضرورت تو نہ تھی مگر چونکہ علاقائی زبانوں کو قومی زبان
بنانے کی قرار داد نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا یوں یہ مضمون لکھنے پر
ذہن نے اُکسایا پھر کیا تھا قلم نے کروٹ لی اور ’’اُردو ‘‘ پر یہ تحریر
ہوگیا۔ اس مضمون کو اُردو کی شامِ غم کا داستان کہیں تو حرج نہیں۔ اس کے
پڑھنے سے ’’اردو‘‘ کی اہمیت اُجاگر ہوگی بلکہ اُردو سے شغف رکھنے والوں کا
بھلا ہی ہوگا۔
اردو کی ابتدا کے متعلق مور خان ہند کی چار رائے ہے۔ پہلی رائے یہ ہے کہ
اُردو بابا فرید کی خانقاہ جو پاک پٹن پنجاب (پاکستان) میں ہے وہاں پیدا
ہوئی۔ دوسری رائے کے مطابق اُردو امیر خسرو کے سینے سے نکلی ہے اور حضرت
نظام الدین اولیاء کی درگاہ جو بستی نظام الدین دہلی میں واقع ہے وہاں جنم
لیا۔ تیسری رائے یہ ہے کہ اُردو کا آغاز سب سے پہلے سندھ میں ہوا جب عربوں
نے سندھ کو فتح کیا۔ شاید اسی لیئے اُردو کا رسم الخط عربی سے لیا گیا۔ اور
اسی لیئے سندھی زبان کا رسم الخط بھی اربک ہے۔ اور چوتھی رائے یہ ہے کہ
اُردو جنوبی ہندوستان کی ریاستوں یعنی گولکنڈہ اور بیجا پور کی زبان ہے اور
اس کا اصلی نام دکنی ہے۔ دکنی کی مٹھاس بالکل اُردو جیسی ہے۔ ان ریاستوں
میں اردو نہ صرف پہلی زبان تھی بلکہ ذریعہ تعلیم بھی تھی۔جب کہ ولی اورنگ
آبادی نے اس کا نام ریختہ رکھا۔
فی الواقعہ یہ حقیقت سب پر آشکار ہے کہ اُردو ایک لطیف زبان ہے اور اس کے
لہجے کی شیرینی اور پیرائے نزاکت ہی اس کی لطیف مقبولیت کا سبب بھی ہے۔ یہ
ایسی زبان ہے جس میں پیار و محبت، حسن و عشق کی چاشنی شامل ہے۔یہ بھی کہا
جاتا ہے کہ مختلف تہذیبوں ، فرقوں، زبانوں کے لوگوں کے اختلاط اور میل جول
سے یہ زبان وجود میں آئی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس زبان کے خمیر میں اتحاد و
یکجہتی کُوٹ کُوٹ کر پیوست ہے۔ تقسیمِ وطن سے پہلے اور اس کے بعد اردو ایک
خاص گلدستہ کی شکل میں دنیا بھر میں سجایا گیا۔ رفتہ رفتہ میڈیا اور ذرائع
ابلاغ کی دنیا میں آنے والی تبدیلیوں کا آج اس زبانِ نِسیاں سے نکل کر
ہماری روز مرہ کی عملی زندگی میں رچ بس گیا ہے۔ زبانی طور پر ہی سہی اُردو
ہمارے ملک کی سرکاری زبان ہے یوں اس کی بہتری کے لیئے ، اس کی احیاء و
نگہداری کے لیئے ہمہ وقت مستعد رہنا چاہیئے۔ اور ویسے بھی جب ملک و زبان کی
ترویج کی بات آتی ہے تو ہماری قوم یک جان دو قالب کے مصداق ایک ہو جاتی ہیں۔
تاریخ شاہد ہے کہ اُردو نے ان زبانوں کے دستر خوانوں سے خوشہ چینی کی ہے جو
خود اپنے ملک میں مکمل اور وسیع رہی ہیں۔ اُردو زبان کا بڑا ماخذ فارسی
زبان ہے جو نہ صرف ایران میں رائج ہے بلکہ مغل بادشاہوں کے دور میں درباری
زبان کا فخر رکھتی ہے۔
لبِّ لُباب یہ ہے کہ اُردو ایک خالص پاکستانی زبان ہے۔ ہندوستان میں پیدا
ضرور ہوئی (اس میں بھی تضاد ہے کیونکہ ایک رائے جس کا ذکر اوپر کی سطروں
میں ذکر ہوا کہ اردو کی پیدائش پاک پٹن کی ہے)مگر اس کی نشو و نما ہماری
ذمہ داریوں میں تھی۔ ہاں! یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستان کا کوئی خطہ ایسا
نہیں جہاں اُردو نہ سمجھی جاتی ہو۔ مگر یہ بھی کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اُردو
کی سمجھ بوجھ تو دنیا بھر میں ہے۔ میر و غالب، اقبال، پریم چند، فیض، فراق
، فکر تونسوی، کرشن چندر، اور آج کہ کئی شاعر نے اردو کو اپنے خون سے سینچا
ہے۔ آج ان جیسا کوئی شاید کوئی نہ ہو۔
اُردو زبان محبتوں کا محور و کرکز ہے۔ اور محبت کی اپنی الگ ہی زباں ہوتی
ہے ، اگر محبت سے خرد مندی مشروط ہوتی تو نہ کوئی مجنوں دشت میں جانا، نہ
کوئی کوہ کن، عشرت گہِ خسرو سجانے کو کبھی تیشہ اٹھاتا اور نہ کوئی سوہنی
کچے گھڑے پہ چڑھتے دریا کو پار کرتی۔ نہ تم برباد کرتے میری تمنا کو اور نہ
میں الزام دیتا اپنی ناکامی پہ دنیا کو کیونکہ محبت سے خرد مندی مشروط ہے۔
مگر آج اپنی ثقافت، تہذیب اور رسم و رواج کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ
قومی زبان کو بھی کندھا دینا پڑے گا۔(خاکم بہ دہن میرے منہ میں خاک) مگر یہ
تمام منظر کشی دیکھ کر میں حیران و پریشان ہوئے بغیر نہ رہ سکا کہ جو سلوک
آج اس زبان کے ساتھ ہو رہا ہے ۔
ویسے تو اُردو زبان کی ابتدا ء کے بارے میں متضاد آراء پائی جاتی رہی ہیں
مگر غالب امکان یہی ہے کہ یہ ۱۰۰۰ سنِ عیسویں میں وجود میں آگئی تھی البتہ
اس کی ارتقائی مدارج میں کافی وسعت پائی جاتی ہے۔ جب مسلمان فاتحین صوبۂ
سندھ میں حملہ آور ہوئے اور یہاں پر ان کی حکومتیں قائم ہوئیں تو یہاں کے
رہن سہن اور مسلمان فاتحین کے درمیان ’’ اختلاط ‘‘ کے ثبوت آج بھی سندھی
زبان میں عربی کی آمیزش ہم محسوس کرتے ہیں مگر مسلمان فاتحین میں عربی
افراد اور کچھ ایرانی افراد بھی تھے۔ یوں مشترکہ زبان عربی اور فارسی سے
ملکر ’’ اُردو ‘‘ وجود میں آئی۔ حقیقت میں تو یہ ایک احساس ہے لیکن اس کی
صداقت کا کوئی ثبوت مہیّا نہ ہو سکا۔
آیئے اب اُردو زبان کی مضبوطی کے لیئے اُن پہلوؤں پر نظر ڈالتے ہیں جن پر
نظرِ ثانی کرنے سے ہماری قومی زبان بہتری کی طرف گامزن ہوگی۔ اور یوں ہمیں
یہ دعویٰ کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ اُردو زبان میں ترقی کرنے اور وسعت
پانے کا فطری جوہر موجود ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کی فطری صلاحیتوں کو
بروئے کار لایا جائے۔ ہمارے ملکی، سیاسی، ثقافتی، تجارتی اور ملّی حالات اس
بات کی متقاضی ہیں کہ پاکستان میں اُردو کو قومی زبان واقعی قرار دے کر اس
کو وہی مقام دیا جائے جو کہ پاکستان کے صفحۂ ہستی پر آنے سے پہلے انگریزی
زبان کو حاصل تھا۔ عوام کی گفتگو ، جلسوں، تقریروں، تجارتی اشیاء کے لین
دین، ڈاکخانے کے ٹکٹ ہر جگہ صرف اردو کا استعمال ہو۔ یوں مختلف طبقات کے
لوگوں کی روزانہ بول چال میں اُردو آجائے گی اور اس طرح اُردو کو وسیع ہونے
کا درجہ ملے گا۔ پاکستان میں لازمی طور پر اُردو کو سرکاری و دفتری زبان
قرار دیا جائے۔ ابتدا میں یقینا کچھ دقت تو ہوگی مگر یہ وقتی دقت کوئی
اہمیت نہیں رکھتی کیونکہ قیامِ پاکستان سے پہلے بھی ماتحت عدالتوں میں
اُردو کا رواج تھا اور اب بھی ہے۔ صوبائی اور مرکزی دفاتر کا کاروبار چلانے
کے لیئے ہم قومی ’’ دارالترجمہ ‘‘ کا قیام عمل میں لائیں۔ پھر خود سرکاری
ملازمین بھی اردو میں دسترس حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ یوں علمی سرمائے
میں وسعت کے ساتھ ساتھ یہ ترقی کا باعث بھی ہوگا۔حیران ہونے کی ضرورت نہیں
بلکہ آپ ہی اس زبان کی نشو نما کرنے کے مجاز ہیں اور آپ ہی اس کی ترقی کے
لیئے عملی جد و جہد کر سکتے ہیں بقول شاعر:
رکھتے ہیں جو اوروں کے لیئے پیار کا جذبہ
وہ لوگ کبھی ٹوٹ کر بکھرا نہیں کرتے |