جب انسان دولت کو پاکر خداکو
بھول جاتا ہے تو کیاہوتاہے ؟؟
سیٹھ آفاق احمد عربی کی خودکشی نے پورے شہر کو ہلاکر رکھ دیاتھا کیونکہ
سیٹھ صاحب پورئے شہر کی جانی پہچانی امیروکبیر شخصیت تھے وہ کاروباری حلقے
میں ایک اعلٰی درجہ رکھتے تھے اُن کی شہر میں اپنی 4 فیکڑیز تھی اس لیے وہ
بہت خوش حال زندگی گزار رہے تھے اُن کی اولاد میں ایک بیٹاعلی آفاق اور ایک
بیٹی عاتکہ آفاق تھی جو کہ تعلیم کی غرض سے دوسرئے شہر میں رہتے تھے ۔
پورے شہر میں سیٹھ صاحب کی موت کے حوالے سے قیاس آرائیاں کی جارہی تھی ،کوئی
کیا کہتاتو کوئی کیا کہتا غرض یہ کہ جتنے منہ اُتنی باتیں ۔جنازے کی اطلاع
تما م دوست احباب کو دے دی گئی لیکن اس افسوس ناک خبر سے عاتکہ آفاق کو
لاعلم رکھاگیا تھا کیونکہ اُسکے ایم بی بی ایس کے لاسٹ ائیر کے پیپر چل رہے
تھے۔خیرشام کو سیٹھ صاحب کو سپرد خاک کر دیا گیااور ان کی رسم قل خوانی کا
اعلان تیسرے دن کا کیا گیا ۔
تیسرے دن قل خوانی سیٹھ صاحب کی کوٹھی کے کھلے پلاٹ میں اداکی جارہی
تھی،کوئی قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے،کوئی درود پا ک کا ورد،توکوئی سیٹھ
صاحب کی مو ت پر تبصرئے۔
اچانک کوٹھی کے اندر سے خوف نا ک قسم کی چیخ وپکار شروع ہو گئی جس پر باہر
بیٹھے ہوئے فیملی کے لوگ اندر بھاگے جبکہ باہر بیٹھے لوگ خاصے مضطراب تھے
کہ خدا خیر کر یں کہ کیا معمہ ہے،چند ساعتوں کے یہ خبر آئی کہ سیٹھ صاحب کی
بیٹی نے یونیورسٹی میں خود کشی کر لی ہے یونیو رسٹی انتظامیہ نے فون پر ا
طلاع د ی ہے اور ڈیڈباڈی لے جانے کو کہا ہے اب جیسے تیسے قل خوانی مکمل کر
وائی گئی اور چندفیملی ممبرزیونیورسٹی روانہ ہوگئے۔
یونیورسٹی میں عا تکہ کی روم میٹ سے جب کچھ پوچھا گیا تواُس نے بتایا کہ
پیپر کی رات عاتکہ کافی ڈسٹرب تھی میں نے اس سے پوچھا بھی لیکن اُس نے ٹال
دیا،صبح ہم پیپر دینے کے لیے آدھے راستے تک آئے تو عاتکہ نے کہا وہ اپنا پن
کمرے میں بھول آئی ہے جا کر لے آتی ہے پھر میں پیپر دینے کے لیے ہال میں
آگئی عاتکہ کارول نمبرکافی پیچھے تھا اور پھر پیپر بھی کا فی مشکل تھا اس
لیے عاتکہ کا خیا ل ذہن سے نکل گیا کہ وہ آئی یانہیں پھر جب میں واپس آئی
تو کمرئے کادروازہ بند تھا میں سمجھی کہ پیپر کی ٹینشن کی وجہ سے اِس نے
دروازہ بند کیا ہو اہے جب نے میں آکر دروازہ بجایا تودروازہ نہ کھلا تومیں
زور زور سے بجا یا تب بھی نہ کھلا تو میں سہیلیوں کو بلا یا پھرہم نے
سیکورٹی گارڈ کوبلایا تواُسنے کھڑکی سے جھانکاتو اس کی چیخ نکل گئی تب اُس
نے دروازہ توڑڈالا جب ہم اندر داخل ہوئے تو ہما ری چیخیں نکل گئی کیو نکہ
عاتکہ کے گلے میں پھنداتھا اور وہ پنکھے سے لٹک رہی تھی جس پر اس کو جلدی
سے نیچے اُتارا گیا یونیورسٹی انتظامیہ کواطلا ع دی اور جلدی سے یونیورسٹی
کے معالج کو بلا یا گیا مگر افسوس عاتکہ مر چکی تھی۔
عاتکہ کی لاش کو گھرلایا گیااس کی ماں اور بھائی کو غشی کے دورے پڑرہے تھے
، اب دونوں خود کشیا ں راز بن چکی تھی اب گھر والوں کی طرف سے رپٹ درج
کروائی گئی،تھانے کے ڈی پی او صاحب سیٹھ صاحب کے دوست تھے انہوں نے ذاتی دل
چسپی سے اس کیس کی تفشیش کی مگر کو ئی ٹھوس بات سامنے نہ آئی بس صرف اتنا
پتا چل سکا کہ سیٹھ صاحب مرنے سے ایک دن پہلے کاروباری سلسلے میں دوسرئے
شہر گئے تھے اور پھر واپس آگئے تھے لیکن یہ روٹین کی با ت تھی وہ اسطرح
اکثرکاروبار کی غرض سے آیا جایا کر تے تھے اور عاتکہ کے حوالے سے بھی یہی
خبرتھی کہ وہ مرنے سے پہلے قریبی ما رکیٹ سامان لینے گئی تھی لیکن یہ بھی
روٹین کی با ت تھی کیونکہ لڑکیاں سامان لینے کے لیے اکثر اسی مارکیٹ جا یا
کر تی تھی ،اس لیے بظاہر یہ تفشیش یہی ختم ہوتی تھی اور ادھر گھر والوں نے
بھی اس بات کواللہ کی مرضی سمجھ کر خاموشی سا د ھ لی۔
*****
محمد سلیم، سیٹھ صاحب کے گہر ئے دوست تھے اور ایک نامور صحافی وایڈیٹرتھے
وہ اس سانحہ کے دوران لندن گئے ہوئے تھے وہی پر ان کو وفات کا پتاتوچلا
تھالیکن وہ دل چاہنے کے باوجود بھی نہیں آسکے ۔سلیم آج ہی واپس آئے تھے ۔
سیٹھ صاحب کے گھر سے تعزیت کے بعدوہ اپنے آفس پہنچے توانہیں اپنی میز پر
ایک بند لفافہ ملا ،جس پر انہوں نے اپنے ملازم سے اس بارے پوچھا تو اس نے
کہاکہ یہ سیٹھ آفاق دے گئے تھے اپنی وفات سے ایک دن پہلے،اس پر محمد سلیم
نے جلدی سے اپنے کمرے کا دروازہ بندکیااور بے تابی سے وہ لفافہ کھولاتو
اندر ایک خط تھا جس پر لکھاتھا ،
پیارے دوست اسلام علیکم !!!
جب تم یہ خط پڑھ رہے ہوگے تو اُس وقت میں یعنی سیٹھ آفاق احمد عربی منوں
مٹی کے نیچے سورہا ہوں گا اور دنیا میری موت پرافسو س کی بجائے حیرت کا
اظہا ر کر رہی ہوگی کہ اس خوش حال آدمی کو کیا ہوگیا ہے لیکن ان سب کو کیا
پتا کہ میں کس کیفیت سے گزر رہا ہوں سلیم میں دولت کماتے کماتے بہت دور نکل
آیا تھا ایک برائی کی دنیا میں ،میں اپنی فیکڑیز کی ورکرز لڑکیوں کوڈبل
مراعات دیتااور وہ بے چاری غربت کی ما ری دولت کے بدلے اپنی عزت کا سودامجھ
سے کرتی ،تمہیںیادہو گا کہ تھوڑا عرصہ پہلے میرا ایک بوڑھا ملازم فوت
ہوگیاتھا اور پھر اس کی بیٹی!!! اُن دونوں کا قاتل میں ہوں اُس بوڑھے کی
بیٹی مجھ سے اپنے باپ کے علاج کے لیے ہاتھ جوڑکر پیسے مانگتی رہی،سسکتی رہی
،بلکتی رہی ،مگرمیں نے اُسکی کوئی مد د نہیں کی بلکہ اُلٹااُس سے اُسکی عزت
کے بدے دولت کاسوداکر تا رہامگروہ نہیں مانی اور پھر وہ بوڑھامر گیا ۔جس پر
میں نے اُس کی ماں کو کہامیں تمہاری بیٹی کو نوکری دیتا ہوں لیکن وہ میر ی
اصلیت جان چکی تھی تو اس نے انکار کر دیا ،مگر ماں کے طعنوں ،پانچ نوجوان
بہنوں کابوجھ اوربڑَی ہونے کے ناطے اس نے حامی بھر لی اور میرے ہاں ملازمت
کرلی مگرمیں نے ایک باپ کاحق ادا کر نے کی بجائے کہ یہ لڑکی میری بیٹی کی
ہم عمر ہے اور یتیم ہے اسکے ساتھ شفقت کا برتاؤکر تا،لیکن نہیں میں سب کچھ
بھول گیاتھا اور پھر اک دن اُس لڑکی نے بتا یا کہ سر میں آپ کے بچے کی ماں
بننے والی ہو ں لیکن میں نے سب کچھ سننے سے انکار کردیا جس پر اُس لڑکی نے
بدنامی سے بچنے کے لیے خودکشی کر لی ۔
سلیم میں تب بھی نہ سمجھا یہ بھی بھول گیاکہ میں نے اک دن مرنا ہے بلکہ
اپنی دولت کے زعم میں اس شیطانی کھیل سے باز نہ آیایہ بھی نہ سوچاکہ میر ی
بھی اک بیٹی ہے جسکومیں اپنی جان سے زیادہ عزیزسمجھتاہوں ۔پھر اک د ن مجھے
پتا چلاکہ میرے بیٹے نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر کسی راہ چلتی غریب لڑکی
کوپکڑاہے ،تو بجائے میں اُس کو سمجھاتا لیکن میں نے اس کی ما ں کو صرف
اتناکہا کہ بچہ ہے ،نادان ہے ،عمرہی کیا ہے سمجھ جائے گا۔میں دولت کے نشے
میں خوف خدا کو بھول گیا تھاپھراک دن خدا کی بے آوازلاٹھی آواز میں آگئی۔
اک دن میرئے خفیہ نمبر پر ایس ایم ایس (sms) آیا نیچے کسی لڑکی کا نام تھا
میں نے Voice Changerوائس چینجرکے ذریعے اُس سے بات کی تاکہ کوئی میر ی
کوئی آواز نہ پہچان سکے دوسری طرف ایک لڑکی تھی لیکن میں نے اس کو کہا کہ
تم ایک لڑکے ہو اور مجھے بے وقوف بنارہے ہو جس پر اُس نے میری بات اپنی
کافی ساری لڑکیوں سے کر وائی اور کئی دوسری باتیں میں نے اس سے پوچھی تب
میں نے یقین کرلیاکہ و ہ واقعی لڑکی ہے اس پر ہمارئے درمیان رابطوں کا
سلسلہ چل نکلااور میں نجانے کیوں اس لڑکی جانب بڑھتا ہی بڑھتا چلاگیا ۔
ہم دوسرے سے کافی حد تک فری ہوچکے تھے ہماری روزانہ کا فی دیر بات ہوتی اور
sms بھی ہوتے رہتے جو زیادہ ترگھٹیاہی ہوتے میں ہمیشہ اُس سے vioce
changerکے زریعے بات کر تاپھر اس لڑکی نے میری تصویر مانگی میں اپنی تصویر
بھیجنے کی بجائے اپنی فیکڑی کے ایک خوبصورت نوجوان کی تصویر بھیج دی پھر
اُسنے بھی اپنی تصویر مجھے انٹرنیٹ کے زریعے میل (mail)کر دی اور جواب میں
کہاکہ اسے آپ کی تصویراچھی لگی ہے جس پر میں نے اسکوکہاکہ تم بھی بہت
خوبصورت ہواور اب آپ سے ملنے کااشتیاق اور بھی بڑھ گیاہے جس پر اس لڑکی نے
حامی بھرلی اور ہمارا ملاقات کاٹائم طے ہوگیا ۔
میں نے ملاقا ت والے دن گھرمیں بتایا کہ میں کاروباری لین دین کے سلسلے میں
دوسرئے شہر جارہاہوں ۔
میں اُس سے ملاقات کے لیے دوسرئے شہرروانہ ہوگیا،ہماری ملاقات ایک پارک میں
طے تھی اور مطلوبہ جگہ پہنچ کرمیں نے اس کوکال کی تو اس نے کہا وہ بیس منٹ
میں آرہی ہے ،میں کار کو ایک جگہ کھڑا کیااور خود پارک کے ایک درخت کی اوٹ
میں ہوگیا،تقریباً25 منٹ کے وقفے کے بعد اس نے کال کی کہ وہ پارک میں موجود
ہے تو میں نے اُس کو کہا کہ و ہ شمالی گیٹ کی جانب دیکھے اُس کووہاں ایک
کالی رنگ کی کار نظرآرہی ہوگی وہ وہاں جاکرکھڑی ہوجائے پھر ہم ہوٹل چلتے
ہیں ،جس پر اُسنے اوکے کہااور کال کاٹ دی میں کچھ دیر بعد اوٹ سے جھانک کر
دیکھاتوایک لڑکی بلاخوف وخطرمیری کار کے ساتھ کھڑی تھی مجھے اس کا چہر ہ
نظر نہیں آرہا تھاکیونکہ اُس کی پشت میری جانب تھی ،میں آہستہ آہستہ اُسکی
جانب بڑھنے لگامیں دل میں حیر ت زدہ بھی تھا وہ کتنی بہادری سے آگئی ہے اور
پھر یہ سوچاکہ پیسوں کا
لالچ اُسے یہاں لایا ہے ،غریب کہیں کے میں نے دل میں نفر ت سے سوچا خیر میں
نے اُس لڑکی کے قریب پہنچ کر اِدھر اُدھر دیکھااور دھیرئے سے کہاہیلومس
!!!!!
ٓاُس لڑکی نے میری طر ف مڑکر دیکھا۔۔۔۔
********
جب میں نے اُس لڑکی کا چہرہ دیکھاتو میرئے لیے یہ ایک قیامت خیز منظر تھا
کیونکہ وہ کوئی اور نہیں میری جوان بیٹی عاتکہ تھی ،
جی ہاں سلیم میر ا جگر ،میر ی آنکھوں کا تارا میر ی بیٹی تھی ،عاتکہ میر ی
جانب ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی اور پھر میرے منہ سے صر ف اتنا نکلاکہ میر
ی جا ن تم ۔۔۔۔۔اورعاتکہ نے بھی صرف اتنا کہا
پاپاجانی آپ !!!!!
ہم ایک دوسرے کو بے جا ن ہو کر دیکھ رہے تھے کافی سوالات تھے لیکن زبان
تالو سے چپک گئی تھی،میں بھاگنا چاہتا تھالیکن ایسا لگتا تھا کہ جیسے پاوں
زمین میں گاڑھ دیے گئے ہو ں ،مجھے ان مناظر پر یقین نہیں آرہا تھا لیکن آج
مجھے بدعا لگ چکی تھی زمانے کو رسوا کر نے والا خود رسوا ہوچکا تھا میر دل
چارہاتھا کہ زمین پھٹے اور اور میں اس میں دفن ہوجاؤں مگر ایسا نہ ہو
کیونکہ شاید زمین میں دفن ہو نا میرئے گناہوں کی معمولی سزا تھی
دفعتاًعاتکہ نے منہ پررکھا اور روتے ہو ئے بھاگ گئی شاید اُس کوبھی اِن
مناظر پر یقین نہیں آرہاتھا ۔
سلیم میرئے لیے کچھ نہیں بچا تھا ،اب سب کچھ میرئے سامنے تھا جس طرح میں نے
اپنی غلط تصویر استعمال کی اسی طرح عاتکہ نے استعمال کی جس طرح میں وائس
چینجر کا استعمال کر تا رہا بالکل
اسی طرح عاتکہ کر تی رہی اس طرح ہم ایک دوسرئے کو پہچان نہ سکے،میرئے ضمیر
نے مجھے ملامت کی کہ جس طرح میرئے ساتھ ہوا ہے اگر یہی سب کچھ میر ی بیٹی
نے کسی اور کے ساتھ کیا ہوتا توکیامیں یہ سب کچھ برداشت کرتا ؟؟؟ نہیں میں
برداشت نہ کر تامیں نے غصے میں اسٹیرنگ پر ہاتھ ما ر کر کہاتو اس پر میرئے
ضمیر کی آواز آئی جن کے ساتھ تمہارا تعلق رہاوہ بھی تو کسی کی بیٹیاں
تھیں،اُن کی بھی کوئی مجبوریاں تھی اس بات کا مجھ سے کو ئی جواب نہ بن پایا
میں لاجواب ہوگیا تھا مجھے اپنی دولت پر نا ز تھاآج اُسی دولت نے مجھے رسوا
کر دیا تھامیرے سارئے غرور کومیرئے ضمیر نے ایک منٹ میں لاجواب کر دیا تھا
۔
پیا رے سلیم تم خود سوچوکہ مجھ جیساکوئی ذلیل آدمی ہو گا اس دنیا میں جو
اپنی بیٹی کوگھٹیامیسج کرتا او ر اس سے فحش گفتگو کر تا،کاش میں خداکو یاد
رکھتا،اپنی دولت پر ناز نہ کر تا،کاش میں بچو ں کی
تربیت ٹھیک کر تااُن کے دیے گئے جیب خرچ کے بارے میں معلومات رکھتا ،اُن کو
یوں کھلے عام موبائل کی آزادی نہ دیتا،اُن پر کڑی نظر رکھتا لیکن میں نے
ایسے نہیں کیامیں اپنی دولت کی مستی میں اپنے بچوں کو بھول گیا تھا۔بس یا ر
اَب میں تھک گیا ہوں میں جینا نہیں چاہتامیں مرنا چاہتاہوں ویسے بھی اب
میرئے جینے کا کیا مقصد ہے میں کیا کروں گاجی کر !!!مجھے ایسے لگتا ہے جیسے
اردگرد کے لوگ مجھ پرہنس رہے ہوں اور کہہ رہے ہو ں کہ تم کیسے سامنا کر و
گے اپنی بیٹی کا ،بس یار تم دعا کرناکہ میں قبر میں سکون سے رہ سکوں ،ہاں
سلیم میں خودکشی کر لوں گا تاکہ میری بیٹی آرام سے باقی زندگی گزار سکے۔
خداحافظ دوست ،ہمیشہ کے لیے
تمہارا دوست ،سیٹھ آفاق احمد عربی
خط کے اس باقی صفحہ پرآنسو گر ئے ہوئے تھے،شدت غم سے سلیم کے ہاتھوں سے خط
چھوٹ کر اُن کی گو د میں گر گیا اور وہ خود کرسی پر ڈھے سے گئے اور گلوگیر
لہجے میں خود کلامی کرنے لگے افسوس تمہاری بیٹی نے بھی اس لیے خودکشی کہ وہ
اپنے باپ کو آرام سے رہنے دئے لیکن افسوس ایسانہ ہوسکا،اچانک سلیم کے
موبائل کی بیل بج اُٹھی جس نے اُسکے خیالو ں کوتوڑ ڈالا ،اُسنے موبائل کی
سکرین پر دیکھااُسکی لاڈلی بیٹی کا فون تھا،پھر کوئی فرمائش وہ بڑبڑائے
!!!!
اسلام علیکم ، انہوں نے فون کوکانوں سے لگاکر کہا،لیکن دوسری طرف بیٹی سلام
کا جواب دیے بغیرکہنے لگی باباجانی مجھے کل ہی نیا موبائل چاہیے جس میں
کیمرہ ہو ،میموری کارڈ ہواور وائس چینجرہو،سلیم صاحب ہا ں کہنے ہی والے تھے
کہ اُ ن کی نظر سیٹھ آفاق کے خط کی طرف اُٹھ گئی جس پر ان کا لہجہ بدل گیا۔
ہا ں بیٹاجانی تم نے کیا کہا ہے انہوں نے دوبار ہ اپنی بیٹی سے پوچھاتو اُن
کی بیٹی نے اپنی فرمائش دوبارہ فر فر سنا دی سلیم صاحب نے یہ سن کر کہا
،بیٹا جانی پہلی بات یہ ہے کہ تمہاراموجودہ موبائل ٹھیک ٹھاک ہے اور دوسری
بات یہ ہے کہ تمہیں کسی قسم کے موبائل کی ضرورت نہیں ہے نہ ہی نئے کی اور
نہ ہی پرانے کی اور اگلی بات یہ ہے کہ میں ایک گھنٹے میں گھر آرہاہو ں اور
تم سے یہ موبائل بھی واپس لے رہاہوں کیونکہ تمہیں اِسکی کو ئی ضرورت نہیں
ہے،
پاپاجانی یہ آ پ کیا کہہ رہے ہیں مجھے موبائل ضروت ہوتا ہے،دوسری طر ف بیٹی
نے حیرت بھرئے لہجے میں کہا۔
کیا مطلب کیسی ضرورت ؟؟ تمہاری کوئی جاب ہے،تم نے کوئی بزنس ڈیلنگ کر نی
ہوتی ہے،سلیم نے قدرئے غصیلے لہجے میں کہا۔
مگر بابامیں نے سہیلیوں سے لیکچرز کے بارئے میں ڈسکس کر نا ہوتی ہے ،بیٹی
نے بھی جوابی دلیل قدرئے ترش لہجے میں دی۔
اوکے اگر ڈسکس کرنی ہوگی تو تم اپنی ماں کے موبائل پرکرو گی اوروہ بھی ما ں
کے سامنے اور کل سے تم کالج وین پر نہیں بلکہ میرئے ساتھ جاؤ گی ،اتناکہہ
کرسلیم نے کال ڈراپ کر دی،انہوں نے سیٹھ صاحب کے خط کو دوبارہ اُٹھایااور
کہنے لگے ہاں دوست ہمیں دولت پا کر غرورنہیں بلکہ اللہ کاشکریہ ادا کر نا
چاہیے،جتنی بھی کاروباری مصروفیات ہوں اولاد کو ٹائم دینااور اُن پر کڑی
نظر رکھنی چاہیے،حد کے مطابق جیب خر چ دینا چاہیے۔
ہاں دوست بیٹیاں تو کانچ کی گڑیاں ہوتی ہیں ذرا تیز ہوا کا جھونکا آیا اور
یہ گری اور ٹوٹ کربکھرگئی،لیکن کاش کوئی ان باتو ں کوسمجھے،کاش کوئی ان
باتوں کوجانے،اتناکہ کرسلیم اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکے اور دو آنسونکل
کر اُس خط میں جذب ہوگئے۔
سیٹھ آفاق احمد کے خط میں دو اور آنسوؤ ں کا اضافہ ہوگیا تھا۔
(ختم شد) |