جوانی کا دورانیہ‘ اگرچہ کچھ زیادہ نہیں ہوتا‘ لیکن آدمی
اس مختصر سی مدت میں‘ بہت کچھ کر گزرتا ہے یا کر سکتا ہے۔ اس کے گزر جانے
کے بعد‘ اعصاب اور دماغی صلاحتیں‘ ڈھلتے سائے کا اترن لے لیتی ہیں۔ آدمی
بہت کچھ کر گزرنے کی خواہش رکھتے ہوئے بھی‘ کچھ نہیں کر پاتا۔ اس کی اپنی
جمع پونجی‘ اس کی اپنی نہیں رہتی۔ تجربہ‘ کمزور حافظے کے منہ میں جا کر‘
خود کے نشان بھی نہیں تلاش کر پاتا۔ جوانی تسلیم کی خو کو قبول نہیں کرتی
اس کے برعکس‘ بڑھاپا ہاں اور ناں کے تذبذب میں لمحے گزار کر‘ لحد میں اتر
جاتا ہے۔ میں اپنی غلطی‘ اب بھی‘ تسلیم نہیں کرنا چاہتی۔ غلطی تسلیم کرتی
ہوں‘ تو بےوجود ہوتی ہوں۔ غلطی تسلیم نہیں کرتی‘ تو میرا ضمیر مجھے سکھ کا
سانس نہیں لینے دیتا۔ ساری عمر‘ اس نے نیند کی گولیاں کھائے رکھی ہیں‘ آج
جانے کیوں جاگ اٹھا ہے۔ زندگی جب بھرپور ہوتی ہے‘ اس وقت تمیز و امتیاز کے
دروازے بند رہتے ہیں۔ کوئی دستک کانوں تک نہیں آ پاتی۔
آج‘ جب ہر لمحہ‘ موت کے قریب ہو رہا ہے‘ مجھے اپنے ماضی کی غلطیوں کا احساس
ہو رہا ہے۔ اگر دیکھا جائے‘ تو اسے غلطی بھی نہیں کہا جا سکتا۔ میں دینو کے
گھر میں‘ معاشی طور پر آسودہ نہ تھی۔ دو وقت کی روٹی بامشکل ملتی تھی۔ روٹی
ہے‘ تو سالن نہیں۔ کپڑے ہیں‘ تو جوتے نہیں۔ گھر میں کچھ بھی تو مکمل نہیں
تھا جو تھا‘ ادھورا اور نامکمل تھا۔ ہماری شخصیت بھی ادھوری اور بےسری تھی۔
بات بات پر‘ ہم دونوں بحث وتکرار پر اتر آتے تھے۔ دور کی مرگ پر جانے کے
لیے‘ ہماری جیب میں کرایہ تک نہ ہوتا تھا۔ زندگی کے بیشتر لمحے‘ ادھار پر
چلتے تھے۔ اس میں دینو کا بھی کوئی قصور نہ تھا۔ وہ صبح سویرے اٹھ کر
مزدوری پر چلا جاتا تھا۔ دھاڑ میں سے بہت قلیل‘ اپنی ذات پر خرچ کرتا تھا۔
باقی سب‘ میری ہتھیلی پر رکھ دیا کرتا تھا۔
میں اسے‘ اپنے والدین کا بھی قصور نہیں سمجھتی۔ ان کا بیٹا اپنی بیوی کو لے
کر‘ الگ ہو گیا تھا۔ وہ بوڑھے تھے۔ میں دینو کی کمائی کا آدھا‘ یا کبھی اس
سے زیادہ‘ ان پر خرچ کر دیتی تھی اور گھر میں زیادہ تر‘ ہے نا ڈالے رکھتی
تھی۔ خدا لگتی یہی ہے‘ کہ دینو نے کبھی حساب تک نہیں مانگا تھا۔ انہوں نے
واجبی شکل کے‘ مجھ سے عمر میں بڑے شخص کو‘ لڑکی اسی لیے دی تھی‘ کہ میں ان
کا معاشی ساتھ دیتی رہوں۔
اس روز‘ دینو کام سے لوٹا تو‘ وہ پسینے میں شرابور تھا۔ اس کے چہرے پر‘
پریشانی کی لکیریں بڑی گہری تھیں۔ منہ ہاتھ دھو کر‘ بیٹھا تو میں نے
پریشانی کی وجہ دریافت کرنے کی بجائے‘ دو ریپے کم دینے پر بحث شروع کر دی۔
اس نے ابھی دو چار لقموں سے زیادہ نہیں لیے ہوں گے‘ کہ اس کا چہرا غم آلود
غصے سے سرخ ہو گیا۔ اس نے آگے پڑا کھانا‘ زمین پر پٹک دیا۔ اس بات پر ہماری
تو تکرار میں اضافہ ہو گیا۔
اگر پورا نہیں کر سکتے تھے‘ تو شادی کیوں کرائی تھی؟ میں نے اس کے تیور
دیکھتے ہوئے کہا
گزارا کرنا ہو تو‘ روکھی سوکھی پر بھی ہو سکتا ہے۔ اس نے جوابا کہا
گزارا ہی تو کر رہی ہوں۔۔۔۔ کون سے کوفتے اور ککڑ کھانے کو دیتے ہو۔
شیداں گزارا کرو۔۔۔۔۔۔ گزارا۔۔۔۔۔۔۔۔ جو ملے اس پر الله کا شکر ادا کیا
کرو۔
جب سے تمہارے گھر آئی ہوں گزارا ہی تو کر رہی ہوں۔
باپ کے گھر میں کوفتے کھاتی آئی ہو؟ میں انہیں بھی جانتا ہوں۔ اب کہ دینو
کا لہجہ بڑا جارحانہ ہو گیا۔
میرے باپ کو پن رہا تھا‘ اس پر میں آپے سے باہر ہو گئی۔ میں نے اس کے
خاندان کے ہر فرد کی اوقات اس کے سامنے رکھ دی۔ اس پر وہ تلملا اٹھا اور
گھر سے باہر جانے لگا۔ میں نے روک کر کہا‘ اگر گھر نہیں چلا سکتے‘ تو مجھے
طلاق دے دو۔ میرے منہ سے طلاق کا لفظ سن کر‘ وہ سکتے میں آ گیا۔ اس نے میری
طرف دیکھا اور طلاق طلاق طلاق کہتا ہوا گھر سے باہر نکل گیا۔
وہ طلاق طلاق طلاق کہہ کر چلا گیا لیکن مجھے حیرت اور پریشانی کے سمندر میں
پھینک گیا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی‘ کہ دینو جیسا معذور شکل کا شخص‘ اس
سطح پر بھی اتر آئے گا۔ میں اس سے بڑھ کر‘ بیسیوں بار بےعزتی کر چکی تھی‘
لیکن وہ اس سطح تک کبھی نہیں آیا تھا بلکہ معذرت خواہی پر اتر آتا تھا۔ یہ
سب میری توقع کے برعکس ہو گیا تھا۔
وہ رات دیر گیے واپس لوٹا۔ کچھ کہے سنے بغیر‘ اپنے بستر پر لیٹ گیا۔ دونوں
جانب چپ کا روزہ تھا۔ آخر میں نے ہی پہل کی۔
دینو بہت بڑی غلطی ہو گئی ہے۔ میرے منہ سے لفظ طلاق نکل گیا‘ تم ہی چپ
رہتے۔ اب کیا کریں۔ مولوی صاحب سے پوچھو۔ کوئی تو حل ہو گا۔
پوچھا ہے‘ انہوں نے کہا ہے‘ حلالے کے سوا‘ اس کا کوئی دوسرا حل موجود نہیں۔
حلالہ کے لیے کس سے کہیں؟! میں نے پریشانی کے عالم میں کہا
مولوی صاحب یہ قربانی دینے کے لیے تیار ہو گیے ہیں۔
حلالہ کے بعد‘ مولوی صاحب مجھے اپنے ہاں لے گیے۔ ان کے ہاں کھانے کا سامان
وافر تھا۔ گھر بھی‘ ضرورت کی ہر شے سے بھرا ہوا تھا۔ گھر دیکھ کر‘ میری
آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ ایک دیندار انسان کے گھر‘ عیش وعشرت کا اتنا
سامان۔۔۔۔ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ وہ رات بڑی آسودہ گزری۔ کھانے پینے
کو پیٹ بھر ہی نہیں‘ وافر دستیاب تھا۔
اگلی صبح دینو آیا اور اس نے مولوی صاحب سے طلاق کے لیے کہا۔ مولوی صاحب نے
جوابا کہا‘ تم خود پوچھ لو‘ اگر طلاق لینا چاہتی ہے تو‘ میں ابھی دے دیتا
ہوں۔ اتنی جنسی اور پیٹ کی آسودگی کے بعد‘ مولوی صاحب کو طلاق دینے کے لیے
کہنا‘ کھلی حماقت تھی۔ دینو غیر تھا‘ اب میرے لیے‘ غیرمحرم کے سامنے آنا‘
غیر شرعی امر تھا۔ اب میں ایک باشرع شخص کی بیوی تھی۔
میں نے دینو کو جاتے ہوئے لاپرواہ نظروں سے دیکھا۔ یوں سایہ سا‘ لاش سے
مماثل نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
میں اس حقیقت سے انکار نہیں کرتی‘ مولوی صاحب کے گھر میں مجھے اور میرے
پچھلوں کو‘ پیٹ بھر ملا ہے اور میرے ہوتے‘ مولوی صاحب کو دوسرے حلالے کی
جرآت نہیں ہوئی۔ چوری چھپے کوئی کر گزرے ہوں‘ تو یہ الگ بات ہے۔ ہمارے ہاں
مانگے کا رزق آیا ہے۔ یہ مانگا رزق کوئی تھوڑا نہیں‘ بہت آیا ہے۔ مولوی
صاحب مانگ لینے میں کوئی برائی نہیں سمجھتے۔ انہوں نے ایک درس بھی کھول
رکھا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے‘ درس کے لیے چندہ لینے کے لیے چڑھے رہتے ہیں۔
اچھا خاصا چندہ بٹور لاتے ہیں۔
مولوی صاحب اس انتظار میں رہے ہیں‘ کہ کب طلاق مانگتی ہوں۔ میں پاگل نہیں‘
کیوں کہ اب حلالے کی نوبت نہیں آئے گی۔ مولوی صاحب کو مجھ سے‘ کہیں بہتر‘
حلالے میں مل جائے گی۔ اگر ایک فیصد حلالے کی نوبت آ بھی گئی تو‘ مولوی
صاحب جیسی اسامی نہ مل سکے گی۔
آج بڑھاپے نے شاید ہوش غارت کر دئے ہیں‘ تب ہی تو سوچتی ہوں‘ کہ دینو کی
پسینہ آمیز کمائی میں‘ بےحد سواد تھا۔ اس وقت مجھے کوئی بیماری لاحق نہ
تھی۔ یہاں حلالے کے دو ماہ پعد ہی معدہ کی بیماری لاحق ہوگئی۔ اس کے بعد
شوگر نے آ گھیرا۔ کمردرد تو معمول کا معاملہ ہے۔ بی پی کی کسر رہ گئی تھی‘
وہ بھی گلے کا ہار بن گئی ہے۔ مولوی صاحب کسی کی جیب تو نہیں کاٹتے‘ اس کے
باوجود ان کا لایا ہوا رزق‘ ذائقہ میں‘ دینو کے لائے سا نہیں۔
1-2-1976 |