بنت حوا کہاں جائے؟

آٹھ مارچ،خواتین کے عالمی دن کے حوالہ سے ،برائے شاعت خاص

کہتے ہیں حقیقت تو یہ ہے کہ عورت وفا پیشہ اور ایثار و محبت کا لازوال شاہکار ہے ماں، بیوی، بہن، بیٹی چاہے وہ ان میں سے کسی بھی روپ میں ہو اس کا ہر رشتہ تقدس کا داعی ہے وہ عہد وفا کی سچی اور کردار کی بیداغ ہوتی ہے لیکن آج کے معاشرے میں اس کو وہ اہمیت حاصل نہیں ہے جس کی وہ حقدار ہے مرد عورت کو کمزور سمجھتا ہے اور پھر ہر دور میں ناپاک خواہشات کے حامل لوگ عورت سے زیادتی کرتے آئے ہیں جبکہ اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اسلام ایک ایسا واحد مذہب ہے جس نے عورت کو اس کا صحیح مقام و مرتبہ دیا، اسے عزت و توقیر عطا کی اسلام نے عورت کو ظلم کی کال کوٹھری سے نکال کر اسے اس مقام پر بٹھا دیا جس کی وہ حقدار تھی اسلام نے عورت کا جو معتبر اور قابل قدر کردار متعین کیا تھا اسے ملحوظ خاطر نہیں رکھاگیاہمارے ملک پاکستان کو بنے تریسٹھ سال ہو چکے مگر ہم ابھی تک جاگیردارانہ قبائلی کلچراور فرسودہ رسم و رواج سے پیچھا نہیں چھڑا سکے عورتوں پر تشدد بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے جس سے انسانی زندگی کی قدر اور وقار کی نفی بھی ہوتی ہے یہ پاکستان کے آئین کی شق 34 کے تحت عورتوں کی قومی زندگی میں پوری طرح شمولیت کے حق پر بھی اثرانداز ہوتا ہے ہمارے ملک میں عورتوں پر کئی قسم کے تشدد عرصے سے ہوتے آرہے ہیں۔ جیسے کہ زنا بالجبر‘ رسم و رواج کا سہارا لے کر عورتوں کو کاروکاری اور سیاہ کاری کے نام پر قتل‘ عصمت فروشی اور عورتوں کی تجارت، ملازمت کی جگہ پر عورتوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنا، گھر سے باہر خوف و ہراس سرعام بے حرمتی اور دشمنوں سے انتقام لینے کیلئے ان کی عورتوں پر تشدد کرنا جس کو اکثر معیوب یا غلط بھی نہیں سمجھا جاتا چونکہ اس کو تشدد نہیں سمجھا جاتا اس لئے اس کا ذکر بھی نہیں کیا جاتا ناقص قانون اور عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے اس مسئلے کو اور بھی بڑھا دیتے ہیں پچھلی حکومت اور اب موجودہ حکومت میں کچھ قوانین بنے ہیں عورتوں کے خلاف تشدد کے خلاف لیکن صرف قانون کے بن جانے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک ہمارے معاشرے کی سوچ میں تبدیلی نہ آئے۔

ایچ ار سی پی نے حالیہ دنوں میں خواتین کے حلاف تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کا شدید تشویش کے ساتھ مشاہدہ کیا ہے۔ بدقسمتی سے ملک میں ایسے واقعات ہمیشہ سے معمول رہے ہیں لیکن ایسے واقعات کی اطلاعات نہ صرف دور دراز کے علاقوں بلکہ بڑے شہروں سے بھی موصول ہورہی ہیں۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران پنجاب سے جنسی تشدد کے متعدد واقعات کی اطلاعات بھی ہیں جس میں ایک پانچ سالہ بچی سے جنسی زیادتی کا وقوعہ بھی شامل ہے۔ اس مسئلے کی سنگینی کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ صرف لاہور میں پولیس نے رواں برس یکم جنوری سے 31اگست تک جنسی تشدد کے 113مقدمات درج کئے تھے۔ اسی عرصہ کے دوران پنجاب کے دارلحکومت کی پولیس نے اجتماعی جنسی تشدد کے 32مقدمات درج کئے۔ اس ہفتے کے اوائل میں کوہاٹ، خیبرپختونخواہ میں تین خواتین کو ان کے خاندان کے اراکین نے گولیاں مار کر ہلاک کردیا۔جولائی کے اختتام تک کم از کم 44خواتین پر تیزاب پھینکا گیا جن میں سے سات زخموں کی تاب نہ لاکر ہلاک ہوگئیں۔ تقریباً 44خواتین کو آگ لگائی گئی جن میں سے 11ہلاک ہوئیں۔ اس سال جولائی کے اختتام تک تقریبا،451خواتین کو عزت کے نام پر قتل کیا گیا۔ 2012میں یہ تعداد 918تھی۔ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نیا اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ متاثرین کی مدد کرنے والوں یا مظالم کو اجاگر کرنے والوں کو لاحق خطرات میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ خواتین کے خلاف مظالم کی نشاندہی کرنے والے انسانی حقوق کے مدافعین خصوصی طور پر خطرے کی زد میں ہیں۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں صرف ایک ماہ قبل معصوم بچوں اور خواتین کے زیادتی کے خلاف مذمتی قرارد اد وزیر مملکت انوشہ رحمان نے پیش کی، قراداد میں مطالبہ کیا گیا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات کریں اور خواتین اور بچوں کو تحفظ اور فوری انصاف کی فراہمی کے لیے مؤثر قانون سازی کی جائے۔مگر قرارداد صرف قرارداد ہی رہی،لاہور میں درندے کی زیادتی کا نشانہ بننے والی ننھی کلی کا ملزم تاحال گرفتار نہیں ہوا،سندھ کے علاقے گھوٹکی میں قانون کے محافظوں نے ہی دو بہنوں کا زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔فیصل آباد کے تھانہ صدرکے علاقہ چک209میں سولہ سالہ معذور لڑکی کے ساتھ زیادتی کی گئی۔گوجرانوالہ میں سات سالہ طالبہ تیس سالہ اوباش غلام علی نے زیادتی کا نشانہ بن گئی۔

محسوس یوں ہوتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے موثر کردار ادا نہ کرنے کی وجہ سے بھی تشدد کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ساتھ ہی ساتھ ہمارے سماجی ، ثقافتی رویوں اور ریاستی اداروں کی بدسلوکی اور امتیازی قوانین عورتوں کے خلاف تشدد کی روک تھام میں رکاوٹ کا باعث ہیں۔عورتوں کو فیصلہ سازی کا حق نہیں دیا جاتا اور اگر وہ ایسا کریں تو انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔اور یہ ایک بڑی وجہ ہے کہ عزت کے نام پر قتل، ونی، جبری شادیوں اور پنچائت کے فیصلوں کے رواج عام ہیں جن کے خاتمے کیلئے موثر اور مضبوط قانون سازی اور ان پر عمل درآمد بے حد ضروری ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمہ کیلئے سول سوسائٹی ، منتخب نمائندوں، سرکاری محکموں ، وکلاء تنظیموں اور میڈیا کو مل جل کر اپنا موثر کردار ادا کرنا چاہیے ایک تشدد سے پاک معاشرہ کیلئے ہمیں معاشرتی بیداری کی مہم چلانی چاہئے سوشل جسٹس کے بغیر عورت کے خلاف تشدد بند نہیں ہوگا۔ قانون ساز اداروں اور پولیس ٹریننگ کے نصاب میں ہیومن رائٹس اور ویمن رائیٹس کو شامل کیا جائے اس کے علاوہ سوشل ویلفیئر کے اداروں کو عورتوں کے تحفظ کے حوالے سے آگہی دینا ہوگی ہر پولیس سٹیشن خاص طور پر دیہی علاقوں میں ویمن سنٹر ہو جو عورتوں پر تشدد کو مانیٹر کریں اور سوموٹو ان کو تحفظ دیں صرف انٹرنیشنل قوانین کے دباؤ میں آکر دکھاوے کے قوانین بنا کر خوش نہ ہوں بلکہ سنجیدگی سے ان قوانین پر عملدرآمد کروائیں پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اسلام عورت کا احترام کرنے والا مذہب ہے آج سے چودہ سو سال پہلے مسلمانوں کو میرے پیارے رسولﷺ نے یہ سبق دیا کہ عورت قابل عزت ہستی ہے تو اپنے مذہب اور اپنے نظریہ پاکستان کے مطابق عورت پر تشدد کو فوری طور پر ختم کرنا چاہئے۔
Mumtaz Awan
About the Author: Mumtaz Awan Read More Articles by Mumtaz Awan: 267 Articles with 197394 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.