فضہ ملک ایک اور جوان سال ٹیلنٹ مستقبل کا ایک اور ستارا
خاک وخون میں نہلا دیا گیا ۔ ہر دیکھنے والا رو رو کر اپنی بہن کا بین کرتے
ہوئے فضہ کے بھائی کو دیکھ کر آبدیدہ تھا۔ وہ بھائی تو بس یہی کہ رہا تھا
کہ اُ س کی بہن بہت اچھی تھی، بہت پیاری تھی لیکن اب یہ کہانی ایک اسی بہن
کی نہیں رہی۔ اسلام آباد کچہری پر حملہ میں گیارہ بے گناہ پاکستانی خون میں
نہلا دیے گئے۔ کچھ بے نام و نشان لوگ آ تے ہیں کبھی جسموں سے بم باندھے
ہوئے اور کبھی فائرنگ کرتے ہوئے اور انسانی جان جو اللہ کی سب سے قیمتی
تخلیق ہے اس کی تذلیل کرتے ہوئے خود کو بھی اُڑا دیتے ہیں اور دوسری جانوں
کو بھی ہلاک کر کے خدا کی زمین پر فساد پیدا کرتے ہیں اور حیرت ہے کہ پھر
بھی کچھ لوگ انہیں حق بجانب ثابت کرنے کی کو شش کرتے ہیں۔
دہشت گردی نے جس بری طرح پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے اُ س کے اثرات معاشرے
، معیشت ،صنعت ،تجارت ہر جگہ محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ معاشرہ ایک خوف میں
مبتلا ہے اور اس خوف میں کمی آنے کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے ۔ پچھلے کچھ ماہ
سے طالبان نے اپنی سرگرمیوں میں جب بے تحاشہ اضافہ کیا اور مذاکرات کے ساتھ
ساتھ پاکستان کے معصوم شہریوں کے قتل عام کو بھی کار ثواب ہی سمجھتے رہے،
ایف سی کے 23جوانوں کو ذبح کر کے شہید کیا گیا اور فخر سے اس کا اعلان بھی
کیا گیا اور ان تمام واقعات کے بعد فوج نے جب ٹارگٹڈ آپریشن شروع کیا تو
بھی کہا گیا کہ حکومت مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ہے اس لیے یہ کاروائی کر رہی
ہے یعنی ادھر تو ہر ظلم کی اجازت ہو اور اس ظلم کا جواب تک نہ دیا جائے ۔
پاکستان میں دہشت گرد ی کے واقعات میں عورت ، مرد ،بچے، بوڑھے ،امیر ،غریب
،فقہ ، شریعت ،مسلک کسی کو نہیں چھوڑا گیا ۔ اسلام کہتا ہے کہ جنگ میں بھی
عورتوں، بچوں اور بُوڑھوں کو کچھ نہ کہا جائے لیکن بقول خود ’’ عظیم اور
پرہیز گار ‘‘طالبان نے اسلام کی ان تعلیمات کو بالائے طاق رکھ کر عورتوں کو
نشانہ بنا بنا کر مارا ۔ پولیو مہم میں کام کرتی ہوئی خواتین کو سروں میں
گولیاں ماری گئیں ،پشاور میں محٖفل میلاد یا ختم قرآن میں مصروف خواتین کو
شہید کیا گیا اور یہ سب کچھ کرتے ہوئے ایک بار بھی انہیں قرآن و سنت یاد نہ
آ ئے۔ سکولوں میں بچوں کو بموں کا نشانہ بنایا گیا اور دل میں خوف خدا نہ
آیا کہ اسلام ان بچوں کے ساتھ شفقت کا حکم دیتا ہے ۔ اعتزازحسن جیسے بہادر
بچوں کو پنپنے نہیں دیا گیا ۔ اور اب فضہ ملک جو صرف دو ماہ پہلے لندن سے
قانون کی اعلی ڈگری لے کر آ ئی اس دہشت گردی کی نظر ہو گئی یعنی ایک اور
روشن چراغ بجھا دیا گیا ۔ کہنے کو تو فضہ صرف ایک لڑکی تھی لیکن اُ س کے
ٹیلنٹ ، اس کے مستقبل سے وابستہ پاکستان کے مستقبل سے روشنی کی ایک کرن
چھین لی گئی۔ اسی طرح کی دہشت گردیوں کے بعد بڑے دھڑلے سے ان واقعات کی ذمہ
داری بھی قبول کر لی جاتی ہے اور پھر یہ طالبان خلافت کا دعوی بھی کرتے ہیں۔
کیا خلفائے راشدین میں سے کسی بھی خلیفہ نے یوں عوام الناس کے قتل کا حکم
دیا تھا ۔ خرابی ہمارے نظام اور با اختیار لوگوں میں بھی ہے جنہوں نے اس
مسئلے کو صرف ٹالا ہی ہے ختم کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ہمارے عدالتی نظام کی
کمزوری کہیے یا ہمارے عادلوں کی کہ خود ہی اقرار جرم کرنے والے اور کبھی تو
رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے دہشت گردوں کو بھی سزا نہیں سنائی جاتی اور
کبھی تو نا کافی ثبوتوں کا عذر منظور کر کے ان ثابت شدہ ’’مجرموں‘‘کو معاف
کر دیا جاتا ہے جو خود اقرار جرم کر چکے ہوتے ہیں اور وہ ایک اور حملے کی
تیاری اور منصوبہ بندی شروع کر دیتے ہیں اور کئی معصوموں کی جانیں پھر خطرے
میں پڑجاتی ہیں، کبھی فضہ جیسی لائق فائق بیٹی گھر نہیں پہنچتی اور کبھی
تلاش رزق میں نکلا ہو ا باپ بچوں کی روزی روٹی لانے کے بجائے ان کے لیے
اپنا مردہ جسم یا جسم کے ٹکڑے دوسرے کے کندھوںُ پراٹھوا کر گھر بجھو ا دیتا
ہے لیکن جب کبھی یہی سلوک دہشت گرد کے ساتھ کر دیا جائے تو بہت سارے’’
انسانیت دوست ‘‘چیخ اُ ٹھتے ہیں ۔
اس وقت بھی اگر طالبان دوبارہ مذاکرات کی میز تک آئے ہیں تو اس میں کسی سیا
سی بصیرت کا کوئی کارنامہ نہیں بلکہ یہ طاقت کی وہ زبان تھی جو فوج نے
بولی۔میں مذاکرات کے خلاف نہیں ہوں بلکہ میں اس کے حق میں لکھ بھی چکی ہوں
کہ خون خرابہ رک جانا چاہیے جس بھی طریقے سے ہو لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ
کمزوری کا مظاہر ہ کیا جائے حکومت کو بہر حال اپنی طاقت دکھانی چاہیے تا کہ
عوام الناس کو تحفظ کا احسا س رہے اورمجر م کو خوف ۔ فوج اور حکومت کو یہ
سب ذہن میں رکھنا ہو گا بلکہ جوابی کاروائی کے طور پر ہی سہی اپنی قوت
دکھانی ہو گی ورنہ پولیو ٹیم کی کوئی کارکن ، نہ کوئی فضہ ملک ، نہ کوئی
رفاقت حسین نہ کسی سکول میں پڑھتا ہوا کوئی ذہین بچہ محفوظ ہو گااور نہ ہی
پاکستان کا مستقبل، نہ اس کی تجارت ، نہ معیشت اور نہ ترقی۔ امن قائم رکھنے
کے لیے نرمی کے بعد اگر سختی کی ضرورت پڑے تو اس میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ
کسی بھی طور پر قابل معافی جرم نہ ہو گااور نہ اب ہم اس کے متحمل ہو سکتے
ہیں۔ |