میں ایئرپورٹ سے اپنے والدین کو جب رخصت کررہا تھا تو
میرے دونوں شانے آنسوؤں سے بھیگ چکے تھے۔ وہ میرے والدین کے آنسو تھے جو
گلے ملتے وقت اُن کی آنکھوں سے ڈھلک کر میرے شانوں پرآ گئے تھے۔یہ خوشی کے
آنسو تھے۔ خوشی اس بات کی کہ وہ اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری کرنے
جا رہے تھے۔ یعنی اﷲ نے اُنہیں اپنا پیارا گھر اور اپنے پیارے نبی ﷺ کا
دربار دیکھنے کی منظوری دے دی تھی۔بیت اﷲ کا طواف اور حضور ﷺ کے گھر کی
زیارت کے لیے اُنہوں نے رو رو کر جو دعائیں مانگی تھیں وہ وقبول ہو چکی
تھیں۔ اﷲ ایسی دعائیں ہر کسی کی قبول فرمائے۔
پی آئی اے کی فلائٹ حسب معمول جدہ تاخیر سے پہنچی تھی۔ بحر حال اُن کے وہاں
پہنچ جانے کی خبر ملی تو دل کو سکون ملا ۔لیکن یہ سکون چند ہی گھنٹوں کے
بعد آنے والی فون کال سے برباد ہو گیا، جب انہوں نے ٹرانسپورٹ کے مسئلے اور
ہوٹل کی حالت زار بتائی۔ یہ ہوٹل حرم پاک سے تقریباْ آٹھ کلو میٹر کے فاصلے
پر تھا۔جبکہ ہوٹل کے واؤچر پر اس ہوٹل (Al-Taweerki) کا حرم پاک سے فاصلہ
صرف 1500 میٹر ( یعنی ڈیڑھ کلو میٹر) درج تھا۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل
برعکس تھی۔ یعنی ڈیڑھ کلو میٹر کی بجائے آٹھ کلو میٹر ۔ اس کی حالت بھی کچھ
ایسی تھی کہ معلوم ہوتا تھا کہ یہاں کبھی کبھار ہی کوئی مسافر آتا ہو
گا۔کچن کی سہولت تو تھی ہی نہیں جبکہ واش روم بھی پانی سے محروم تھے ۔
ٹرانسپورٹ کی سہولت صرف ایئرپورٹ سے ہوٹل تک دی گئی تھی ۔ لیکن طے یہ تھا
کہ ہوٹل سے حرم اور حرم سے ہوٹل تک بھی ٹرانسپورٹ دی جائے گی ۔ٹرانسپورٹ کا
بندوبست اُنہیں خود کرنا پڑا کیونکہ وہ آٹھ کلو میٹر کا فاصلہ پیدل نہیں طے
کر سکتے تھے ۔
میرے والد ین کے علاوہ میری خالہ جان اور میری پھوپھی زاد بہن بھی اُن کے
ہمراہ تھیں۔ یعنی وہ کل چار لوگ تھے۔ یہ چاروں لوگ (Anwer Services (Pvt)Ltd.
G-22, Saima Trade Tower, I.I. Chundrigar Road, Karachi) کے کلائنٹ تھے ۔
(پاسپورٹس پر اسی ایجنسی کے سٹیکر چسپاں ہیں) لیکن ہمارا واسطہ جس آدمی سے
پڑا تھاوہ ہمارے ہی شہر کوٹ رادھا کشن (قصور) کے ریہائشی حاجی ثناء اﷲ صاحب
ہیں جو اپنی ایک نام نہاد ایجنسی نمیر ٹرویل (Numair Travel) کے نام سے چلا
رہے ہیں اور بھولے بھالے لوگوں کو لوٹ رہے ہیں۔میں نے جب حاجی صاحب سے
رہائش اور ٹرانسپورٹ کے مسئلے کا ذکر کیا ، انہیں اپنے بوڑھے والدین کے
ساتھ پیش آنے والی مشکلات کے بارے میں بتایا۔ توبجائے اس کے کہ وہ تسلی سے
میری بات سنتے اور اُس کا کوئی حل نکالتے اُلٹا مجھ ہی سے اُلجھ پڑے ۔اور
فرمانے لگے کہ وہ وہاں عمرہ کرنے گئے ہیں یا پکنک منانے ۔۔۔؟ جو وہ وہاں
بیٹھے اتنی سہولتیں مانگ رہے ہیں۔ بلکہ حاجی صاحب نے تو یہ تہمت بھی لگا دی
کہ میرے والد ین جھوٹ بول رہے ہیں۔ حاجی صاحب کی یہ بات مجھے بڑی ناگوار
گذری ۔ ایک تو انہوں نے ہمارے ساتھ دھوکہ کیا ہے ، جھوٹ بولا ہے اور اُلٹا
ہمیں ہی برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ میرے والدین نے مجھے بڑوں کی عزت کرنا نہ
سکھایا ہوتا تو شاید میں بھی اُن سے اُلجھ پڑتا ۔ لیکن میں نے صبر و تحمل
سے کام لیا اور سارا معاملہ اﷲ پر چھوڑ دیا۔
ابھی ایک ہفتہ ہی گذرا تھا کہ چاروں لوگ وہاں بیمار پڑ گئے۔ میں نے جب اُن
سے عمرہ پر جانے سے پہلے دی جانے والی ویکسین کے بارے میں پوچھا تو یہ سن
کر مزید پریشان ہو گیا کہ اُنہیں تو کسی بھی قسم کوئی ویکسین نہیں دی
گئی۔حالانکہ مجھے یاد ہے کہ اُن چاروں کے پاسپورٹ کے ساتھ ایک ایک کارڈ
نتھی کیا ہوا تھا جس کا مطلب تھا کہ ان چاروں کو وائرس سے بچاؤ کے لیے
ویکسین (Meningococala+c) دی گئی ہے۔یعنی ایک اور فراڈ۔۔۔۔ پاسپورٹ کے ساتھ
جو ویکسین کا سرٹیفکیٹ نتھی تھا وہ سٹی میڈیکل سینٹراینڈ میٹرنٹی ہوم کراچی
سے جاری کیا گیا تھا۔ جس کا پورا ایڈریس " St,1, C28, Sector-2 KPT Ground,
Charnal Road, Kimari, Karachi." ہے۔ یعنی یہ میڈیکل سینٹر بھی اس سارے
کھیل میں ملوث ہے۔ اپنی فیس لے کر دھڑا دھڑ ویکسین کے سرٹیفکیٹ جاری کیے جا
رہا ہے۔عمرہ پر جانے والے بہت سے لوگوں کو اس ویکسین کے بارے میں تو علم ہی
نہیں ہے۔ اس لیے کسی کا اس طرف کو دھیان ہی نہیں جاتا۔ حالانکہ اس کی قیمت
بھی پیکیج میں شامل ہوتی ہے۔ پیکیج میں سے منافع کے ساتھ ساتھ ویکسین اور
سعودیہ میں ناقص ترین رہائش پر جو ٹیکہ لگایا جا رہا ہے اسکا حساب لینے
والا کوئی نہیں ہے۔نیکی کے نام پر حاجیوں کو حکومت لوٹ رہی ہے اور عمرہ پر
جانے والوں کو نام نہاد حاجی۔۔۔
اکیس دن کے بعد جب میرے والدین واپس پاکستان پہنچے تو اُن کی حالت دیکھی
نہیں جا رہی تھی۔وہ ہم سے گلے لگ کر یوں رو رہے تھے جیسے اُن کا کوئی بہت
بڑا نقصان ہو چکا ہو۔ ہاں۔۔۔ اُن کا نقصان ہی تو ہوا تھا۔۔۔!وہ جو اپنی
زندگی کی سب سے بڑی خواہش لے کر اﷲ کے گھر او اُس کے نبی ﷺ کے دربارمیں
حاضر ہوئے تھے ،تسلی سے پوری نہیں کر سکے تھے۔کیونکہ تھکاوٹ اور بیماری نے
اُنہیں چلنے پھرنے اور طواف کرنے سے عاجز کر دیا تھا۔ ایسے مواقع زندگی میں
بار بار تھوڑی آتے ہیں۔ لاکھوں سجدوں کے بعد، ہزاروں دعائیں مانگنے پر اور
لاکھوں روپوں کا بندوبست کرنے کے بعد جا کر کہیں اس گھر کی زیارت کی منظوری
ملتی ہے۔ زندگی کے چند دن اُس راہ میں سفر کرنے کا موقع ملتا ہے جس کی خاطر
ایک مسلمان اپنی ساری زندگی کا سفر طے کرتارہتا ہے۔ ایسے کتنے ہی لوگ ہوں
گے جو ان منافع خوروں کے ہتھے چڑھ کر زندگی کے سب سے قیمتی دن گنوا بیٹھتے
ہوں گے۔اور پھر اپنی باقی زندگی ان نہ تھمنے والے آنسوؤں کے ساتھ گذار دیتے
ہوں گے۔ |