باہمی تعاون اور اسلام کی معاشی تعلیمات

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

اسلامی نظام حیات نے ایسی جامع اقدارمتعارف کرائی ہیں جو اس پورے نظام کا خاصہ ہیں اور اس میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔اسلامی تصورزندگی کا وہ سیاسی نظام ہو کہ اقتصادی ڈھانچہ،مذہبی رسومات ہوں یا پھر معاشرتی روایات کا مجموعہ یا مجرد انفرادی و اجتماعی شخصیت کی تعمیر کے منفرد زاویے ہوں یا پھر تعلیمی سرگرمیوں کامرکزومحور ہو،غرض یہ اقدارایسے شاہ کلید ہیں جن سے پورے نظام کے مسائل حل ہوتے چلے جاتے ہیں اور انہیں جن جن مسائل کے بڑے بڑے سے تالوں کے سوراخ میں گھماتے رہیں وہ تالے چشم زدن میں کھلتے نظرآتے ہیں۔انسانی زندگی کی بے پناہ الجھی ہوئی معاشی واقتصادی ڈورکا بھی ایک سرا اگر ان گرانقدراقدارکے ہاتھ میں تھما دیا جائے تووہ سارے گنجل ایک ایک کر کے کھلتے اور سلجھتے چلے جائیں جنہیں صدیوں سے انسانی عقل نے سلجھانے کی فکر میں اس قدر الجھادیاہے کہ بظاہر ان کا کوئی حل نظر ہی نہیں آتااور اگرایک طرف سے کوئی سلجھاؤ کی صورت بنتی ہے تو چاروں دیگراطراف اسے مزید گنجلک تر کر دیتے ہیں اور اس دلدل میں انسان ناک تک اتر کر قبر میں سدھارجاتاہے اور منوں مٹی اگلی نسل کے کندھوں پر آن پڑتی ہے۔

باہمی تعاون سے مراد ایک دوسرے کی مدد کرنا ہے۔انسان کا لفظ ’’انس‘‘ سے ماخوذ ہے ،گویاانسان کی فطرت میں دوسرے انسان کے ساتھ انسیت و محبت گویااس نام میں ہی شامل ہے۔مشکل اوقات میں ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کرناانسانی جذبات کا خاصہ ہے۔تعاون کی پشت پر باہمی پیارومحبت اور انسان کے ساتھ انسان کے بین الانسانی تعلق کارفرماہوتاہے۔تعاون نہ ہوتو انسانی نسل کی بقا ممکن نہیں ہے ،ماں باپ باہمی تعاون سے ہی ایک نسل اور خاندان کی پرورش کرتے ہیں۔دنیابھر کے سارے کاروبار اور دھندے تعاون کے بل بوتے پر ہی قائم ہیں۔انسان سے ماوراہوکر اس کائنات کے نظام کا بھی مطالعہ کیاجائے تو بغیرتعاون کے کارخانہ قدرت کا چلنا محال ہے، مثلاَ اگر سورج زمین سے تعاون نہ کرے تو فصلیں نہیں پک سکتیں ،اگر ہوائیں بادلوں کے ساتھ تعاون سے انکار کردیں زمین پر قحظ کاسماں ہوجائے اور اگر آگ لوہے سے تعاون نہ کرے اور لوہا لکڑی سے تعاون نہ کرے تو سارے کارخانے جام ہو جائیں وغیرہ ۔پس تعاون صرف انسانی زندگی ہی نہیں پورے کارخانہ قدرت کے چلنے کاباعث ہے اور خود انسانی زندگی میں بھی بگاڑ اس وقت آتاہے جب انسانوں کا باہمی تعاون ماند پڑ جاتاہے کا ناپیدہوجاتا ہے۔ارشاد باری تعالی ہے کہ:
’’نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو اور بدی اورظلم کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہ کرو۔‘‘6سورۃ المائدہ آیت2
’’اے ایمان والو اگرتم اﷲ تعالی کی مدد کروگے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اورتمہارے قدم مضبوط جمادے گا۔‘‘47سورۃ محمدآیت7
’’ہاں اگروہ دین کے معاملے میں تم سے مددمانگیں توان کی مددکرناتم پر فرض ہے لیکن کسی ایسی قوم کے خلاف نہیں جس کے ساتھ تمہارامعاہدہ ہو،جوکچھ تم کرتے ہو اﷲ تعالی دیکھتاہے۔‘‘8سورۃ انفال آیت72

انسانی معاشرہ ایسی بے شمار مثالوں سے بھراپڑاہے کہ کسی کے پاس سرمایاہے تو وقت نہیں ہے،کسی کے پاس سرمایااور وقت ہے تو کاروباری صلاحیت نہیں ہے ،کسی پاس کاروباری صلاحیت ہے تو سرمایاموجود نہیں ہے وغیرہ ایسی صورت میں ’’تعاون‘‘ہی ایسا راستہ ہے جس کے ذریعے پیدائش دولت کے عمل سے گزراجاسکتاہے ۔اسلام نے اس تعاون کی بہترین صورتیں بتائی ہیں۔سرمایاایک کا اور وقت دوسرے کااور صلاحیت تیسرے کی اور تنظیم چوتھے کی تو کاروبار کی صورت ’’مضاربت ‘‘کہلاتی ہے۔مضاربت ایک طرح سے بنکنگ کی اسلامی صورت بھی کہلائی جاتی ہے۔اس کو یوں سمجھا جاسکتاہے کہ فرض کریں دس افراد کے پاس فالتو سرمایا ہے جو انہیں باپ کے ترکے سے یا جائدادکی فروخت سے یا پرانے قرض کی وصولی سے یا کسی اور جائز ذریعے سء حاصل ہو گیا ہے اور ان دس کے دس افراد کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ اتنے بڑے سرمائے کو کسی کاروبار میں یا منصوبے میں لگائیں اور اس سے مزید جائزمنافع حاصل کریں،وہ سب مل کر ایک ماہر جائداد کو ااپنے ساتھ مضاربت کی بنیاد پر شامل کر لیتے ہیں۔مضاربت کی بنیاد یہ ہے کہ منافع کی صورت میں ایک خاص شرح کے ساتھ رقم ان سب میں تقسیم ہو گی جبکہ نقصان کی صورت میں ساری ذمہ داری سرمایا لگانے والوں کی ہو گی اور ماہر جائدادکو اس نقصان کی کچھ بھی رقم ادانہیں کرنی ہوگی۔اس میں انصاف کا پہلو یہ ہے کہ منافع میں سرمایا والوں نے سرمایا کا فائدہ حاصل کیااور ماہر جائداد نے اپنی محنت اور تنظیم کا صلہ پایاجبکہ نقصان کی صورت میں سرمایاوالوں نے سرمایاکانقصان پایااور ماہر جائداد اپنی محنت کے معاوضے سے محروم ہوگیا۔اس طرح سرمائے اور محنت میں باہمی تعاون سے عدل و انصاف کی بنیاد پر کاوبار ہوگیا۔

باہمی معاشی تعاون میں وقت ،سرمایا،صلاحیت اور تنظیم میں سب برابر کے شامل ہوں تو یہ صورت ’’شراکت‘‘کہلاتی ہے ،شراکت میں سب ہی کم و بیش برابر کے شریک ہوتے ہیں اور انہیں برابر کا حصہ مل جاتاہے۔ مثلاََ دس افرادسرمائے میں شریک ہوگئے ان میں سے پانچ نے سفرکیااور مال تجارت دوسرے ملک سے اپنے ملک میں لائے اور باقی پانچ نے مارکیٹنگ کر کے اسے بیچ دیااور منافع یا نقصان سب میں برابر کے شریک ہوگئے۔شراکت کی بہترین مثال وراثت ہے کہ باپ کے مرنے پراسکی اولاد اس وقت تک اپنے شرعی حصوں کے مطابق برابر کی شریک رہتی ہے جب تک کہ ترکہ تقسیم کر کے وارثوں کے سپرد نہ کر دیا جائے۔شراکت کی اور بھی بے شمار مثالیں ہیں مثلاََپانچ افراد مل کر ایک گڑھاکھودنے کاکام ذمہ لے لیتے ہیں اور معاوضہ برابری کی بنیاد پر تقسیم کر لیتے ہیں۔تاہم اگر محنت یاسرمایا میں سب برابر نہ ہوں تو انکی شمولیت کی نسبت سے منافع میں بھی وہی نسبت قائم رہے گی۔معاشی باہمی تعاون کی ایک قسم ’’شرکت وجوہ‘‘ بھی ہے کہ دوافراد اپنی معاشرتی حیثیت کو بروئے کارلاتے ہوئے قرض حاصل کر لیں اور پھر اس قرض سے حاصل کی ہوئی رقم سے مل کر کاروبار شراکت کریں۔

ان باہمی تعاون کی کاروباری صورتوں میں ایک صورت یہ بھی ہے کہ ایک فرد کے پاس فن ہے اور دوسرے کو اس فن کی ضرورت ہے تو ان کاباہمی معاشی تعاون’’اجرۃ‘‘کہلا ئے گا۔مثلاََدرزی سے کپڑے سلواکر اسے معاوضہ اداکردینا،مزدور سے مکان بنواکر اسے معاوضہ اداکردیناوغیرہ۔خدمات کا حصول بھی معاشی تعاون کی ایک بہترین صورت ہے جیسے حصول صحت کے لیے طبیب کے پاس جانااور اس سے مشاورت کے بعد اس کا معاوضہ اداکر دینا،کسی ماہر نقشہ نویس سے اپنے مکان کا اچھاسا نقشہ بنوانااور اس کامعاوضہ اداکردینا وغیرہ۔ان سب کے علاوہ بھی بے شمار صورتیں باہمی معاشی تعاون کی موجود ہیں اگر دکاندار کے پاس کوئی گاہک نہ آئے تو دکان چل ہی نہیں سکتی ،گاہکوں کا دکاندار کے ساتھ تعاون اسکے کاروبار کی بڑھوتری کاباعث بنتاہے ،بعض اوقات گاہک کے پاس نقد رقم نہیں ہوتی تو دکاندار اسکے ساتھ ادھار کی صورت میں تعاون کرتاہے اور یوں اس تعاون کے باعث دونوں کاکاروبار حیات گامزن رہتاہے۔اس تعاون کا ذرابڑے دائرے میں جائزہ لیاجائے تو زکوۃ،صدقات اوردیگرانفاق فی سبیل اﷲ بھی تعاون کی ہی کئی شکلیں ہیں۔اسی معاشی تعاون کے مشاہدے سے ہی بعض مغربی مفکرین نے انسان کو معاشی جانور کہاہے جب کہ انبیاء علیھم السلام نے انسان کو اشرف المخلوقات کہاہے۔

مالی تعاون کا سبق سکھلانے کیے محسن انسانیت ﷺ نے کتنی خوبصورت کہی جس کا مفہوم ہے کہ جس کو نہیں ملا اس کے حصے کا تمہیں مل گیا،قرآن مجید نے اس مال کو مانگنے والے اور محروم کا حق کہ کر جتلایا ہے گویا اگرچہ ہم اپنی اصطلاح میں اسے تعاون گردانتے ہیں لیکن یہ غریب کا حق ہے کہ اسکی ضروریات کی تکمیل کے لیے اسے اداکیا جائے۔’’باہمی تعاون‘‘کاتصور قرض کے معاملے میں زیادہ اجاگر ہوتا ہے جب ایک فرد اپنی جیب سے اپنی ملکیت کے سکے دوسرے کو بطور قرض دیتاہے اب دوسرا اسے کاروبار میں لگاتاہے یادیگر کسی نوع کا مالی و تجارتی مفاد حاصل کرتا ہے توپہلے کے دل میں شیطان خوامخواہ یہ سوال اٹھائے گا کہ میری رقم سے دوسرے نے اتنا مفاد حاصل کرلیا لیکن مجھے کیا ملا؟؟اس سوال کا سفاکانہ جواب ’’سود‘‘ہے جبکہ اسلامیانہ جواب ’’باہمی تعاون‘‘ ہے۔اور ایسے ہی تعاون کرنے والوں کے بارے میں اﷲ تعالی نے فرمایا کہ اﷲ تعالی احسان کرنے والوں سے محبت رکھتاہے‘‘۔اپنی ذات سے دوسروں کو مفاد پہچانا اور انہیں خوب خوب فائدہ حاصل کرنے دینا لیکن پھر اسکے صلے میں لوگوں سے کچھ نہ مانگنااور نہ ہی کوئی توقع رکھنابلکہ اس کا اجر صرف اﷲ تعالی سے ہی چاہنا عین انبیاء علیھم السلام کی سنت ہے۔قرآن مجیدنے انبیاکا یہ قول متعددمقامات پر نقل کیا ہے جو وہ اپنی قوم کے افراد سے کہاکرتے تھے کہ ہم تم سے کوئی بدلہ یاصلہ نہیں چاہتے ہمارااجر تو صرف اﷲ کے ہاں ہی ہے۔تعاون کاجذبہ انسانی معاشرے میں انسانی جذبوں کے فروغ کی یقینی ضمانت فراہم کرتاہے۔

Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 571965 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.