گیارہویں تراویح

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

آج کی تراویح، میں تیرہویں پارے کے نویں رکوع سے چودہویں پارے کے اٹھارویں رکوع تک تلاوت کی گئی۔ سب سے پہلے قرآن کی دعوت قبول کر کے اللہ کے راستے پر چل کھڑے ہونے والوں کے لیے انجام کار میں کامیابی کی بشارت سنائی اور اس کے مخالفت و مزاحمت کرنے والوں پر اللہ کی لعنت کی خبر دی- پھر اس شبہ کا جواب دیا کہ اگر اللہ کی تمام عنایتوں کے حق دار صرف اہل ایمان ہی ہیں تو وہ لوگ کیوں رزق و فضل کے مالک بنے بیٹھے ہیں جو دن رات اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت میں سرگرم ہیں- فرمایا اللہ جس کے لئے چاہتا ہے رزق کے دروازے کھول دیتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے- جس کے لیے وہ کشادہ کرتا ہے اس سے چاہتا ہے کہ وہ اپنے رب کا شکر گزار بندہ بنے اور جس کے لئے تنگ کرتا ہے اس سے چاہتا ہے کہ وہ صبر کرے اسی صبر وشکر پر دین کی ساری عمارت کھڑی ہے۔ جو لوگ اس دنیا کے کنکر پتھر پاکر غرور میں آخرت کو بھلا بیٹھے ہیں وہ جب آخرت کے دن صابرین و شاکرین کے اجر کو دیکھیں گے تب انہیں اندازہ ہوگا کہ نہایت ہی حقیر چیز کے لئے انہوں نے آخرت کی بادشاہت کھو دی-

کفار کے بار بار کے اس مطالبہ پر کہ کوئی زبردست ایسا معجزہ دکھایا جائے کہ مانے بغیر چارہ ہی نہ رہے واضح کیا گیا کہ کائنات اور خود انسان کی زندگی میں جو دلیلیں اور نشانیاں اللہ نے رکھی ہیں جن لوگوں کا اطمینان ان سے نہیں ہوتا وہ دنیا جہاں کے معجزے بھی دیکھ لیں تو بھی اندھے ہی رہیں گے کیونکہ ایمان و ہدایت کا راستہ اللہ کے کلام اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باتوں پر غور کرنے سے ہی کھلتا ہے-

شرک اور اللہ کے ساتھ ٹہرائے ہوئے شریکوں کی حقیقت بیان کی کہ ان کی کوئی بنیاد نہیں یہ محض من گھڑت باتیں ہیں اس فریب میں مبتلا ہوکر جنہوں نے اللہ کے راستے سے منہ موڑا وہ اس دنیا میں بھی عذاب سے دوچار ہونگے اور آخرت کا عذاب تو اس سے کہیں زیادہ سخت ہوگا کوئی شفیع یا شریک وہاں انہیں بچانے والا نہ ہوگا۔

سورہ رعد میں اللہ تعالیٰ نے شرک اور اسلام کے فرق کو بہترین مثال سے واضح فرمایا کہ شرک کے جس نظام پر تم زندگی بسر کررہے ہو ( کہ اپنے من مانے احکام چلا رہے ہو ) اس کی کوئی بنیاد نہ زمین پر ہے نہ آسمان میں۔ اس کی مثال گندگی کے ڈھیر پر اگے ہوئے ایک ناپاک اور کانٹے دار پودے کی ہے جو زرا سی حرکت سے اکھاڑ پھینکا جاسکتا ہے۔ اگر یہ اب تک برقرار ہے تو اس وجہ سے کہ ابھی ایسا کوئی ہاتھ نہیں آیا جو اسے اکھاڑ پھینکے اب اللہ نے وہ ہاتھ پیدا کردئے ہیں تو تم دیکھو گے کہ کتنی جلدی سارا قصہ پاک ہوجائے گا۔

اس کے مقابلہ میں اسلام کی دعوت کی مثال ایک پاکیزہ پھلدار درخت کی سی ہے جس کی جڑیں پاتال میں اتری ہوئی ہیں اور شاخیں آسمان میں پھیلی ہوئی ہیں، اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو دنیا میں مضبوط اور مستحکم کرے گا اور آخرت میں بھی سرخروئی بخشے گا بشرطیکہ وہ صبر اور استقامت کے ساتھ حق پر ڈٹے رہیں اور اس راہ میں پیش آنے والی آزمائش کا اللہ پر بھروسہ رکھتے ہوئے مقابلہ کریں- اس حقیقت کو تاریخ کی روشنی میں واضح کرنے کے لئے حضرت موسٰی علیہ السلام اور دوسرے انبیاء کرام کے وہ واقعات پیش کئے جن سے اس پہلو پر روشنی پڑتی ہے کہ صبر کرنے والے اور راہ حق پر ڈٹے رہنے والے غالب آئے، مخالفین تباہ کردیئے- لیکن یہ بھی بتایا کہ غلبہ انہی کو حاصل ہوگا جو پہلے مرحلے میں صبر و استقامت دکھائیں۔

مخالفین اسلام کا آخرت میں جو حشر ہوگا اس کو بیان کیا کہ ان کا سارا کیا دھرا خاک اور راکھ ہو کر اڑ جائے گا اور لیڈر اور ان کے پیرو سب ایک دوسرے پر لعنت کریں گے یہاں تک کہ شیطان بھی اپنی پیروی کرنے والوں سے اپنی جدائی کا اعلان کردے گا اور کہے گا “ بس میں نے تو تمہیں صرف اپنی طرف بلایا تھا یہ تو تم ہی تھے کہ میری بات مان لی اب مجھے ملامت مت کرو۔ نہ میں تمہارے کچھ کام آسکتا ہوں نہ تم میرے کچھ کام آسکتے ہو- بے شک یہ اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والوں کا انجام دردناک عذاب ہے۔

قریش کے لیڈروں کو تنبیہہ کی کہ انہوں نے اللہ کی بخشی ہوئی نعمتوں کو کفر اور شرک کا ذریعہ بنا لیا ہے اور اس طرح قوم کو جہنم کے گھاٹ پر لا کھڑا کیا ہے۔ اس میں آج کے لیڈروں کے لیے بھی نصیحت ہے کاش وہ قرآن کو سمجھیں-

مسلمانوں کو نصیحت کی گئی کہ وہ نماز کا اہتمام کریں اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے چھپا کر بھی اور اعلانیہ بھی خرچ کریں اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جس میں نہ کوئی خرید وفروخت ہوگی اور نہ دوستی کام آئے گی- اللہ کو ان ظالموں کے کرتوت سے بےخبر نہ سمجھو وہ ان کو بس اسی دن کے لیے ٹال رہا ہے جس دن نگاہیں پھٹی رہ جائیں گی اور وہ سر اٹھائے ہوئے بھاگ رہے ہونگے۔ ٹکٹکی بندھی ہوگی اور ان کے دل اڑے ہوئے ہونگے۔۔۔۔اور وہ فریاد کریں گے۔۔۔۔۔ “اے ہمارے رب ہمیں تھوڑی سی مہلت اور دے دے ہم تیری دعوت کو قبول کرلیں گے اور رسولوں کی پیروری کریں گے۔۔۔ “ اللہ غالب اور انتقام کی قدرت رکھنے والا ہے۔۔۔۔۔ اس دن کو یاد رکھو جس دن یہ زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی، اور سب اللہ واحد و قہار کے سامنے پیش ہونگے اور تم مجرموں کو اس دن زنجیروں میں جکڑا ہوا دیکھو گے ان کے لباس تارکول کے ہونگے اور ان کے چہرے پر آگ چھائی ہوئی ہوگی تاکہ اللہ ہر جان کو اس کی کمائی کا بدلہ دے- اور اللہ کو حساب چکاتے کوئی دیر نہیں لگے گی- یہ لوگوں کے لئے ایک اعلان ہے تاکہ اس کے ذریعہ وہ آگاہ کردئے جائیں اور جان لیں کہ وہی ایک معبود ہے اور اہل عقل اس سے یاد دہانی حاصل کرلیں-

سورہ الحجر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے یہ اطمینان دلایا گیا کہ یہ قرآن بجائے خود ایک واضح حجت ہے اگر یہ لوگ اس کو نہیں مان رہے تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے، ہمیشہ رسولوں کو جھٹلانے والوں کی یہی روش رہی ہے- آپ کو تو جو حکم ملا ہے اس کو علی الاعلان سناتے رہیے اور مشرکوں سےدامن بچائیے ہم آپ کی طرف سے ان سے نمٹنے کے لئے کافی ہیں- آپ تو اپنے رب کی اطاعت و عبادت میں لگے رہیئے یہاں تک کہ وہ یقینی وقت آجائےیعنی موت یا قیامت۔۔۔

سورہ النحل کی ابتداء ہی زبردست وارننگ سے ہوئی ہے۔ بس آیا ہی چاہتا ہے اللہ کا فیصلہ ! اب اس کے لئے جلدی نہ مچاؤ، پاک ہے وہ اور بالاتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں- وہ اس روح یعنی وحی کو اپنے جس بندے پر چاہتا ہے اپنے حکم سے مالائکہ کے ذریعہ نازل فرما دیتا ہے کہ آگاہ کرو میرے سوا کوئی معبود نہیں لہٰذا تم مجھ سے ہی ڈرو،- اس نے آسمان و زمین کو برحق پیدا کیا ہے اور اس نے انسان کو زرا سی بوند سے پیدا کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ صریحاً ایک جھگڑالو ہستی بن گیا اور ان تمام نشانیوں کو نظر انداز کردیا کہ اللہ نے اس کی خوراک اور طرح طرح کے بے شمار فائدوں کے لئے جانور پیدا کئے-

سمندر میں عظیم الشان اور پر خطر چیز کو اس کے لئے مسخر کردیا تو کیا وہ جس نے ان چیزوں کو پیدا کیا اور وہ جو کچھ بھی نہیں پیدا کرتے دونوں برابر ہیں؟؟ وہ جنہیں لوگ اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہیں خود مخلوق ہیں، مردہ ہیں نہ کہ زندہ اور ان کو کچھ معلوم نہیں کہ کب دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جائے گا۔

ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا اور اس کے ذریعے سے سب کو خبردار کردیا کہ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو- اس کے بعد ان میں سے کسی کو اللہ نے ہدایت بخشی اور کسی پر گمراہی مسلط ہوگئی- زرا زمین پر چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوچکا ہے؟

کیا یہ لوگ اللہ کی پیدا کی ہوئی کسی چیز پر بھی غور نہیں کرتے کہ اس کا سایہ کس طرح اللہ کے حضور سجدہ کرتے ہوئے دائیں اور بائیں گرتا ہے؟ سب کے سب اسی طرح اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں- زمین اور آسمان میں جس قدر جاندار مخلوقات ہیں اور جتنے ملائکہ ہیں سب اللہ کے آگے سربسجود ہیں وہ ہرگز سرکشی نہیں کرتے، اپنے رب سے جو ان کےاوپر ہے ڈرتے ہیں اور جو کچھ حکم دیا جاتا ہے اس ہی کے مطابق کام کرتے ہیں- آخرت کے انجام سے بے خوف رہنے والوں کو آگاہ کیا کہ اگر کہیں اللہ لوگوں کو ان کی زیادتیوں پر فوراً پکڑ لیتا تو روئے زمین پر کسی جاندار کو زندہ نہ چھوڑتا لیکن وہ تو سب کو ایک مقررہ مہلت دیتا ہے پھر وقت آجاتا ہے تو گھڑی بھر آگے پیچھے نہیں ہوسکتا۔

ان منکروں کو کچھ ہوش بھی ہے کہ اس روز کیا بنے گا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ کھڑا کریں گے پھر منکروں کو نہ حجتیں پیش کرنے کا موقع دیا جائے گا نہ توبہ و استغفار کا اور نہ ان کےعذاب میں کوئی کمی کی جائے گی- اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں اس دن سے خبردار کردجیئے جب آپ کو انکے مقابلے میں شہادت کے لئے کھڑا کیا جائے گا- یہ اسی شہادت کی تیاری ہے کہ ہم نے یہ کتاب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کردی ہے۔ جو ہدایت، رحمت، اور بشارت ہے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے سر تسلیم خم کردیا۔

آج کی تراویح کا بیان ختم ہوا۔ دعا ہے کہ اللہ ہمیں قرآن کو پڑھنے، سمجھنے، اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین -اللہ اس قرآن کی برکتوں سے ہمارے ملک اور شہر کے حالات تبدیل فرمائے آمین
تحریر : مولانا محی الدین
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1520327 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More