بسم اللہ رحمٰن الرحیم
آج کی تراویح میں چودہویں پارے کے تیرہویں رکوع سے پندرہویں پارے کے اختتام
تک تلاوت کی جائے گی۔ جس رکوع پر اختتام ہوا تھا اس میں بتایا گیا کہ “ جو
لوگ اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کردیں ان کے لئے یہ کتاب صراط مستقیم کی
رہنمائی کرے گی اور رحمت و بشارت ثابت ہوگی “ - اب فرمایا کہ اس کی ہدایت
اور رحمت و بشارت کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ حکم دیتا ہے کہ عدل کا، احسان کا
اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا ، اور روکتا ہے بے حیائی، سرکشی سے، تمام
نیکیوں اور برائیوں کی جڑ انہی میں سے ہے- عدل یہ ہے کہ جس کا جو حق بنتا
ہے ہم بغیر کسی کمی بیشی کے اس کو ادا کریں- خواہ حقدار کمزور ہو یا طاقت
ور اور خواہ ہم اس سے راضی ہوں یا ناراض اس کا حق کسی حال میں نہ روکیں،
احسان عدل سے زیادہ چیز ہے یعنی یہ کہ ہم فیاضانہ اور کریمانہ سلوک کریں-
پھر رشتہ داروں پر عدل و احسان کے علاوہ مزید اپنے مال خرچ کریں اسی طرح
بدکاری، بے حیائی کے کاموں سے اور ہر اس کام سے جو ایک شریفانہ معاشرے میں
اچھا نہیں سمجھا جاتا، ہمیں بچنا چاہیئے اور اپنی طاقت اور اثر سے کوئی
ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا چاہیئے۔
دو گروہوں کا ذکر کیا ایک وہ جنہوں نے آخرت کے مقابلہ میں دنیاوی زندگی اور
اس کے عیش و آرام کو ترجیح دی ان کے بارے میں اللہ کا فیصلہ ہے کہ وہ انہیں
سیدھا راستہ نہیں دکھائے گا اور ان کے دلوں پر، کانوں پر اور آنکھوں پر مہر
لگادے گا۔ لازماً یہ آخرت میں انتہائی نقصان میں رہیں گے۔
دوسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جو ایمان لانے کی وجہ سے ستائے گئے تو انہوں نے
گھر بار چھوڑ دئے، اللہ کی راہ میں ہجرت کی، سختیاں جھیلیں اور صبر کیا۔ ان
کے لئے یقیناً تمہارا رب غفور و رحیم ہے- لوگوں کو دین کی طرف بلانے کے لیے
ہدایت دی کہ “ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت
دو اور بحث کرنا پڑے تو تو اس طرح بحث کرو کہ جو پسندیدہ ہے- بے شک تمہارا
رب خوب جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور کون ان کی ہدایت پر
ہے۔ اگر تم کسی سے بدلہ لو تو اتنا ہی جتنا تمہارے ساتھ کیا گیا ہے اور اگر
تم صبر کرلو تو یہ چیز صبر کرنے والوں کے لیے بہت ہی بہتر ہے اور تمہیں صبر
نہیں حاصل ہوسکتا مگر اللہ ہی کے تعلق سے اور تم ان مخالفین کی حرکتوں سے
غم زدہ نہ ہو اور نہ انکی چالوں سے پریشان ہو۔ یقیناً اللہ انکے ساتھ ہے
جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا اور احسان کے ساتھ کام کیا۔
سورہ بنی اسرائیل میں انہیں انکی تاریخ کی روشنی میں بتایا گیا کہ اگر تہ
اس غرور میں مبتلا ہو کہ اللہ چہیتے اور محبوب ہو تو یہ خود فریبی ہے۔
تہماری اپنی تاریخ گواہ ہے کہ جب تم نے اللہ سے بغاوت کی تو تم پر مار بھی
پڑی- اللہ کی رحمت کے تم اس وت مستحق ہوئے جب تم نے اصلاح کی راہ اختیار کی-
ساتھ ہی معراج کے واقعہ کو بتا کر مشرکین اور بنی اسرائیل دونوں پر ہی یہ
واضح کردیا کہ اب مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ دونوں کی امانت تم خائنوں سے
چھین کر اسی نبی امی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالہ کرنے کا فیصلہ ہوچکا
ہے جس کو سرخ رو ہونا ہو وہ اپنی روش بدل کر اس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی ہدایت کےمطابق کرلے ورنہ اپنی ضد اور سرکشی کے نتائج بھگتنے کے لئے
تیار ہوجائے۔
اسی ضمن میں اخلاق و تمدن کے دو بڑے اصول بیان کئے جن پر زندگی کے نظام کو
قائم کرنے کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ آخری کتاب دی گئی ہے۔
یہ گویا اسلام کا منشور ہے جسے مدینہ میں اسلامی ریاست کے قائم کرنے سے ایک
سال پہلے سب کے سامنے پیش کردیا گیا۔ کفار مکہ سامنے بھی اور اہل کتاب کے
سامنے بھی ( اور اب قیامت تک تمام انسانوں کے لئے یہی منشور کافی ہے )
فرمایا “ ١ عبادت صرف اللہ کی کرو - ٢ والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو- ٣ رشتہ
داروں، مسافروں، مسکینوں کو انکا حق دو- ٤ فضول خرچی نہ کرو۔- ٥ اگر کسی کی
ضرورت پوری نہ کرو تو نرمی سے جواب دو- ٦ نہ کنجوسی کرو، نہ فضول خرچی کرو،
اعتدال کی راہ اختیار کرو- ٧ اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو - ٨
زنا کے قریب بھی نہ پھٹکو- ٩ بغیر کسی قانونی جواز کے کسی کو قتل نہ کرو-
١٠ قانونی حدود سے باہر یتیم کے مال کے پاس بھی نہ پھٹکو- ١١ باہمی قول و
اقرار کی پابندی کرو- ١٢ ناپ تول میں کمی بیشی نہ کرو - ١٣ جس بات کا تمہیں
علم نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑو - ١٤ غرور اور تکبر کی چال نہ چلو - یہ وہ
حکمت کی باتیں ہیں جو تمہارے رب نے تم پر وحی کی ہیں
یہ آخرت کےمنکرین تعجب کا اظہار کرتے ہیں کہ خاک ہوجانے کے بعد کیسے پیدا
کئے جائیں گے، کہو جس طرح پہلے پیدا کئے گئے تھے۔ انہیں ہمارے عذاب کا یقین
نہیں ہے، کہو کوئی بستی ایسی نہیں ہے کہ ہم نے اسے ایک وقت آنے پر ہلاک نہ
کردیا ہو یا اس پر عذاب نہ بھیجا ہو۔ پھر شیطان کے ازلی دشمن ہونے کا ذکر
کیا گیا تاکہ سمجھ میں آسکے کہ کفر، نافرمانی، اور ناشکری کی روش شیطان کی
روش ہے اور جو اس پر چلے گا وہ گویا شیطان کی پیروی اختیار کرے گا حالانکہ
یہ روش دھوکے کے سوا کچھ نہیں، کہنے پر تو اس رب کے چلنا چاہیے جو سب کا
حقیقی رب ہے، جو سمندروں میں کشتیاں چلاتا ہے تاکہ روزی حاصل کرسکو-کیا تم
اس بات سےبے خوف ہوگئے ہو کہ ہمیں وہ خشکی پر زمین میں دھنسا دے یا تم پر
پتھراؤ کرنےوالی آندھی بھیج دے اور تم کوئی حمایتی نہ پاؤ-
سیدھے راستے پر ثابت قدمی کے لئے نماز کےاہتمام کی تاکید کی اور فرمایا
نماز قائم کرو، زوال آفتاب سے لیکر رات کے اندھیرے تک اور فجر کے قرآن کا
التزام کرو کیونکہ فجر میں پڑھے جانے والے قرآن کے خاص طور پر اللہ کے
فرشتے گواہ بنتے ہیں اور رات کو تہجد پڑھو یہ تمہارے لیے نفل ہے تاکہ
تمہارا اللہ تمہیں مقام محمود پر فائز کردے اور دعا کرو کہ پروردگار تو
مجھے جہاں بھی لے جائے سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے
ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنا اور اعلان کرو کہ
حق آگیا اور باطل مٹ گیا باطل تو ہے ہی مٹنے کے لئے۔
ہر زمانے کی جہالتوں میں سے ایک یہ ہے کہ لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا رہے
ہیں کہ بشر کبھی پیغمبر نہیں ہوسکتا اسی لئے جب کوئی رسول آیا تو انہوں نے
یہ دیکھ کر کہ یہ تو کھاتا پیتا ہے، بیوی بچے رکھتا ہے، گوشت پوست کا بنا
ہوا ہے، فیصلہ کردیا کہ یہ پیغمبر نہیں ہے کیوں کہ بشر ہےاور جب وہ گزر گیا
تو ایک مدت کے بعد اس کے ماننے والوں میں ایسے لوگ پیدا ہوئے جو کہنے لگے
وہ بشر نہیں تھا کیونکہ وہ پیغمبر تھا چنانچہ کسی کو خدا کا بیٹا کہا اور
کسی اس کا خدا بنا لیا کسی نے کہا کہ خدا اس میں حلول کرگیا ہے۔ غرض بشریت
اور پیغمبری کا ان جاہلوں کےنزدیک جمع ہونا ایک معمہ بنا رہا، حالانکہ کھلی
ہوئی بات ہے کہ اگر زمین ہر فرشتے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ضرور آسمان سے
فرشتے ہی کو پیغمبر بنا کر بھیجتے، جب زمین بشر زمین پر بستے ہیں تو انکی
رہنمائی کے لئے بشر ہی کو رسول بنایا ہے۔
سورت کو ختم کرتے ہوئے فرمایا اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے کہو “
اللہ کہہ کر پکارو یا رحمان کہہ کر جس نام سے بھی پکارو گے اس کے لئے سب
اچھے ہی نام ہیں“ اور کہو تعریف ہے اس اللہ کے لئے جس نے کسی کو بیٹا بنایا
نہ کوئی بادشاہی میں اس کا شریک ہے اور نہ ہی وہ عاجز ہے کہ کوئی اس کا
سہارا بنے اور اسکی بڑائی بیان کرو کمال درجہ کی بڑائی
اس کے بعد سورہ کہف ہے، یہودیوں کی طرح عیسائیوں نے بھی قریش کو اکسایا کہ
ان سے ذرا اصحاب کہف یعنی غار والوں کا حال پوچھو۔ اللہ نے حضرت محمد صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے حالات سے آگاہ فرمایا کہ چند نوجوان جو اللہ
کی توحید پر ایمان لائے تھے اپنے مشرک معاشرہ کے مظالم سے تنگ آکر بستی سے
نکل کھڑے ہوئے اور پہاڑ کے ایک غار میں پناہ گزین ہوگئے-اللہ نے ان پر طویل
نیند طاری کردی اور غار کے منہ پر انکا کتا بھی نیند میں اسی طرح بیٹھا رہا
کہ دیکھنے والے اسے زندہ سمجھ کر پاس بھی نہ پھٹک سکے۔ برسوں کے بعد جب
جابر و مشرک حکومت بدل گئی تو اللہ نے انہیں نیند سے بیدار کیا اور باہر کے
حالات سے واقف ہونے کے بعد پھر ان پر موت طاری کردی۔
اس واقعہ کے آئینہ میں اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے
صحابہ کرام کو دکھایا کہ تم اس وقت دعوت کے جس مرحلہ میں ہو یہ مرحلہ اصحاب
کہف کو بھی پیش آیا تھا اگر تم صبر کے ساتھ اسی راستے پر چلتے رہے تو اللہ
تمہارے لئے بھی اسی طرح راستہ نکالے گا جس طرح ان کے لئے نکالا تھا، اللہ
اپنی راہ میں چلنے والوں کو کبھی بھی ضائع نہیں کرتا۔
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس موقع پر توجہ دلائی کہ ان دنیا کے لالچی
لوگوں کے مقابلہ میں اپنے غریب اور نادار ساتھیوں کی طرف زیادہ توجہ دیجئے
جو اگرچہ دنیا کی دولت سے محروم ہیں مگر ایمان کی دولت سے مالا مال ہیں- دن
رات اللہ کی یاد میں اور اس دین کی دعوت میں سرگرم ہیں- جو لوگ اسی دنیا کی
کامیابی کو اصل کامیابی سمجھ بیٹھے ہیں انہیں کھیتی کے لہلہاتے اور آخر میں
سوکھ کر بھوسا بن جانے کی مثال کے ذریعہ سمجھایا کہ یہ دنیا اور اس کی
بہاریں چند دن کی ہیں۔ ان میں سے کوئی چیز ساتھ جانے والی نہیں ساتھ صرف
ایمان اور نیک عمل جائیں گے اس سرمایہ کو جمع کرنے کی فکر کرو۔
آج کی تراویح کا بیان ختم ہوا۔ اللہ ہمیں قرآن پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل
کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین- اللہ اس قرآن کی برکت سے ہمارے ملک اور
شہر کے حالات تبدیل فرمائے آمین
تحریر: مولانا محی الدین ایوبی |