ملائیشین مسافر طیارہ سمندر میں گر گیا یا پھر اسے ہائی
جیک کر لیا گیا، معمہ تاحال حل نہ ہوسکا، طیارے میں سوار مسافروں کے فون بج
رہے ہیں لیکن کوئی کال ریسیو نہیں کر رہا۔
آج نیوز کے مطابق ملائیشین طیارہ ایم ایچ 370 نے ہفتے کی شب کوالالمپور سے
بیجنگ کے لئے اڑان بھری تھی۔ پرواز کا بیجنگ پہنچنے کا وقت صبح ساڑھے چھ
بجے تھا جبکہ طیارے کا رابطہ ڈیڑھ بجے سے رڈار سے منقطع ہو گیا تھا۔
|
|
طیارے کے حوالے سے متضاد اطلاعات ہیں پہلے کہا جا رہا تھا کہ طیارہ سمندر
میں ڈوب گیا ہے جبکہ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ طیارے کو ہائی جیک
کر لیا گیا ہے۔
طیارے میں سوار مسافروں کے لواحقین نے جب اپنے پیاروں کے موبائل فونز پر
کال کی تو فون کی گھنٹی مسلسل بجنے کے باوجود کوئی کال ریسیو نہیں کر رہا۔
لواحقین نے مطالبہ کیا ہے کہ پولیس ان کے عزیزوں کے نمبر سے ان کی صحیح
لوکیشن کا پتہ لگا سکتی ہے۔
لواحقین کا کہنا ہے کہ اگر طیارہ سمندر میں ڈوبا ہوتا تو مسافروں کے فون پر
کالز کیسے جا سکتی تھیں۔ آج بھی ویتنام کے قریب لاپتا ہونے والے طیارے کی
کثیرالملکی سرچ اینڈ ریسکیو کوششیں جاری ہیں۔ جس میں سات ملکوں کے سینتیس
ہوائی جہاز اور چالیس سے زائد بحری جہاز حصہ لے رہے ہیں۔
تاہم ابھی تک طیارے کے حوالے سے کوئی مستند بات سامنے نہیں آسکی۔ طیارے میں
دو سو انتالیس افراد سوار تھے۔
|
|
دوسری جانب کولوراڈو میں قائم، سیٹلائٹ تصاویر سے متعلق ادارے، ’ڈجیٹل گلوب‘
نے کہا ہے کہ اُس نے ’ٹام نوڈ‘ نامی اپنے انٹرنیٹ پلیٹ فارم کو ’متحرک‘ کر
دیا ہے، جسے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ تک رسائی رکھنے والا ہر فرد استعمال کرتے
ہوئے ملائیشیا کے لاپتا مسافر طیارے کی تلاش میں مدد دے سکتا ہے۔
وائس آف امریکہ کے مطابق کمپنی کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کی غیر معمولی ٹریفک
کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، ادارے نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اُس مقام کی تصاویر کی
ایک نئی کلیکشن شائع کرے گا، جہاں یہ طیارہ لاپتا ہوا۔
’ڈجیٹل گلوب‘ نے تمام لوگوں سے جو ’وقت‘ نکال سکتے ہیں اور ’اسکین‘ میں مدد
دے سکتے ہیں، اپیل کی ہے کہ وہ کسی ممکنہ ’سراغ‘ تک پہنچنے کے لیے، سمندر
کی سطح کی تصاویر کی تفاصیل پر نگاہ ڈالیں۔
گذشتہ اتوار کو ’ڈجیٹل گلوب‘ کے دو سیٹلائٹس نے تھائی لینڈ کی خلیج کے
تقریباً 3،200 مربع کلومیٹر کے علاقے کی تصاویر بنائی تھیں، جس کا
’رزولوشن‘ عام کمپیوٹر اسکرین سے 20 سینٹی میٹر بڑا ہے۔
|
|
یہ تصاویر ادارے کے پلیٹ فارم Tomnod.comپر دستیاب ہیں۔
سائٹ پر مفت رسائی کے ذریعے پہلے سے تلاش کردہ علاقے کا دوبارہ جائزہ لینے
کی اجازت دیتا ہے، نظر آنے والی اشیا کو ’مارک‘ کیا جا سکتا ہے، اور دیگر
افراد کے ساتھ اس معلومات کو ’شیئر‘ کیا جا سکتا ہے۔
’ڈجیٹل گلوب‘ پچھلے برسوں کے دوران متعدد قدرتی اور انسانی آفات کے وقت
ہونے والی تلاش اور بچاؤ کے کام میں شریک رہا ہے، خصوصی طور پر پچھلے سال
ہونے والے’ہائیان‘ نامی سمندری طوفان کے دوران، جب فلپینز کے کئی حصے تباہ
ہوگئے تھے۔
نجی ملکیت میں چلنے والی یہ کمپنی پانچ سیٹلائٹ چلاتی ہے، اور سرکاری اور
نجی صارفین کی ایک بڑی تعداد کو سہولتیں فراہم کرتی ہے، جن میں ’ناسا‘ اور
’گوگل‘ شامل ہیں۔ |