رمضان المبارک کا چاند

گھر میں سب لوگ ایک دوسرے کو چاند کی مبارک باد دے رہے تھے۔ مسجدوں سے چاند نظر آنے کے اعلانات ہورہے تھے۔ ہادی پریشان تھا کہ ابھی دو دن پہلے میری امی میرے لئے نئے کپڑے خرید کرلائیں جو کہ ابھی سلے نہیں۔ ہادی سوچ میں پڑگیا کہ یہ کیسی چاند رات ہے نہ نئے جوتے نہ نئی گھڑی اور عینک آئی۔ پھر کچھ دیر کے بعد ہادی کے ابو اور سب لوگ نماز پڑھنے کی تیاری کر کے، نماز ادا کرنے چلے گئے۔ آدھا گھنٹہ سے زائد وقت گزر گیا مگر کوئی نماز پڑھ کر واپس نہ آیا تو اس نے سوچا کہ پہلے تو ابو قریبی مسجد سے پندرہ منٹ میں نماز پڑھ کر واپس آجاتے تھے۔ آج ابھی تک کیوں نہیں آئے یہ سوالات ہادی کے ذہن میں تھے۔

ہادی پریپ کلاس کا طالب علم ہے۔ وہ صرف عید کے چاند کے بارے میں ہی جانتا ہے کہ رات کو چاند نظر آتا ہے، صبح کو نئے جوتے، نئے کپڑے، گھڑی، عینک لگا کر عید کی نماز پڑھنے جاتے ہیں اور واپس آکر ابو٬ امی٬ چچا٬چچی سے ملنے جاتے ہیں اور ان سے عیدی وصول کرتے ہیں۔ عید آنے کی خوشی اس لئے بھی ہوتی ہے کہ سب سے عیدی ملتی ہے۔ جس سے اپنے مرضی کے کھلونے وغیرہ خریدتے ہیں۔ ہادی نے تو اس سال عیدی کے پیسوں سے اپنے لئے چھوٹا سائیکل لینے کا پروگرام بنایا ہوا تھا۔ اب وہ اس عجیب سی چاند رات پر پریشان تھا۔ اتنے میں اسے بھائی عاقب نظر آیا جو ابھی گھر میں ہی نماز پڑھ کر فارغ ہوا تھا۔ عاقب گیارہ سال کا بچہ ہے اور چھٹی جماعت کا طالب علم ہے اس نے کچھ ہی عرصہ پہلے اپنی امی جان سے نماز پڑھنا سیکھی تھی چونکہ ابھی وہ چھوٹا تھا اس لیے اکثر نمازیں گھر میں پڑھ لیا کرتا تھا کبھی کبھی ابو کے ساتھ مسجد بھی جاتا تھا۔

ہادی نے عاقب سے پوچھا عاقب بھائی یہ کونسا چاند نظر آیا ہے؟ نہ شور ہے، نہ بازار جا رہے ہیں؟ نہ ہی ہمارا عید کا سامان پورا ہوا ہے ابھی تو جوتے بھی نہیں لیے ابو بھی نماز پڑھ کر واپس نہیں آئے۔ عاقب، ہادی کی پریشانی سمجھ گیا لیکن اس نے اسے تنگ کرنے کا پروگرام بنایا۔عاقب نے کہا کہ تم جو وقت پر ہوم ورک نہیں کرتے، پڑھتے وقت امی کو تنگ کرتے ہو۔ اس لئے اس سال عید پر نہ تمہیں نئے کپڑے ملیں گے نہ جوتے۔ اب تو ہادی رونے والا ہوگیا۔ ہادی کی امی جو کہ نماز تراویح ادا کر کے فارغ ہوگئیں تھیں۔ انہوں نے عاقب کو ڈانٹا کہ ہادی کو تنگ مت کرو۔ تب عاقب نے ہادی کو بتایا کہ یہ رمضان کا چاند ہے۔ اس ماہ میں سب لوگ روزے رکھتے ہیں۔ جب روزے ختم ہونگے تو عید کا چاند نظر آئے گا۔ عاقب کو روزے کے متعلق زیادہ معلومات نہیں تھیں۔ اس نے سوچا کہ امی سے روزے کے متعلق مکمل تفصیلات پوچھوں گا۔

اتنے میں عاقب اور ہادی کے چچا احمد آگئے۔ انہوں نے ہادی سے کہا کہ تم بھی کل روزہ رکھو گے۔ گرمیوں کے دن تو بہت بڑے ہوتے ہیں۔ ہادی چڑی روزہ رکھے گا۔ عاقب ایک دن میں دو دو روزے رکھے گا۔ عاقب کے چچا احمد بولتے جارہے تھے۔ عاقب کے ذہن میں روزے کے متعلق سوالات بنتے جارہے تھے۔ چچا احمد نے اپنا مذاق جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پندرہ دن کے بعد عاقب کے تیس روزے پورے ہوجائینگے۔ اور سولھویں دن یہ عید کرلے گا۔

صبح فجر کی نماز سے بہت پہلے امی نے عاقب اور ہادی کو جگا دیا۔ انہوں نے سب کے ساتھ مل کر کھانا کھایا اور نماز پڑھ کر سوگئے۔ صبح اٹھ کر ہادی روزانہ کی طرح دودھ پی کر بھائی کے ساتھ سکول چلا گیا۔ سکول میں ہادی کے استاد نے بچوں سے پوچھا کہ روزہ کس کس نے رکھا ہے۔ کچھ بچوں کے ساتھ ہادی نے بھی ہاتھ کھڑا کر دیا۔ اب استاد نے ہاتھ کھڑا کرنے والوں سے پوچھا کہ روزہ کہاں رکھا تھا۔ کوئی بولا الماری میں، کوئی کہنے لگا کچن میں، ہادی بولا کہ پیٹ میں رکھا تھا۔ چونکہ یہ سب بچے تھے۔ استاد نے بس یونہی مذاق میں بات ختم کردی اور پڑھانا شروع کردیا۔ عاقب کی کلاس کے استاد نے بھی پوچھا تو بچوں نے بتایا کہ پیٹ میں رکھا ہے۔ پھر استاد نے انہیں روزے کے بارے میں بتلایا۔ عاقب کو کچھ بات تو سمجھ آگئی مگر ابھی اس کے ذہن میں بہت سے سوالات تھے۔

عاقب اور ہادی سکول سے چھٹی کر کے گھر آئے تو عاقب کو سخت پیاس اور بھوک لگی ہوئی تھی۔ اس نے تو صبح ناشتہ بھی نہیں کیا تھا۔ گھر میں کھانے پینے کا کوئی ماحول اور تیاری نہ تھی، کچن ویران پڑا تھا۔ عاقب کا اترا ہوا چہرہ دیکھ کر امی سمجھ گئیں کہ عاقب کو بھوک لگی ہوئی ہے۔ عاقب کی امی نے دونوں بھائیوں کو کھانا دیا۔ کھانا کھا کر دونوں بھائی سوگئے۔ شام کو اٹھ کر عصر کی نماز ادا کرنے کے بعد، امی اور چچی کھانا تیار کرنے میں مصروف تھیں۔ یہی کھانا پہلے رات کو تیار ہوتا تھا۔ مغرب کی نماز کا وقت قریب ہوا تو گھر کے سب لوگ دسترخوان پر بیٹھ گئے۔ عاقب ان سب چیزوں کو بغور دیکھ رہا تھا اسے بے چینی سے رات ہونے کا انتظار تھا۔ مغرب کے بعد سب لوگ تراویح پڑھنے جانے کی تیاری کرنے لگے۔ عاقب اور ہادی نے اپنا ہوم ورک مکمل کیا۔ عاقب نے عشاء کی نمازادا کی۔امی تراویح پڑھ ک رفارغ ہوئیں تو عاقب اور ہادی امی کے پاس آکر بیٹھ گئے۔ ہادی نے امی سے پوچھا کہ یہ روزہ کیا ہوتا ہے؟ امی کو پتا تھا کہ ابھی ہادی کو یہ بات زیادہ سمجھ نہیں آسکے گی مگر عاقب کو سمجھانا آسان تھا۔ انہوں نے عاقب کی دلچسپی کا بھی اندازہ لگا لیا تھا۔

عاقب کی امی نے ان دونوں کو بتلانا شروع کیا کہ ہم سب مسلمان ہیں۔ ہمارا مذہب اسلام ہے۔ اسلام کی بنیاد پانچ ارکان پر ہے۔ اللہ کے ایک ہونے کی شہادت دینا اور اس بات کی گواہی دینا کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ یعنی اسلام کا پہلا رکن کلمہ طیبہ ہے۔ باقی چار چیزیں اللہ کی عبادت ہیں۔ اسلام کے دوسری بنیاد نماز ہے جو ہم دن میں پانچ بار پڑھتے ہیں۔ اسلام کا تیسرا رکن روزہ ہے۔ چوتھا رکن زکوة اور پانچواں رکن حج ہے۔ اب امی نے انکو تفصیل سے بتانا شروع کیا کہ جب ہم کلمہ پڑھتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے ہم سب سے برتر ذات اللہ کو مانتے ہیں۔ اس جیسا کوئی نہیں، دنیا میں کوئی شخص اس کے برابر نہیں۔ ہمیں اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرنا چاہیے۔ اس تمام کائنات کا پیدا کرنے والا اور مالک اللہ ہے۔ باقی سب چیزیں اسی کے تابع ہیں۔ ہم محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے اللہ کا پیغمبر ہونے کا اقرار کرتے ہیں کہ وہ اللہ کے سچے پیغمبر ہیں۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ اللہ کے حکم کیا ہیں، اللہ کی عبادت کیسے کرتے ہیں۔ ان عبادات کے ادا کرنے سے انسان کو کیا فائدہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر اپنی کتاب قرآن حکیم نازل کی۔ اس میں جو احکامات ہیں ان پر حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی جماعت صحابہ نے ہمیں عمل کر کے دکھایا۔ جو شخص ان احکامات پر عمل کرے گا۔ وہی سچا مسلمان ہوگا۔

عاقب اور ہادی پوری توجہ سے بات کو سن رہے۔ کلمہ تو ہادی نے نرسری کلاس میں ہی پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ عاقب کو تو کلمہ کا ترجمہ بھی یاد تھا اور تیسری کلاس میں و ہ نماز پڑھنا سیکھ چکا تھا۔ عاقب اور ہادی کی امی نے انہیں نماز کے بارے میں بتلایا کہ اللہ نے دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ فرض نمازیں ہر مسلمان مرد و عورت پر ہر حال میں پڑھنا ضروری ہیں۔ عاقب نے پوچھا کہ نماز پڑھنے کا کیا فائدہ ہے؟ عاقب کی امی نے اسے بتلایا کہ نماز پڑھنا اللہ کا حکم ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق قائم ہوتا ہے۔ نماز پڑھنے والا جب اللہ کے سامنے جھکتا ہے۔ تو اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ میں اللہ کے حکم کے مقابلے میں کسی اور کا حکم نہیں مانوں گا۔ اس دوران میں ہادی جو کہ کافی دیر سے جمائیاں لے رہا تھا سو گیا۔ وہ چونکہ چھوٹا تھا اس کیلئے ابھی اتنی بات ہی کافی تھی۔

عاقب پوری توجہ سے بات سن رہا تھا۔ عاقب کی امی نے بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اللہ نے قرآن میں نماز کا یہ فائدہ بتلایا ہے کہ نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔ عاقب نے پوچھا امی جان بے حیائی اور برائی کیا ہے؟ عاقب کی امی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے جن چیزوں سے روکا ہے ان چیزوں کا کرنا برائی ہے۔ اس طرح اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے قانون کو توڑنا بے حیائی ہے۔ انسان جب کوئی غلط کام کرتا ہے تو اس کے دل میں محسوس ہوتا ہے کہ یہ غلط ہے۔ اسی طرح وہ چاہتا ہے کہ اسے اس کام کو کرتا ہوا کوئی نہ دیکھے یا اسکے بارے میں کسی کو پتہ نہ چلے۔ جیسے چوری یعنی کسی کی چیز کو اس کے مالک کی مرضی کے بغیر اپنے قبضہ میں لے لینا۔ یہ قانون توڑنا ہے۔ بغیر اجازت کے کسی کے پیسے اٹھا لینا بھی چوری ہے۔

عاقب کی امی کچھ دیر کے لئے خاموش ہوئیں تو اس نے فورا ً سوال کیا کہ امی روزہ کیا ہے؟ امی نے جواب دیاکہ روزہ بھی نماز کی طرح اللہ کی عبادت ہے۔ اللہ نے اپنی تمام عبادات انسانوں کیلئے اس لئے لازمی قرار دیں تاکہ انسانوں کی تربیت ہو اور وہ دوسرے انسانوں کے ساتھ بھلائی کے ساتھ پیش آئیں۔ صبح کے وقت جو تم نے کھانا کھایا اسے سحری کہتے ہیں۔ اس وقت روزہ کی نیت کر کے کھانا کھاتے ہیں۔ پھر تمام دن کھائے پیئے بغیر رہنا ہوتا ہے اور شام کو مغرب سے پہلے جو تم نے کھانا کھایا اسے افطاری کہتے ہیں۔ سحری سے لیکر افطاری تک ایک روزہ مکمل ہوتا ہے۔ عاقب نے پوچھا کہ امی احمد چچا جو چڑی روزہ کا کہہ رہے تھے وہ کیا ہے۔امی نے بتلایا کہ وہ مذاق کررہے تھے چونکہ ابھی ہادی چھوٹا ہے، وہ زیادہ دیر بھوک برداشت نہیں کرسکتا، اس لئے اس نے صبح ہی دودھ پی لیا تھا۔ تم نے دوپہر کو کھانا کھا لیا اس طرح تم آدھا دن کی بھوک برداشت کرسکتے ہو اس لئے تمہارا آدھا روزہ ہوا۔ اللہ نے اپنے دینوں کو انسانوں کی زندگی میں آسانی پیدا کرنے کیلئے بھیجا ہے،تاکہ لوگ تنگی اور پریشانی سے بچیں۔ دین پر عمل کرنا اس وقت مشکل ہوتا ہے جب ہم اللہ کے بتائے ہوئے راستے اور محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو چھوڑ کر اپنی مرضی کی چیزوں کا نام دین رکھ لیتے ہیں۔ دین نے چھوٹے بچوں پر نماز، روزہ کی عبادات کو فرض قرار نہیں دیا۔ زکوة اور حج اس بندے پر فرض ہے جو مالدار ہے۔ عاقب نے پوچھا کہ جو روزہ ہم نے رکھا وہ کیا ہے؟ امی نے اسے بتلایا کہ یہ تو صرف تمہاری مشق ہے۔ روزہ تو وہی ہوتا ہے جس میں سحر سے افطار تک کچھ نہ کھایا پیا جائے۔ کچھ روزے گزرنے کے بعد دن چھوٹے ہوجائیں گے پھر تم پورے دن کا روزہ رکھ لینا۔ عاقب خوش ہوگیا کہ وہ بھی اللہ کی اس عبادت کو کرسکے گا۔

عاقب نے پوچھاکہ امی اللہ کو ہمیں بھوکا پیاسا رکھ کر کیا فائدہ ہوتا ہے؟ عاقب کی امی نے کہا کہ ہم اللہ کے بندے ہیں۔ ہمیں ہر صورت میں اسکی بندگی کرنی چاہیے اس نے ہمیں روزے رکھنے کا حکم دیا ہے تو ہمیں اپنے خالق، مالک ورب کا حکم ماننا ہے۔ ہمارا اللہ یہ چاہتا ہے کہ میرے بندوں کی تربیت ہو ہم عام دنوں میں رات کو سوتے رہتے ہیں صبح کو سورج نکلنے سے کچھ دیر پہلے اٹھتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں جبکہ رمضان شریف میں ہم آدھی رات کو اٹھ جاتے ہیں اور اللہ کی عبادت کرتے ہیں جو اللہ کے نیک لوگ ہوتے ہیں وہ اپنا وقت غفلت سے نہیں گزارتے۔ وہ اللہ کی عبادت کے ساتھ اس کی مخلوق کی بھلائی کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ خلیفہ راشد تھے آپ رات کو گشت کیا کرتے تھے اور دیکھتے تھے کوئی شخص مشکل میں نہ ہو۔ کوئی ضرورت مند نہ ہو، تو اسی طرح ہماری بھی تربیت ہوتی ہے کہ ہم ضرورت پڑنے پر رات کو جاگ کر اللہ کی عبادت کے ساتھ اسکی مخلوق کی خدمت کرنے کی طرف متوجہ ہوں۔

عاقب کی دلچسپی اسی طرح برقرار تھی وہ دین کو سیکھنا چاہتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ اپنے مذہب کو سمجھے چنانچہ اسکی امی نے اسے مزید سمجھاتے ہوئے بتلایا کہ ہم پوراسال دن بھر اپنی مرضی سے کھاتے پیتے ہیں تو اس طرح جب ہم اللہ کے حکم سے کھانے پینے اور فضول بات کہنے سے رک جاتے ہیں تو اس سے ہماری تربیت ہوتی ہے۔ ہم تنہائی میں جاکر بھی کچھ نہیں کھاتے۔ اس سے ہمارے اندر اللہ کے قانون پر عمل کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ حالانکہ وضو کرتے وقت ہم پانی پی سکتے ہیں، کسی کو پتہ بھی نہ چلے مگر ہم اللہ کے خوف سے ایسا نہیں کرتے۔ اس سے ہم اپنی عام زندگی میں چھپ کر بھی کوئی برا کام نہیں کریں گے اس خیال سے کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔ اسی طرح جب شام کو ہمیں بھوک ستاتی ہے تو ہم کچھ کھا پی نہیں سکتے تو ہمارے دل میں یہ احساس پیدا ہونا چاہیے کہ غریب لوگ جن کے گھروں میں پورا سال کھانا کبھی ہوتا ہے کبھی نہیں تو وہ اور انکے چھوٹے چھوٹے معصوم بچے کیسے بھوکے رہتے ہونگے۔ ہمیں اپنے مال اور اپنے کھانے میں سے ان کو کچھ حصہ دینا چاہیے۔ اگر تمام مسلمانوں میں اس کا احساس پیدا ہوجائے تو ہمارے ملک میں کوئی بھوکا نہ رہے۔

روزہ سے ہمارے اندر یہ چیز بھی پیدا ہوتی ہے کہ ہمیں حلال اور حرام کی تمیز ہونی چاہیے ایسا نہ ہو کہ کچھ دیر کے لئے ہمیں حلال نہ ملے تو ہم کسی دشمن کے دھوکہ میں آکر بھوک سے بیتاب ہوکر حرام کھانے کیلئے تیار ہوجائیں اپنا ضمیر بیچ دیں۔ یا کوئی دشمن ہمیں خریدنا چاہے تو ہم دولت کی لالچ میں آکر خود کو بیچ ڈالیں اور اپنے وطن سے غداری کریں، اپنے ملک میں فساد کریں۔ یا بازار میں بیٹھ کو دھوکہ دیں، ناپ تول میں کمی کریں، چیزوں میں ملاوٹ کر کے بیچیں، جھوٹ بول کر چیز بیچیں۔ روزہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہم دوسروں کے ساتھ ہمدردی کریں۔ ہر وقت کھانے پینے کی فکر میں نہ لگے رہیں۔اپنی عقل کو معاشرے کی فلاح اور ترقی کیلئے استعمال کریں اور ضرورت کے مطابق کھا کر اپنے معاشرہ کی بھوک مٹانے کا سوچیں۔

امی چاہتی تھیں کہ عاقب سوجائے مگر عاقب ابھی کچھ اور سمجھنا چاہتا تھا عاقب نے امی کا ارادہ جانتے ہوئے کہا کہ بس آخری سوال پوچھوں گا۔ امی نے اجازت دیتے ہوئے کہا کہ پوچھو! عاقب بولا کہ پھر رمضان کے فوراً بعد عید کیوں آتی ہے؟ امی نے جواب دیا کہ رمضان کے فوراً بعد عید کا دن ہمارا امتحان ہوتا ہے کہ ہم نے کتنی تربیت حاصل کی۔ کیا ہمیں روزے نے سکھایا کہ ہم دوسروں کے ساتھ ہمدردی کریں۔ یتیموں کی خبر گیری کریں جیسے اپنے لیے اچھے اچھے کپڑے بنوائے ہیں۔ اسی طرح معاشرے کے ان لوگوں کیلئے جن کے پاس کچھ نہیں انکی بھوک مٹانے کی فکر کریں۔ ایک دوسرے سے رنجشیں اور مخالفتیں ختم کرکے عید کے دن ایک دوسرے کو گلے لگا کر دلی عید مبارک دیں۔ عاقب کی امی نے کہا کہ اب سوجاﺅ، صبح سکول بھی جانا ہے عاقب نے سونے کیلئے آنکھیں تو بند کرلیں مگراس کا دل ایمان کی روشنی سے بیدار ہوچکا تھا۔ وہ اب سوچ رہا تھا کہ ہم معاشرہ کو بہتر کرنے کیلئے کیا کرسکتے ہیں اس کے ساتھ ہی اس کے دل میں یہ بھی تھا کہ وہ اپنی امی سے دین اسلام کے باقی دو ارکان زکوة اور حج کے بارے میں بھی معلومات لے گا۔
rasheed ahmad
About the Author: rasheed ahmad Read More Articles by rasheed ahmad: 11 Articles with 17287 views Ph.D Scholar
Department of Islamic Studies
Bahauddin Zakariyya University, Multan
.. View More