یہ ایک سچا واقعہ ہے جو ہمارے ایک دوست نے سنایا تھا کہ
ایک گاؤں میں ایک چودھری صاحب نے اپنی بھینس فروخت کی اور اس کے بیس ہزار
روپئے اپنی اہلیہ کے پاس رکھادیے کہ کچھ اور پیسے ملاکر نئی بھینس خریدیں
گے ۔کچھ روز بعد ایک صبح جب چودھری صاحب گھر پر نہیں تھے ،ایک آدمی ان کے
گھر آیا اس کے ہاتھ میں دودھ سے بھری ہوئی ایک بڑی بالٹی تھی ۔اس نے
چودھرائن سے کہا کہ چودھری صاحب نے ایک بھینس خریدی ہے یہ اس کا دودھ
بھجوایا ہے اور کہا ہے کہ وہ جو بیس ہزار روپئے رکھے ہیں وہ لے آؤ تا کہ اس
کی ادائیگی ہو جائے لہذا آپ وہ رقم دے دیں ۔چودھرائن نے وہ رقم اسے دے دی
اور خوشی خوشی دودھ کی بالٹی رکھ لی۔تھوڑی دیر میں چودھری صاحب گھر واپس
آئے تو ان کی بیوی نے پوچھا کہ بھینس کہاں ہے؟چودھری صاحب نے کہا کیسی
بھینس ۔۔اب چودھرائن کا ماتھا ٹھنکا انھوں نے غصے اور لٹ جانے کے خدشے کے
ملے جلے جذبات کے ساتھ بلند آواز سے کہا ارے وہی بھینس جس کا یہ دودھ تم نے
بھیجا ہے وہ دیکھو دودھ کی بھری بالٹی رکھی ہے انھوں نے بالٹی کی طرف اشارہ
کرتے ہوئے کہا ۔چودھری صاحب نے کہا میں تو ایک دوست سے ملنے گیا تھا بھینس
خریدنا ہوتا تو وہ رقم لے کر جاتا چوہدری صاحب سمجھ گئے کہ ان کے ساتھ ہاتھ
ہو گیا ۔انھوں نے کہا دودھ کی بالٹی ایسے ہی رہنے دو اور وہ محلے والوں سے
معلومات کرنے لگے کئی لوگوں کو ساتھ لا کر وہ دودھ بھری بالٹی بھی دکھایا
کہ آپ نے کسی شخص کو دیکھا تھا جو بالٹی لے کر گھر آیا تھا لوگوں نے انکار
کیا کہ انھوں نے اہلیہ سے کہا کہ میں اب تھانے جارہا ہوں تم ابھی بالٹی کو
ہاتھ نہیں لگانا یہ کہہ کر چوہدری صاحب پولیس کو اطلاع دینے چلے گئے ،تھوڑی
دیر بعد ایک آدمی آیا اس نے چودھرائن سے کہا کہ چودھری صاحب تھانے میں
بیٹھے ہیں اور تھانیدار صاحب نے وہ دودھ کی بالٹی منگوائی ہے چودھری کی
سیدھی سادی بیگم نے وہ بالٹی اٹھا کر اسے دے دی کچھ دیر بعد چودھری صاحب
پولیس والوں کو ساتھ لے کر یہ کہتے ہوئے داخل ہوئے کہ یہ دیکھیے صاحب یہ ہے
وہ بالٹی لیکن وہاں تو کوئی بالٹی نہیں تھی اب چودھری صاحب غصہ میں چلائے
کہ میں نے کہا تھا کہ یہاں سے بالٹی نہیں ہٹانا کہاں رکھ دی ۔چودھرائن
بولیں میں نے کہیں تھوڑی رکھ دی وہ تو ایک آدمی آیا تھا کہ چودھری صاحب
تھانے میں بیٹھے ہیں اور تھانیدار صاحب نے وہ دودھ والی بالٹی منگائی ہے
میں نے اس کو دے دی ۔اب چودھری صاحب کا غصہ اپنے عروج پر تھا اور ساتھ میں
شرمندگی بھی ،پولیس والوں نے روایتی انداز میں تسلی دیتے ہوئے کہا کہ
چودھری آپ فکر نہ کریں چور کتنا ہی چالاک کیوں نہ ہو پولیس کے ہاتھوں سے بچ
کر نہیں جا سکتا۔اس واقع سے ایک بات تو ثابت ہوئی کہ پاکستان کا شہر ہو یا
گاؤں ٹیلنٹ ہر جگہ پایا جاتا ہے۔بچپن میں غمی خوشی کے موقعوں پر جب خاندان
کے بزرگ حضرات ایک جگہ بیٹھتے تھے تو ہندوستان کی پرانی باتیں اور یادوں کو
آپس میں شیئر کرتے تھے اور اس میں یہ نکتہ بھی زیر بحث ہوتا تھا کہ
ہندوستان کا کون سا شہر کس حوالے سے مشہور تھا بنارس کے بارے میں کہاجاتا
تھا کہ اس شہر میں لوگوں کو بہت آسانی سے ٹھگ لیا جاتا ہے اور بنارسی ٹھگ
پورے انڈیا میں مشہور ہیں ۔کسی محفل میں ایک صاحب نے قصہ سنایا کہ الہ آباد
سے ایک صاحب بنارس گئے وہ صبح سے شہر بھر میں گھومتے پھرتے رہے دوپہر کو
ایک پان کی دکان پر کھڑے ہو کر کچھ خریدتے ہوئے انھوں نے دکاندار سے کہا کہ
بنارس کے بارے میں سنا تھا کہ یہاں بڑے بڑے ٹھگ رہتے ہیں ،میں صبح سے چار
اشرفیاں جیب میں لیے گھوم رہا ہوں لیکن وہ ابھی تک میری جیب میں محفوظ
ہے،برابر میں کھڑے ایک آدمی نے کہا کہ آپ کی اشرفیاں جعلی ہیں یہ دو مرتبہ
آپ کی جیب سے نکل کر واپس جا چکی ہیں۔یہ واقعات محض قصہ گوئی کے لیے نہیں
ہیں بلکہ ہمیں آپ کی اور آپ کے توسط سے اپنے حکمرانوں کی توجہ اس طرف مبذول
کرانا ہے کہ ہمارے ملک بالخصوص شہر کراچی میں ڈکیتی اور رہزنی کی بڑھتی
ہوئی وارداتوں نے کراچی کے شہریوں کو ایک ایسے دردناک عذاب میں مبتلا کردیا
ہے کہ جس کے درد کی شدت محسوس تو کی جاسکتی ہے لیکن اسے کسی کے سامنے ظاہر
نہیں کیا جاسکتا جیسے کہ آپ کے سر میں درد ہو تو آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ
میرے سر میں درد ہورہا ہے لیکن اس کی تکلیف اور شدت آپ خود جتنی محسوس کریں
گے اتنا سامنے والا نہیں کرسکتا۔ایک زمانے میں میں بھی یہ کہتا تھا کہ یہ
لوٹ مار کرنے والے بیچارے حالات سے مجبور بے روزگار لوگ ہوتے ہیں لیکن جب
ایک سال قبل خود میرے ساتھ واردات ہوگئی تو اس وقت ناگہانی لٹ جانے والوں
کے جو احساسات ہوتے ہیں وہی میرے بھی ہیں اس لیے کہ مال کے ساتھ اپنی بے
عزتی جان کا خوف پولیس کی سرد مہری اور انتظامیہ کی بے حسی نے عام لوگوں
میں احساس عدم تحفظ پیدا کیا ہے میرے خیال میں کراچی کا کوئی خاندان ایسا
نہیں بچا ہو گا جس کا کوئی نہ کوئی فرد ڈکیتی و رہزنی کا شکار نہ ہوا ہو اب
تو کار میں جاتے ہوئے کوئی بائیک والا ساتھ ساتھ چل رہاہو تو ایک خوف سا دل
میں ہونے لگتا ہے اسی طرح آپ اگر بائیک پر ہوں اور کوئی دوسرا بائیک والا
آپ کے قریب ساتھ چل رہاہوتو بھی آپ انجانے خو ف کا شکار ہوں گے ۔کیونکہ ان
ڈاکوؤں کے پاس براہ راست گولی چلانے کہ کوئی اور آپشن نہیں ہوتا ۔ہمارے
محلے میں ایک دفعہ ایک لڑکا اپنے گھر کے دروازے پر کھڑا موبائل پر بات
کررہاتھا کہ اتنے میں بائیک پر ایک لڑکا آیا اور اس نے پستول دکھاکر اس سے
موبائل چھین لیا ،موبائل والا لڑکا کچھ جاندار تھا اس نے اس لڑکے کو پکڑکر
دبوچ لیا اتنے میں اس ڈاکو کا ساتھی عقب سے آیا اس نے اس لڑکے پر پے درپے
فائر کردیا جس سے وہ اسی وقت مرگیا ۔ایک دفعہ ایک صاحب کو جو موٹر سائیکل
پر تھے ایک بائیک والے نے روکا اوران سے موبائل چھین لیا اچانک واردات پر
وہ کچھ دیر سکتے میں کچھ سوچتے رہے اتنے میں ایک بائیک پر دو نوجوان آئے
کیا ہوا انکل کیا آپ کا موبائل چھن گیا انھوں پوچھا انکل وہ کدھر بھاگا ہے
انھوں ایک گلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ادھر ۔۔۔۔ان لڑکوں نے اس ڈاکو کو
گالیاں بکیں اور کہا انکل چلیے ہم اس کو پکڑتے ہیں یہ کہہ کر ایک لڑکا ان
انکل کی بائیک پر بیٹھ گیا دوسرا اپنی ہی گاڑی پر ساتھ چلا وہ انکل انھیں
اپنا ہمدرد سمجھ کر ساتھ چل دیے گلی میں جا کر ان لڑکوں نے ان پر پستول
نکال لی اور کہا اب جو کچھ نقدی ہو وہ نکال دو اس طرح موبائل کے ساتھ ساتھ
نقدی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ۔موبائل کا چھننا اب ہمارا ایک کلچر بن گیا ہے
اب یہ کوئی خبر نہیں ہے بلکہ خبر یہ ہے کہ اب تک آپ کا موبائل نہیں چھینا
گیا لوگ اب موبائل چھن جانئے سے زیادہ اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں
کہ یار اس سم میں جتنے نمبرز محفوظ تھے اب وہ دوبارہ فیڈ کرنے پڑیں گے اس
کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہم نے بھی ذہنی طورسے ان حالات سے مک مکا کرلیا ہے اب
تو ہر علاقے میں چور مارکٹیں بھی قائم ہو گئیں ہیں پچھلے دنوں ایک مقامی
اخبار نے ایک علاقے کی چور ماکیٹ کا تفصیل سے حال لکھا تھا جہاں الیکٹرانک
کا ہر سامان بالخصوص ہر قسم کا موبائل دستیاب ہوتا ہے اسی طرح چوری کی موٹر
سائیکلوں کا بھی پورا نٹ ورک ہے آپ کو اپنی بائیک بنوانی ہے اور اس میں
سامان ڈلوانا ہے تو اس حوالے سے مشہور مارکٹوں کی معروف دکانوں پر چلے
جائیں وہاں آپ کو مقامی اور جینین پارٹس مناسب قیمتوں پر مل جائیں گے
۔ڈکیتی اور اہزنی کی وارداتوں نے ہمارے سماجی ماحول پر بڑے منفی اثرات ڈالے
ہیں پہلے لوگ اپنے رشتہ داروں کے یہاں ملنے جلنے چلے جایا کرتے تھے کچھ
دوست احباب کسی ایک جگہ جمع ہو جاتے تھے ڈکیتیوں کے ساتھ دہشت گردی نے اب
لوگوں کو گھروں کے اندرمحصور کردیا ہے اب لوگ ذریعہ معاش سے واپسی کے بعد
بس ضروری ضروری کام کے لیے گھر سے نکلتے ہیں بچپن میں ہمیں اچھی طرح یاد ہے
کہ جب کسی گھر میں رات کو چور گھس آتا تھا گھر والے چور چور کا اتنا شور
مچاتے تھے کہ سب گھر والوں کے علاوہ محلے کے لوگ بھی باہر جمع ہوجاتے تھے
جس گھر میں چور آتا ان گھر والوں سے پوچھا جاتا کہ کیا چیز چوری ہوئی ہے تو
معلوم ہوتا کہ نہیں کچھ چوری نہیں ہوا بس وہ شور سنتے ہی دیوار پھلانگ کر
بھاگ گیا یعنی پہلے چوری کچھ نہیں ہوتی تھی لیکن شور بہت مچ جاتا تھااور اب
بہت کچھ لٹ جاتا ہے لیکن شور بالکل نہیں ہو پاتایہ عوام کی ایسی پریشانی ہے
جس کا حکومت کوئی نوٹس نہیں لیتی راہ چلتے ڈکیتی کرنے والے جب پکڑے جاتے
ہیں اول تو تھانے ہی سے چھوٹ جاتے ہیں اور اگر جیل بھی جانا پڑے تو کچھ دن
گزار کر رہا ہوتے ہیں اور نئی آب و تاب کے ساتھ دوبارہ سے اپنا دھندا شروع
کر دیتے ہیں۔اس مسئلے کا ایک ہی حل ہے کہ انھیں سخت سزا دی جائے اور وہ ہے
اسی مقام پر موت کی سزا ہوسکتا ہے اس سزا کو آپ بہت سخت اور زیادہ سمجھیں
لیکن دوسری طرف یہ بھی دیکھیں کہ یہ لوگ بھی ذرا سے شبہ میں ڈائریکٹ فائرنگ
کرکے بے قصور لوگوں کو جان سے مار دیتے ہیں ہمارے محلے میں ایک دفعہ ایک
دکان پہ ایک لڑکا بھتہ مانگنے آیا دکاندار غلے سے پیسے نکالنے لیے جھکا تو
وہ سمجھا کہ یہ کوئی ہتھیار نکال رہا ہے اس نے کھٹ سے اس کے سر پر فائر کر
کے اسے ہلاک کردیا ۔اس لیے اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ جہاں پر واردات ہو
سرسری سماعت کی عدالت سے فیصلہ حاصل کر کے ایک ہفتے کے اندر اسی مقام پر
انھیں شوٹ کردیا جائے ایسی اگر صرف دو چار سزائیں دے دی گئیں تو آپ یقین
جانیے پورے شہر میں سکون ہو جائے گا۔
|