ساری زندگی ہم نے یہی دعا کی کہ
ابا جی مرحوم کو دیارغیر میں کہیں نوکری مل جائے اور ہم بغیر کسی ڈر اور
خوف کے اپنی اماں کی بے پایاں محبت سے فیضیاب ہو سکیں۔ اﷲ بخشے ابا جی اس
زمانے میں ہمارے لئے ایک ایسی شخصیت تھے جن سے کسی رحم اور معافی کی کوئی
امید نہ تھی۔ بعض اوقات غلطی سے پہلے سزا ملا کرتی۔انتباہ کا تو رواج ہی
نہیں تھا۔یہ نہیں کہ ہم کوئی بہت نستعلیق قسم کے بچے تھے کہ اس ماحول سے ڈر
کے اپنی شرارتیں ترک کر دیتے لیکن ایک خیال ہمیشہ رہتا کہ اگر پکڑے گئے تو
ابا کے سامنے کس منہ سے جائیں گے۔ان کو کیا جواب دینگے۔بچوں کی معصوم
شرارتوں کی تفصیل لکھوں تو پورا ایک دیوان مرتب ہوتا ہے لیکن ان کی سخت
دکھائی دینے والی طبیعت کا اثر تھا کہ ان کی رحلت کے آٹھ سال بعد بھی کسی
غلط بات کا خیال آئے تو محض اس وجہ سے رک جاتا ہوں کہ ابا کو کیا جواب دوں
گا۔آج وہ نہیں ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ کتنے مشفق تھے،کتنے مہربان۔۔اماں
کی تربیت اور طبیعت دونوں میں پیار ہی پیار تھا اور نرمی ہی نرمی۔جب حد سے
کوئی بچہ بڑھنے کی کوشش کرتا تو وہ بڑے پیمانے پہ تباہی پھیلانے والا اپنا
اکلوتا فقرہ اچھالتیں کہ آنے دوبابا کو۔۔یہ سنتے ہی ہماری ساری شرارتوں بد
تمیزیوں اور بے باکیوں کو بریک لگ جاتی اوراس ایک فقرے نے آج تک کبھی ہمیں
راہ سے ہٹنے نہ دیا۔
کہتے ہیں کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی بھی بھول گیا۔مغرب کی تقلید میں ہم
نے کیا کیا روایات تھیں جن کا ناس مار کے رکھ دیا۔گھر میں باپ اور سکول میں
استاد دہشت گرد تصور کئے جاتے تھے لیکن بے پناہ محبت کرنے والے۔ اس تربیت
کا اثر تھا کہ اسی دھرتی نے کیا کیا نابغے پیدا کئے۔ زندگی کے ہر شعبے میں
کیا کمال کے لوگ تھے۔سیاست میں، زراعت میں، معیشت میں اور معاشرت میں۔
صحافت میں پیدل اور سائیکلوں پہ صحافت کرنے والے اور پھر اپنے آج پہ نظر
ڈالیں تو آپ کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ آپ نے گھر میں اور سکول میں عدم
تشدد کے نام پر کتنے بڑا تربیتی ادارہ تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔اب مادر پدر
آزادی ہے۔ موبائل ہیں اور ان کے پیکیج ۔انٹرنیٹ ہے اور اس کی بے پناہ
وسعت۔کسی زمانے میں محبوب کے نام چھٹی لکھنے میں بڑی رومانویت تھی اور بڑا
ایڈونچر۔آج آزادی کے نام پہ عاشق و معشوق تعلق قائم ہوتے ہی سکائپ کی
مہربانی سے ایک بستر پہ دراز ہوتے ہیں اور پھر اس ورچوئیل عشق کے جو نتائج
برآمد ہوتے ہیں ان کا اندازہ شاید آج تو صحیح طریقے سے نہ ہو سکے کہ ابھی
زمانے کی آنکھ میں کچھ حیا باقی ہے لیکن جس تیز رفتاری سے یہ مفقود ہو رہی
ہے کچھ مدت بعد یہ لفظِ حیا بس لغات ہی میں نظر آئے گا۔ہمارا مسئلہ یہ ہے
کہ ہم مسئلہ دیکھ کے کبوتر کی طرح آنکھیں موند لیتے ہیں اور پھر مسئلہ
ہمارے ساتھ وہی کرتا ہے جو بلی کبوتر کے ساتھ کرتی ہے۔
حالت یہ ہے کہ معاشرے میں جرم موجود ہے لیکن سزا کا تصور ختم ہو گیا
ہے۔معاشرہ ہی کیا یہ کائنات توازن پہ ایستادہ ہے۔ توازن بگڑے تو آن کی آن
میں یہ سب خس و خاشاک ہو جائے۔بھارت کے دھماکے یاد کریں اور ایل کے ایڈوانی
کا لہجہ لیکن جونہی پاکستان نے جوابی دھماکے کئے تو بنیا بھیگی بلی بن گیا۔
گوجرانوالہ میں امن و امان کی حالت ابتر تھی۔ ذوالفقار چیمہ نے مجرموں کو
تلاش کیا اور پھر جب انہیں پھڑکانے کا سلسلہ شروع ہو ا تو امن قائم کرنے
میں مہینے نہیں ہفتے لگے۔کراچی میں نصیر اﷲ بابر نے اتنا مارا نہیں تھا
جتناڈرایا تھا۔ دور نہ جائیں کل تک طالبان کے لہجے کی رعونت اور فرعونیت
دیکھنے والی تھی ۔وہ حکومت سے مطالبہ کر رہے تھے کہ جنگ حکومت نے شروع کی
وہی پہلے جنگ بندی بھی کرے۔ دو دن کی ائیر سٹرائیک نے ان کے لہجے نرم کر
دئیے ہیں اور ایک ماہ کی جنگ بندی کا اعلان بھی آ گیا جس کے بڑھنے کے
امکانات ہیں۔قرآن جہاں بشارت کی بات کرتا ہے وہیں ڈرانے کی بھی۔
گھر میں میں ماں پیار ہی پیار ہے محبت ہی محبت۔ریاست بھی ماں کے جیسی ہوتی
ہے۔ وہ بھی اپنے شہریوں سے ایسا ہی پیار کرتی ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کو یاد کریں
وہ ایک ریاست کا شہری تھا۔ اس نے سر عام قتل کئیے لیکن ریاست اس کے لئے ماں
کے جیسی تھی اسے چھڑا کے لے گئی ہمارا آئین قانون حب وطن عدالتیں فوج حکومت
سب منہ دیکھتے رہ گئے لیکن ریاست کے اندر اسی ریمنڈڈیوس نے کسی عام سے آدمی
سے جھگڑا کیا تو اسے جیل میں ڈال دیا گیا۔ہم نے بندروں کے ہاتھ میں
کلاشنکوف پکڑا دی ہے اور خود دور بیٹھ کے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔اس کا نتیجہ
یہ نکلا ہے کہ پچھلے دنوں ایک ٹی وی پروڈیوسر کو گرفتار کیا گیا ہے جو
طالبان کے نام پہ بھتہ وصول کیا کرتا تھا۔بیوی فیس بک پہ گھبرو پھنساکے
لاتی ہے اور اس کا وکیل میاں ان کے لواحقین سے تاوان وصول کرتا ہے۔شریعت کے
نفاذ کے نام پہ اغواء ہوتے ہیں بنک لوٹے جاتے ہیں داکے ڈلتے ہیں اور اس
پیسے سے پھر نفاذ شریعت کے لئے جدوجہد کا اعلان کیا جاتا ہے۔ ریاست میں
چونکہ ابا نہیں ہے اس لئے بیٹوں کی بغاوت کا یہ عالم ہے کہ ایک مولوی ڈنڈے
لے کے اسلام آباد کی سڑکوں پہ نکل آتا ہے اور دھونس اور دھاندلی کے ذریعے
نہی عن المنکر کا فریضہ سنبھال لیتا ہے۔ایک مسلم ریاست میں جب یہ مشہور ہو
گا کہ دارالحکومت میں عورتیں مردوں کا مساج کرتی ہیں تو پھر اس طرح کے
ڈرامے باز تو لازماََ اپنا سودا بیچیں گے۔
بد قسمتی سے اس قوم کے پیدا ہوتے ہی اس کا ابا فوت ہو گیا تھا۔ اس کی تربیت
ہی ایسی ہے کہ جو جس کے منہ میں آتا ہے کہے جاتا ہے۔ قائد کی وفات کے بعد
تھوڑا سا مشہور ہو جانے والا ہر لیڈر اپنے آپ کو قائد اعظم ثانی کہلواتا ہے
لیکن اس کی حیثیت اس ملک میں وہی ہوتی ہے جو جوان اور ہتھ چھٹ بیٹوں کی
موجودگی میں عقد ثانی کرنے والی کے میاں کی کہ اس کی کوئی نہیں سنتا۔وہ گھر
میں بھیگی بلی بنا رہتا ہے اور بس۔ اس ریاست کو ایک میاں کی ضرورت ہے اور
اس قوم کو ایک باپ کی جسے چمڑی اتارنا بھی آتی ہو۔ پھر امن ہو گا سکون ہو
گا۔ امن ہو گا تو سب ٹھیک ہو گا۔ لوگ غلط کام کرنے سے پہلے ہزار بار سوچیں
گے کہ بابا نے دیکھ لیا تو۔۔۔۔۔ |