تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حذب اﷲ مجاہد
ویسے تو تاریخ ماضی کے جھروکوں میں جھانک کر کچھ تلاش کرنے اور اس سے سبق
حاصل کرنے کا دوسرا نام ہے مگر ہوتی یہ تاریخ بڑی ظالم ہے۔یہ تاریخ ہی تو
ہے جس نے حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ،حضرت عثمان غنیؓ، حضرت علی ؓکو
ہمارے لئے مثال بنادی اور ہمیں بتا دیا کہ اگر ان کی پیروی کروگے تو دنیا و
آخرت دونوں میں کامیاب ہو جاؤگے ورنہ بھٹکتے رہ جاؤ گے،یہ تاریخ ہی تو ہے
جس نے ہمیں یہ عزت بخشی ہے کہ ہم بذات خود کچھ نہ کریں بلکہ آج بھی ابن
الہیثم، موسی الخوارزمی، جابر بن حیان، طارق بن زیاد اور صلاح الدین ایوبی
کے کارناموں پر فخر محسوس کریں ، یہ تاریخ ہی تو ہے جس نے یزید اور چنگیز
خان کو ایک صف میں کھڑا کر کے ظالم کا نام دیا، یہ تاریخ ہی تو ہے جس نے
پوری دنیا کیلئے مدر ٹریسا، فلورنس نائٹ اینگل اور نیلسن منڈیلاکو انسانیت
کے خدمت کا نمونہ بنا دیا،یہ تاریخ ہی تو ہے جس نے میر جعفر اور میر صادق
کے ماتھے کو داغدار کیا، یہ تاریخ ہی تو ہے جس نے ولیئم شیکسپئر اور
انگریزی کو ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم بنا دی، یہ تاریخ ہی تو ہے جس نے
ہٹلر کو ایک الگ اور منفرد شناخت دی اور یہ تاریخ ہی تو ہے جس نے علامہ
محمد اقبال کو شاعر مشرق بنا دیا۔
یہ تاریخ کی کارستانیاں آج بھی جاری ہیں۔ آج بھی جب کوئی مورخ اپنا قلم
اٹھائے گاتو ضرور کچھ کردار دنیا کیلئے مثال بن جائینگے اور ہاں کچھ کردار
بے نقاب بھی ہونگے۔ مجھے تو ڈر ہے کہ میں کہاں ہوں گاجب قلم اٹھے گی کیونکہ
جب قلم اٹھے گی تو یہ بھی لکھے گا کہ میرے پڑوس میں ایک علاقہ تھر بھی تھا
جہاں قحط سالی تھی، جہاں بھوک اور پیاس نے وبائی شکل اختیار کی تھی، جہان
ہر طرف موت رقصاں تھی اور ان اموات کی وجہ کوئی ڈرون ، کوئی جنگی طیارہ یا
کوئی بم کا دھماکہ نہیں تھا بلکہ ان اموات کی وجہ بھوک اور پیاس تھی اوراس
وقت میں کہاں تھا؟جب قلم اٹھے گی تو یہ بھی ضرور لکھے گاکہ اس وقت میں صدر
تھا، میں وزیر تھا، میں مشیر بھی تھا، میں جج بھی تھا، میں وکیل تھا میں
کمشنر بھی تھا، میں سفیر تھا،میں ڈاکٹر تھا، میں پروفیسر تھا، میں سرمایہ
دار بھی تھا، میں مالک ِکاروبار بھی تھا، جب تھر کا بچہ بھوک سے پاؤں رگڑ
رگڑ کر مر رہا تھا۔جب قلم اٹھے گی تو یہ ضرور لکھے گا کہ اس وقت میں وڈیرہ
تھا، میں چوہدری تھا، میں نواب بھی تھا، میں خان تھا، میں سردار بھی تھا،
میں میر تھا ، میں ملک تھا، میں خانزادہ تھا، میں نوابزادہ تھاجب تھر کا
بچہ پیاس سے بلک بلک کر مر رہا تھا۔ جب قلم اٹھے گی تو یہ بھی ضرور لکھے گا
کہ اس وقت میں سید تھا، میں صوفی تھا، میں مولانا بھی تھا، میں امیر بھی
تھا، میں مولوی بھی تھا، میں گدی نشین تھا، میں قاضی تھا،میں قاری تھا، میں
پیر بھی تھا جب تھر کی ریتیلی سرزمین اپنے باسیوں کا خون چوس رہا تھا۔جب
قلم اٹھے گی تو یہ بھی لکھے گا کہ اس وقت میں مسلم لیگ بھی تھا، میں تبدیلی
کی سونامی کا تحریک تھا، میں جمہوریت کا جیالا تھا، میں باچاخان کا حامی
تھا، میں مارکسسٹ بھی تھا، میں نیشنلسٹ تھا، میں سوشلسٹ بھی تھا، میں جمیعت
تھا، میں جماعت بھی تھا جب تھر کے بے بس ماں کی ممتا اس کے گود میں دم توڑ
رہی تھی۔جب قلم اٹھے گی تو یہ بھی لکھے گا کہ اس وقت میں پنجاب تھا، میں
سندھ تھا، میں بلوچستان بھی تھا، میں خیبر پختونخواہ تھا، میں گلگت بلتستان
تھا، میں فاٹا بھی تھا جب تھر کے لوگ بھوک سے تڑپ تڑپ کر اور پیاس سے بلک
بلک کر زندگی کو الوداع کہہ رہے تھے۔ جب قلم اٹھے گی تو یہ بھی لکھے گا کہ
اس وقت میں سندھ فیسٹیول میں انگریزی گانوں کے مزے بھی اڑارہا تھا، میں
پنجاب یوتھ فیسٹیول میں روزانہ کئی الٹے سیدھے ریکارڈ بھی بنا رہا تھا، میں
شریعت کے نفاذ کی کوششوں میں بھی مصروف تھا، میں مذاکرات بھی کر رہا تھا،
میں تبدیلی بھی لا رہا تھا، میں توانائی بحران کے حل کی کوشش کر رہا تھا،
میں امن کیلئے بھی کوشاں تھاجب تھر میں لوگ بھوک اور پیاس کو بہانہ بنا کر
مر رہے تھے۔ جب قلم اٹھے گی تو وہ یہ بھی لکھے گا اس وقت میں سب کچھ تو تھا
اگر میں نہیں تھا تو صرف انسان نہیں تھا اور مجھ میں صرف انسانیت نہیں تھی۔
اورمجھے تو صرف یہ ڈر ہے کہ جب قلم اٹھے گی تو میں بے نقاب ہوں گا۔ |