موت کا یقینی تصور

زندگی کتنی ہی حسین اور دلفریب کیوں نہ بن جائے۔ انسان دائمی زندگی کی خواہش کبھی نہیں کریگا۔ جس طرح زندہ رہنے کی تمنا ہر انسان کی سرشت میں داخل ہے۔ اسی طرح مرنے کی خواہش بھی انسانی جبلت میں پیوست ہے۔ جسکے تحت ہزاروں لوگ خودکشی کر لیتے ہیں۔ اگر چہ حیاتِ جاویداں کے لئے انسانی سعی کے ہزاروں قصے مشہور ہیں۔ آب حیات کی تلاش ، سکندر اور حضرت خضرعلیہ سلام کے قصے، سکندر کا چشمہ آب حیات پر پہنچ کر عمر دوام سے اجتناب۔

درازیء عمر کے لئے انسانی کوششین، سائینسئ تحقیقات، اور یہ توقع کہ ایک دن انسان موت پر قابو پا سکے گا۔ اور امر ہوجائے گا۔ جبکہ وہ جانتا ہے۔ کہ انسانی جسم کے مادی اجزاء کا اور انرجی کا فطری قوانین کی بنا پر کبھی ایک حالت میں قائم و دائم نہیں رہ سکتے۔ کیونکہ مادے میں تغیراور انتشار لازم ہے۔ اور یہی موت کا دوسرا نام ہے۔

انسانی عمر کے معاملے میں عمر کا حساب رکھنا ایک منطقی طریقہ ہے، اور اندازے ہیں، تاکہ پتہ چلایا جاسکے، کہ کونسا انسان کب تک زندہ رہا ۔ کتنی طویل عرصہ تک زندہ رہا، کیا کیا کار ہائے نمایا ن سر انجام دئے۔ تاکہ حساب کتاب رکھا جاسکے۔

طویل عمری کاتعلق، جسمانی ساخت، صحت تندرستی،حالات و آب و ہوا ،خوراک اور ماحول پر منحصر ہے۔جس کے لئے انسان احتیاطی تدابیر، اور مندرجہ بالا چیزون کا خیال رکھتا ہے۔ تاکہ اپنے مادی جسم زیادہ سے زیادہ عرصہ تک مادی تغیرات سے محفوظ رکھ سکے، ان مادی تغیرات کو ہی موت کہا جاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ ہمارا بحیثیت مسلمان یہ ایمان کامل ہے ۔ کہ موت برحق ہے ۔ اور کائنات کی ہر شےٰ اپنے اختتام کی طرف دوڑ رہی ہے۔ اور اس کائینات کی ہر چیز فناء ہونی ہے۔

اس ترقی یافتہ دور میں جبکہ سا ئینس روز انسان کو حیرت میں ڈال رہی ہے۔ جو آج سے چودہ سو سال پہلے نبی کریم ﷺ نے اپنی الہامی احادیث میں کہا تھا۔ اور پیشگوئیان کی تھیں۔ اور جو کچھ الہامی کتاب قرآن پاک میں موجو د ہے۔ اور ثابت کیا تھا۔ کہ انسان جتنی بھی ترقی کی منازل طے کرلے، مادہ ہے اور مادہ کو فناء ہے۔ موت برحق ہے۔ قیامت بر حق ہے۔ آنی ہےکائینات نے فناء ہونا ہے۔ سب ریزہ ریزہ ہونا ہے۔ اور باقی رہنے والی ذات با صفات ، اول و آخر، ظاہر، باطن، حاضر و ناضر، ایک اللہ کی ہی ذات ہے۔

یہ کیسی ترقی ہے، کیسی سائینس اور ٹیکنالوجی ہے۔ جو انسان اپنے آپ کو فناء کرنے کے لئے روز بہ روز بڑھا رہا ہے۔ جبکہ وہ جانتا ہے، کہ مادہ ہے فناء ہونا ہے ، پھر بھی موت کا سوداگر بنا بیٹھا ہے۔ یہ کس چیز کی حوس ہے۔ یہ کیسی ترقی ہے۔ ایک طرف امن اور محبت کا پرچار کرتا نظر آتا ہے، دنیا کو امن کا گہوارہ بنانا چاہتا ہے۔ اور دوسری طرف اپنے ہی جیسے انسانون کو اپنی ترقی اور ٹیکنالوجی سے تباہ ہو برباد بھی کررہاہے۔ جانتا ہے۔ فناء ہونا ہے۔ اور پھر بھی فناء ہونے والی چیز کو فناء بھی کر رہا ہے۔
یا پھر اسے اپنی بقاء اور دائمی حیات کو پتہ چل گیا ہے۔ کہ جتنے انسانو ن کو فناء کرو گے، انکی باقی زندگی تمھیں مل جائے گی، اور تمھاری عمر میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ (یعنی دوسرون کی فناء میں تمھاری بقاء ) ہے۔ ہر انسان دوسرے انسان کا قاتل بناہوا ہے، جیسے اسنے موت کا ذائیقہ چکھنا ہی نہیں ہے۔

ایک طرف انسان دنیا کو گلوبل ویلیج بنانا چاہتا ہے۔ اور دوسری طرف ویلج کو تباہ ؤ برباد کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ جبکہ خالق ِ کائینات نے چودہ سو سال پہلے بتا دیا ہے۔ سب کچھ تباہ ہوجانا ہے، ریزہ ریزہ ہوجانا ہے۔ تو انسان اس بات کو کیون نہیں سوچتا کہ جب تک زندہ رہیں م محبت، امن اور آشتی سے رہیں۔ جب تک زندہ رہیں ایک دوسرے کا احترام کریں، عزت کریں۔ اس دنیا کو سنوارین۔ اور نکھاریں۔ خود بھی زندہ رہیں اور دوسروں کو بھی زندہ رہنے دیں۔ موت کو سب کو آنی ہی ہے، فناء تو سب نے ہونا ہی ہے۔ تو جب تک فناء کی گھڑی نہیں آتی ، اس وقت تک بقاء سے رہیں۔ کہین ایسا نہ ہو کہ شیر آیا شیر آیا والی کہانی ایک دن ختم ہوجائے۔ اور جو قیامت ہم روز روز لاتے ہیں ۔ کہیں وہ اچانک آ ہی نہ جائے۔۔۔۔
آپ بھی سوچئیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں بھی سوچتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فاروق سعید قریشی
About the Author: فاروق سعید قریشی Read More Articles by فاروق سعید قریشی: 20 Articles with 19946 views میں 1951 میں پیدا ہوا، میرے والد ڈاکٹر تھے، 1965 میں میٹرک کیا، اور جنگ کے دوران سول ڈیفنش وارڈن کی ٹریننگ کی، 1970/71 میں سندھ یونیورسٹی سے کامرس می.. View More