اپریل فول : ایک بے ہودہ رسم

جب جھوٹ جیسی مکروہ چیز کوفن بنالیاجائے،جب دھوکہ بازی کوپالیسی کادرجہ مل جائے،جب اپنے مسلمان بھائی کی جان ازراہ مزاح دبوچ لینے کوقانون محفوظ راستہ دینے لگے،تو پھریقین کرلیناچاہیے تاریخ اپنے خطرناک دور میں داخل ہوکربھیانک نتائج کوجنم دینے جارہی ہے۔کیایہ وقت بھی آجاناتھاکہ قلعہ اسلام پاکستان میں سیاہ کاری کےاستعارے”مغرب“کی نقالی میں نوجوان جھوٹ بولنے کے لیےایک پورادن منایاکریں گے۔آگے بڑھنےسےقبل مناسب معلوم ہوتاہےکہ اپریل فول کےپس منظر کاجائزہ لیاجائے۔

فرانس میں۱۷ویں صدی سے پہلےسال کاآغازجنوری کےبجائےاپریل سے ہواکرتاتھا۔اس مہینے کورومی لوگ اپنی دیوی وینس (venus) کی طرف منسوب کرکےمقدس سمجھاکرتےتھے۔وینس کاترجمہ یونانی زبانمیں(Aphrodite)کیاجاتاتھا۔شایداسی یونانی نام سے مشتق کرکےمہینے کانام اپریل رکھ دیاگیا۔یکم اپریل سال کی پہلی تاریخ ہوتی تھی اوراس کے ساتھ ایک بت پرستانہ تقدس بھی وابستہ تھا۔اس لیے اس دن لوگ جشن مسرت منایا کرتے تھے۔اس کاایک حصہ ہنسی مذاق بھی تھا،جورفتہ رفتہ ترقی کرکےاپریل فول کی شکل اختیار کرگیا۔

اپریل فول کی ایک دوسری وجہ ۱۹ویں صدی کےمعروف انسائیکلوپیڈیا”لاروس“ میں لکھی ہےکہ یکم اپریل وہ تاریخ ہےجس میں یہودیوں کی طرف سےحضرت عیسٰی کوہنسی مذاق اوراستہزا کانشانہ بنایاگیا۔موجودہ انجیلوں میں بھی یہ واقعہ تفصیلاذکرہے۔لوقا کےانجیل(Luka s Bible)کے الفاظ یہ ہیں!”ایک یہودی نے حضرت عیسٰی کوگرفتارکیاتھا۔وہ آپ کاٹھٹھہ اڑاتےاورمارتےرہتے۔ان کی آنکھیں باندھ کرمنہ پرمارتےاورکہتے:معجزے کے ذریعےبتاتجھ کوکس نے مارا؟“انجیلوں میں یہ بھی بیان کیا گیاہےحضرت عیسٰی کویہودسرداروں اورعلماءکی عدالت میں پیش کیاگیا۔پھرانہیں پیلاطس کی عدالت میں لےگئے کہ ان کافیصلہ وہاں ہو گا۔پیلاطس نےانہیں ہیروڈیس کی عدالت میں بھیج دیااوربالآخرہیروڈیس نے دوبارہ فیصلے کےلیےان کوپیلاطس کی عدالت میں بھیج دیا۔لاروس کاکہنا ہےحضرت عیسٰی کوایک عدالت سےدوسری عدالت میں بھیجنے کامقصدان کے ساتھ مذاق کرنااورانہیں تکلیف پہنچاناتھا۔یہ واقعہ یکم اپریل کوپیش آیاتھا،اپریل کی رسم درحقیقت اس شرم ناک واقعے کی یادگارہے۔لاروس نےاس توجیہ کوبڑےوثوق کےساتھ درست قراردیاہےاوراس کے شواہد بھی پیش کیےہیں۔اگراپریل فول کاباعث یہی واقعہ ہوتوغالب گمان یہی ہے کہ یہ رسم یہود کی جاری کی ہوئی ہے اوراس کامنشاءحضرت عیسٰی کی تضحیک ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ جو رسم حضرت عیسٰی کی ہنسی اڑانے کے لیےجاری کی گئی تھی،اسے عیسائیوں نے کس طرح ٹھنڈے پیٹوں قبول کرلیا۔بلکہ خود بھی اسے منانےاوررواج دینے میں شریک ہوگئے۔بظاہر ہوناتویہ چاہیےتھاکہ یہ رسم ان کی نظروں میں قابل نفرت ہوتی کہ ان کے نبی حضرت عیسٰی کی تضحیک اوراستہزاءکی تلخ یادوں کولےکرآتی ہے۔

اپریل فول سے متعلق ایک واقعہ سقوط اندلس کےحوالےسے بھی ذکرکیاجاتاہےکہ جب اسپین پرعیسائیوں نے دوبارہ قبضہ کرکےمسلمانوں کے خون کی ندیاں بہادیں۔قتل وغارت سے تھک کرمسلمانوں کاجلدازجلدخاتمہ کرنے کے لیےعیسائی بادشاہ فرڈی ننڈ(Ferdinend)نےاعلان کیا کہ یہاں مسلمانوں کی جان محفوظ نہیں۔اس لیے ہم نےانہیں ایک اوراسلامی ملک میں بسانے کافیصلہ کیاہےجومسلمان وہاں جاناچاہتے ہیں حکومت انہیں بذریعہ بحری جہازبھجوادے گی۔مسلمان جوعیسائیوں کےظلم وتشدداورخون ریزی سے تنگ آچکےتھے،یہ اعلان سن کرجان بچانےاوراسلامی ملک بسانےکےشوق میں جہازپرسوارہوگئے۔سمندرکےبیچ جاکرفرڈی ننڈکےگماشتوں نےجہازمیں بارودسےسوراخ کیااورخودحفاظتی کشتیوں کےذریعےبچ نکلے۔چشم زدن میں پوراجہازمسافروں سمیت غرق ہوگیا۔اس پرعیسائی دنیا میں بڑی خوشیاں منائی گئیں۔مسلمانوں کوبےوقوف بنانے پربادشاہ نےان سب کودادودہش سے نوازا۔وہ یکم اپریل کادن تھا۔فرڈی ننڈکی شرارت اورمسلمانوں کوڈبودینےکی یادمیں مغربی دنیامیں یکم اپریل کواپریل فول منایاجاتاہے۔لوگوں کوجھوٹی خبریں سناکرپریشان کیاجاتاہےاوربےچارےمسلمان بےخبری یاپھربےضمیری کی بناپراپنےبھائیوں کودبونے کی خوشی میں مغرب کےہم نوابنتے ہیں۔

اپریل فول وینس نامی دیوی کی طرف منسوب ہو،حضرت مسیح کے مذاق اڑانے کی یادگارہویاپھرفرڈی ننڈکامسلمانوں کوجھوٹ اورفریب سے ڈبودینے کی یادمیںہو۔ہرصورت میں اس کارشتہ کسی گستاخانہ نظریے ،مفسدانہ یاداورنامنصفانہ واقعےسے جڑاہواہے۔اس کی ابتدااورمنشاءکوجاننےکےباوجودبحثیت مسلمان اس دن کومناناگویاعقل کوگالی دینے کےمترادف ہے۔

ان حقائق کے پیش نظر ہمیں سوچنا چاہیے کی بحیثیت مسلمان ہم کہاں کھڑے ہیں؟ اپریل فول میں جھوٹ بول کہ کہیں اللہ کی لعنت کے مستحق تو نہیں ٹھہرتے؟کسی مسلمان کو دھوکہ دے کہ غیر شعوری طور پر ہم اپنی سیہ بختی میں اضافہ تو نہیں کر رہے؟ مغرب کی اس بےسوچے سمجھے تقلید میں کہیں ہم اپنوں کی مظلومانہ شہادت کی خوشی تونہیں منارہے؟

Abdullah Mutasim
About the Author: Abdullah Mutasim Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.