ڈالر بھولا اور کاکا

میں دن بھر کا تھکا ہوا ابھی گھر کے دروازے پہ ہی پہنچا تھا کی دانشور اعظم جناب بھولا صاحب آدھمکے۔ یہ کسی ناگہانی کا اشارہ تھا کیونکہ قبلہ اکثر نہار منہ ہمارے مغز کا ناشتہ پسند کرتے ہیں۔بادلِ ناخواستہ گاڑی سے اتر کے قدمبوسی کی سعادت حاصل کی۔ آج ان کے ساتھ ایک اور کیریکٹر بھی تھا۔ نیند دل ودماغ پہ سوار تھی ۔جی یہی چاہتا تھا کہ جناب دروازے سے ہی ٹل جائیں لیکن ان کے تیور دیکھ کے ہمت ہی نہ ہوئی ۔بادل ناخواستہ ڈرائنگ روم کھلوایااور خود کو کسی مجرم کی طرح بھولے کے کٹہرے میں پیش کر دیا۔بھولے نے پہلے تو کچھ واہیات قسم کی گفتگو کی جس سے صرف مہمان کو یہ بتانا مقصود تھا کہ وہ میرے ساتھ کتنا فرینک ہے۔اس کے بعدوہ مہمان کی طرف مڑ کے گویا ہوا۔لے وائی کاکا شروع ہو جا۔ کاکا جیسے اسی انتظار میں تھا۔اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ بس شروع ہو گیا۔

جناب ! ڈالر ایک دم ایک سو دس روپے سے ننانوے روپے کا ہو گیا ہے اور یہ خطرے کی گھنٹی ہے۔شدت سے دل چاہا کہ ایک زناٹے دار تھپڑ اس بونگے کے منہ پہ ماروں اور بیس پچیس ٹھڈے بھولے کی پشت پہ بھی رسید کروں لیکن ایک تو نیند اور دوسرے ان دونوں کا ڈیل ڈول دیکھ کے ہمت نہ پڑی ۔کہا تو بس اتنا کہ بھائی ڈالر مہنگا ہو رہا تھا تو خطرے کی گھنٹی بج رہی تھی اور اب سستا ہو رہا ہے تو آپ ٹل کھڑکا رہے ہو۔آپ کا تعلق کہیں عوامی مسلم لیگ سے تو نہیں؟ آپ بھی کہیں شیخ رشید کی طرح کسی سے کوئی شرط تو نہیں لگا بیٹھے یا آپ نے بہت سے ڈالر خریدے ہوئے تھے اور اب ان کی مالیت میں خاصی کمی آ گئی ہو گی اس لئے اب آپ کے کانوں میں گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ آپ کو اندازہ نہیں کہ روپے کی قدر بڑھنے سے ہماری معیشت پہ کتنے اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ ہمارے بیرونی قرضے کم ہو جائیں گے۔ ہم سستا پترول خریدیں گے۔سستی بجلی بنائیں گے۔وہ بجلی صنعتوں کے پہیئے کو رواں دواں کرے گی۔ہم اپنا مال باہر بھیجیں گے اور یوں ملک میں خوشحالی آئے گی۔ہمیں تو وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار صاحب کا شکر گذار ہونا چاہئیے کہ ان کی تہجد میں مانگی دعائیں اور شبانہ روز محنت رنگ لے آئی ہے اور اب کچھ ہی دنوں میں اس کا اثر ہم عوام خود اپنی اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے ۔ہم لیکن بے صبری قوم ہیں اور سازشی بھی۔ ہر اچھی چیز میں بھی برائی تلاش کرتے ہیں۔

میں دراصل اپنا غصہ اتار رہا تھالیکن میں نے دیکھا کہ بھولے کا وہ مہمان ایک ٹک میرے چہرے پہ اپنی نظریں گاڑے ہوئے تھا اور اس کی آنکھوں میں بے یقینی کی کیفیت تھی جیسے کوئی شخص سونا خرید کے لائے اور گھر پہنچ کے اسے پتہ چلے کہ وہ تو سستا پیتل لئے پھرتا ہے۔مجھے اس کے دیکھنے کاانداز کچھ عجیت تو لگا لیکن میں دل ہی دل میں اس کی اس کیفیت کا مزہ لے رہا تھا کہ بھولے نے میرا مزہ کرکرا کر دیا۔جناب پوری بات تو سن لیں اس کاکے کا مسئلہ کچھ اور ہے۔اب جو غور کیا تو لگا کہ کاکا کچھ ایسا کاکا بھی نہ تھا۔شکل سے وہ پڑھا لکھا اور معقول آدمی دکھائی دیتا تھا ۔ پڑھے لکھوں کو سامنے دیکھ کے ہماری تو ویسے ہی گھگھی بندھ جاتی ہے۔ اب کی بار بھی یہی ہوا۔اب ہم اس ارسطو کے بولنے کے منتظر تھے لیکن وہ کوئی ایسا مشتاق نظر نہ آتا تھا۔براہ راست سوال سبکی کا باعث تھا لیکن اس کی نگاہیں جسم کو چیرے دے رہی تھیں۔اسے شاید ہماری حالت پہ ترس آ گیا۔کہنے لگا جناب تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں جب بھی ڈالر کی فراونی ہوئی ہے پاکستانی عوام کو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑی ہے۔اس کا ایک فقرہ ہی ہماری ہوا نکالنے کو کافی تھا۔تاریخ جاننے والے جاہل نہیں ہوتے اور نہ ہی انہیں سطحی باتوں سے قائل کیا جا سکتا ہے۔عزت اسی میں تھی کہ چپ رہ کے مخاطب کو سنا جائے۔

مجھے اور بھولے دونوں کو ہمہ تن گوش پا کے وہ بولا۔بھٹو کی پھانسی کے وقت بھی امریکی ڈالر فراواں ہوئے تھے۔اس کا خمیازہ آج تک ہم بھگت رہے ہیں۔افغان جہاد میں ڈالروں کی بھرمار آج بھی ہمیں خون کے آنسو رلا رہی ہے۔ اس کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پھر ڈالروں کی بوریاں تو ہم نے خالی کر لیں لیکن واپسی پہ انہی بوریوں کو ہمیں اپنی خود مختاری اور اقتدار اعلیٰ سے دستبرداری کی لاشوں سے بھرنا پڑا۔خدا جانے کب تک ہم اس کا بھگتان بھگتتے رہیں گے۔وہ شخص اب باقاعدہ شرمندہ کرنے پہ تلا تھا۔کہنے لگا ڈالر دیکھ کے ہمارے ہاں بڑے بڑوں کے منہ سے رال ٹپکنے لگتی ہے۔ڈنگ ٹپاؤ پالیسیوں سے ملک نہیں چلا کرتے۔ وقتی مفاد اور اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے کئے گئے فیصلے عوام کو ایک نئے عذاب کو مبتلا کر دیتے ہیں۔کیا آپ کے خیال میں وہ دوست جو اندر ہی اندر ہماری سلامتی کے درپے ہیں ۔جو ہمارے ملک میں ہونے والی فرقہ وارانہ لڑائیوں کو اپنی فنڈنگ سے ہوا دیتے رہے ہیں ۔ایک ہی لمحے میں انہیں ہم پہ اتنا پیار آگیا ہے کہ انہوں نے ہمارے خزانے کو بھرنے کے لئے ہمارے خزانوں کے منہ کھول دئیے ہیں۔ ان ڈالروں کے بدلے کہیں ہمیں پھر لاشوں کے تحفے تو نہیں ملیں گے۔ کیا ڈالر لے کے ہم پھر کوئی نئی مصیبت تو خریدنے نہیں جا رہے؟ کیا کوئی نئی جنگ پھر ہمارے سروں پہ مسلط تو نہیں ہونے جا رہی۔

جناب ہم نے ان ڈالروں کے بدلے بڑا عذاب سہا ہے۔اب اس مظلوم عوام کا حوصلہ تقریباَ جواب دے چکا ہے۔ شیخ رشید کو نیچا دکھاتے دکھاتے کہیں ایسے نہ ہو کہ ہم اپنی شناخت ہی کھو بیٹھیں۔ مہنگائی کم ہونی چاہئیے جناب والا لیکن پاکستان کی قیمت پر نہیں۔ یہ بات کہہ کے وہ اٹھ کھڑا ہوا اور اس کے ساتھ بھولا بھی ۔بھولے کی چھاتی یوں پھولی ہوئی تھی جیسے مدتوں بعد اس کے بالکے نے کوئی بڑا میدان مار لیا ہو۔ وہ چلے گئے ہیں اور میں ابھی تک سوچ رہا ہوں کہ پاکستان کے کاکے کیا کیا سوچنے لگے ہیں۔ یہ خیال مجھے تو آیا نہیں لیکن کیا ہمارے حکمرانوں کو اس بات کا خیال ہے کہ ہم ڈالروں کے بدلے کوئی نئی جنگ افورڈ نہیں کر سکتے۔نہ سعودی عرب کی نہ شام کی،نہ مصر کی اور نہ لیبیا کی۔نہیں بھئی کسی کی بھی نہیں۔
 

Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 269084 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More